عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل باجوہ کا عہد چھ سال کے بعد ختم ہوا۔ یہ چھ برس ملک کے لیے کتنے سود مند ثابت ہوئے؟ ان میں فوج کے تشخص اور وقار میں کتنا اضافہ ہوا؟ ملک نے کتنی ترقی کی؟ جمہوریت اور غیر جمہوری قوتوں میں کس قسم کا ٹکراؤ ہوا؟ اس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا رہے گا فی الوقت منیر نیازی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے اسی کے سہارے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش ہے
کتاب عمر کا ایک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا، ایک عذاب ختم ہوا
جنرل باجوہ نے اپنے آخری خطاب میں جمہوریت اور آئین پاکستان کا بہت ذکر کیا۔ اس نظام کے فضائل اور ثمرات بھی گنوائے، آمریت کے تباہ کن اثرات کا بھی ذکر ہوا، غیر جمہوری قوتوں کے سیاست میں عمل دخل پر بھی کڑی تنقید کی۔ فوج کو سیاست سے دور رہنے کی نصیحت بھی کی۔ بدقسمتی سے جب انہوں نے جمہوریت کے ثمرات گنوانے شروع کیے اس وقت تک ان کے دور اقتدار کو چھ برس گزر چکے تھے۔ بہت سا پانی پلوں تلے بہہ چکا تھا۔ جمہوریت کا قافلہ دو ہزار اٹھارہ میں ان کی سرپرستی میں لٹ چکا تھا۔ ایک ہائی برڈ نظام ولولہ انگیز آغاز سے لے کر عبرت ناک انجام کو پہنچ چکا تھا۔
جنرل جمہوریت کی بات کریں تو یہ بات جمہوریت پسندوں کو خوش آتی ہے۔ ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ فوج کا ایک جوان جہاں وطن کے دفاع کی قسم کھاتا ہے اسی طرح پارلیمان کی بالا دستی کی قسم کھائے، اسی طرح ووٹ کی عزت کو شعار بنائے، اسی طرح عوامی نمائندگان کو محترم جانے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں جنرل جب جمہوریت کا ذکر کرتے ہیں تو یا تو وہ رخصت ہو رہے ہوتے ہیں یا جمہوریت رخصت ہو رہی ہوتی ہے۔ ہر دو صورت حال میں جمہوریت نہ نظام ہوتا ہے نہ ایمان بس ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جاتا ہے۔
سول ملٹری تعلقات کی بحث نئی نہیں ہے۔ یہ تو دور ایوب سے ہو رہی ہے۔ پہلے یہ بحث ہر شخص کی دسترس میں نہیں تھی۔ ایک زمانے میں یہ بحث صرف انگریزی اخباروں کے ایڈیٹوریلز میں، اشرافیہ کے ڈرائنگ رومز میں، یا پھر دانشوروں کے ٹی ہاؤسز میں ہوتی تھی۔ اب المیہ یہ ہے کہ اس بحث پر ہر شخص کی دسترس ہو چکی ہے۔ ریڑھی والا بھی اپنی رائے رکھتا ہے، چنگچی چلانے والے کا بھی کوئی منظور نظر جنرل ہے، اور تانگے والے کے مطالبات بھی کچھ اور ہیں۔
اتنا تو ہم جانتے ہیں کہ ادارہ کبھی اپنے کاموں میں مداخلت پسند نہیں کرتا۔ وہ ان نازک موضوعات کو سڑک کی بحث بنانے سے خوفزدہ رہتا ہے۔ لیکن اب زبانیں بے لگام ہو چکی ہیں، غداری کا طعنہ تمغہ ہو چکا ہے۔ سب ہی قریباً قریباً ملک دشمن اور را کے ایجنٹ ہو چکے ہیں۔ بات اب اتنی بڑھ گئی ہے کہ پہلے تو صرف چیف کی ذات بابرکات موضوع بحث ہوتی تھی اب تو کسی کور کمانڈر کی تبدیلی سے بھی کچھ کے دلوں میں امید کا چراغ جلتا ہے اور کچھ کی آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے ہیں۔
حالات اسی نہج پر چلتے رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ جب کسی کپتان یا میجر یا کرنل صاحب کی ٹرانسفر پر بھی ٹی وی پر مباحثے ہوں گے، سیاسی قائدین جلسوں میں تقریریں کریں گے اور سوشل میڈیا اس کے حق یا موافقت میں ٹرینڈ چلائے گا۔ یہ صورت حال نہ ادارے کے لیے اچھی ہے نہ ملک کے لیے۔ نہ اس سے فوج کا وقار قائم رہ سکتا ہے نہ ہی اس طرز سے ملک کی عزت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اپنے ہاں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ فوج کے نظریات اور نظریہ جمہوریت میں ہمیشہ تصادم نظر آتا ہے۔ جمہوریت کا نام آتے ہی اصل اہل اقتدار کی بھنویں تن جاتی ہیں، لہجے میں کرختگی آ جاتی ہے اور زبان پر سیاست دانوں کی بدعملی کے قصے رواں ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بھی فوج کے کردار کو جمہوریت کے لیے زہر قاتل سمجھتی ہیں۔ ادارے کے ذکر کے ساتھ ہی انہیں وہ سارے آمر یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے اس ملک میں اپنی من مانی کی، آئین پاکستان کو پاؤں تلے روندا اور انسانی حقوق کو پامال کیا۔ اختلافات کی یہ خلیج روز بہ روز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ درمیان کا رستہ نہ کسی کو سوجھتا ہے نہ کسی کی اس جانب کاوش نظر آتی ہے۔ یہ دونوں نظریات اس ملک میں دہائیوں سے دست و گریبان ہیں۔ صلح صفائی کی کوئی نوبت ہی نہیں آتی۔ ان حالات میں مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ حل صرف اس صورت میں ممکن ہے جب پہلے مسئلے کی شناخت پر اتفاق کیا جائے۔ ایک دفعہ یہ شناخت فریقین کے اتفاق سے ہو جائے تو پھر حل بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
جنرل باجوہ کے آخری آخری خطابات علیہ کے چیدہ چیدہ اقوال زریں پر غور کریں تو اس میں ہائی برڈ نظام کے قیام پر تاسف اظہار بھی ملتا ہے۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی نظر آتا ہے۔ یہ خوش آئند ہے۔ اعتراف درستگی کی طرف پہلا مرحلہ ہے۔ یہی وہ گرینڈ ڈائیلاگ ہے جس کا ذکر اکثر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس مکالمے کی ابتداء جنرل باجوہ کے اعتراف سے کشید کی جا سکتی ہے۔
یہ درست ہے کہ گیا وقت لوٹ کر دوبارہ نہیں آ سکتا۔ ماضی کی غلطیاں پر بیک جنبش قلم سیاہی نہیں پھینکی جا سکتی ہے۔ لیکن ماضی سے مستقبل کی درست راہیں ضرور تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اسی کی اب ضرورت ہے۔ نفاق کی اس فضا کو اب ختم ہونا چاہیے۔ اختلافات کو اب دم توڑ دینا چاہیے۔ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہر جانب سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا جائے۔ ان پر پچھتاوے کا اظہار کیا جائے۔ اس پچھتاوے سے ہی آگے بڑھنے کی سبیل نکلے گی۔ یہی اعتراف ملک کو درست سمت کی جانب گامزن کرے گا
فوج کی نئی قیادت کی جمہوریت پسندی اور آئین سے محبت کے بہت گیت گائے جا رہے ہیں۔ غیر جمہوری رویوں کی ممانعت کی جا رہی ہے۔ لیکن ایسے قصیدے ہر نئے سپہ سالار کی آمد پر گائے جاتے ہیں۔ ہم ایسوں کے تو اس نئی قیادت سے صرف دو مطالبات ہیں۔ ایک تو یہ کہ فوج اور جمہوریت میں تصادم نہیں تعاون نظر آنا چاہیے دوسرا جہاں آپ کے سینوں پر شجاعت کے نقرئی تمغے جگمگا رہے ہوتے ہیں وہیں ایک تمغہ جمہوریت بھی آپ کے سینوں کو منور کر رہا ہو۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ