علی نقوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کی کتب میں سقراط یونانی کا تذکرہ کم یاب ہے، اس کے شاگرد رشید (افلاطون) کی مہربانی سے ہم تک اس کے نظریات تو پہنچے لیکن اس کے حالات زندگی کی مکمل تفصیل جاننے والوں کو آج بھی تشنگی کی پھانس چبھتی ہے، جس مقدمے کی پاداش میں اس کو زہر کا پیالہ پینا پڑا اس کے مبینہ طور پر تین مدعی تھے۔ پہلا ”لائے کن“ (مذہبی خطیب) ، ”انائیٹس“ (سیاسی رہنما) اور تیسرا لیکن اہم ”ملے ٹس“ (معمولی شاعر) ان تین لوگوں نے مقدمہ درج کرا کے الزام لگایا کہ سقراط نوجوانوں کے اخلاق کو بگاڑتا ہے، قومی دیوتاؤں کو نہیں مانتا اور نیا خودکار دیوتا متعارف کراتا ہے۔ 399 ق م میں 500 ججوں پر مشتمل جیوری نے صرف ایک دن کی سماعت میں 110 کی اکثریت سے سقراط کو سزائے موت سنائی۔
لیکن کیا ہی عجب اتفاق ہے کہ 2600 سال بعد ملتان میں ایک سقراط پیدا ہوا جس نے بونے اور انسان کو واضح طور پر الگ الگ کر کے دکھایا جس نے بونوں کے لیے بالشتیے جیسی بے مثل اصطلاح متعارف کرائی، اس کے خلاف ساری زندگی برسر پیکار رہنے والے بھی انہی تین طبقات کے نمائندے تھے کسی نے اس پر الحاد کا الزام لگایا، کسی نے اس کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر اس کو اینٹی سٹیٹ کہا، کسی نے اس کو استاد کے منصب سے اس لیے نا اہل سمجھا کہ وہ شاگردوں کو سگریٹ پیش کیا کرتا تھا، کوئی اس کو اس لیے حقیر سمجھتا تھا کہ وہ نوجوانوں کے جنسی مسائل کو کلاس میں ڈسکس کر لیا کرتا تھا، کوئی اس کو اس لیے پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ معاشرے کی مبینہ اعلیٰ اقدار کو نئی نسل کو کنٹرول کرنے کا ریاستی اوزار سمجھتا تھا اور اس سب کے ساتھ ساتھ ہر وہ معمولی پروفیسر کہ جس کا والد شاید اسی کی سفارش سے بھرتی ہوا تھا کہتا تھا کہ ”کیا ہوا اگر خالد سعید پروفیسر ہے وہ تو میں بھی ہوں“ ۔ تبھی کلیمنٹ جان نے خالد سعید کے جنازے پر مجھے گلے ملتے ہوئے کہا تھا کہ ”استاد چلا گیا، پیچھے تو صرف پروفیسر ہی رہ گئے“ ۔
میں ملتان کے سقراط خالد سعید کا دین دار ہوں، مقروض ہوں، میں اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ ملتان میں رہا، میں رب کا شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ مجھے مل گیا، میں اس کے ساتھ رہا ورنہ نہ جانے میں آج کیا ہوتا میں جو کہ اس کے ساتھ زندگی کے سینتیس سال گزارنے کے باوجود بونا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ اگر وہ مجھے نہ ملا ہوتا تو میں کیا ہوتا؟
ایک شام کہ جب موسم مچھلی اور جنت کے مشروب کی ترغیب دے رہا تھا سقراط ملتان میرے گھر کے لان میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہنے لگا کہ تم لٹریری فیسٹیول کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟ میں ہنس دیا۔ میں نے کہ ”کہاں میں کہاں پورا لٹریری فیسٹیول“ ؟
سقراط کی آنکھیں چمکیں، سگریٹ کو ایش ٹرے میں بجھایا اور یہ کہہ کر اٹھ گیا کہ ”تم ہی ہو جو کر سکتے ہو“
اگلے لمحے آف وائٹ کلر کی Suzuki FX سٹارٹ ہوئی جس کے کیسٹ پلیئر میں سے 1959 کا سریندر کور کا گایا ہوا ایک بھجن نمودار ہوا۔ سقراط نے ایک اور سگریٹ جلایا اور چلا گیا۔
بات ہی بات میں پہلا لٹریری فیسٹیول سج گیا۔ خالد سعید کے سیاسی عشق بینظیر بھٹو کی برسی کا دن تھا، بینظیر کی یاد میں ایک آرٹیکل اور ساحر لدھیانوی کی ”پرچھائیاں“ پڑھ کر میں نے فیسٹول کا آغاز کیا۔ دوسرے سیشن میں خالد سعید کو ڈاکٹر انوار احمد، ناصر عباس نیر اور اختر علی سید صاحب کے ساتھ بیٹھنا تھا۔ جب میں اپنا سیشن مکمل کر کے بیک اسٹیج پہنچا تو خالد سعید نے کہا کہ جو تم کر آئے ہو وہی کافی ہے۔ اب آگے کے سیشن نہ بھی ہوں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس ایک جملے نے دوسرا فیسٹول کھڑا کر دیا۔ کووڈ کے دن تھے اور پیسے کے نام پر کسی بھی سیٹھ کے پاس دینے کو ٹھینگا بھی نہیں تھا، جب یہ بات اس کو معلوم ہوئی تو سقراط مسکرایا اور کہنے لگا یار کام شروع کر دیا کرو، پیسے تو آ ہی جاتے ہیں۔
اگلے دن سقراط نے سامری جادوگر کا روپ دھار کر فون کیا اور کہنے لگا کہ حاجی صاحب میں میاں نواز شریف کی وہ تقریر نہیں سن پایا جس میں میاں صاحب نے باجوے کا نام لیا ہے اگر وہ تقریر تم مجھے نیٹ پر سنواؤ تو میں تمہارے گھر آ جاتا ہوں؟
خالد صاحب خوشی کے موقع پر منہ کڑوا کیا کرتے تھے تقریر سٌنی گئی۔ جاتے جاتے سامری کہ جس کے قبضے میں عمرو عیار کی زنبیل بھی تھی، میں ہاتھ ڈالا اور پنجاب بینک کا میرے نام کا ایک چیک برآمد کیا، مجھے دے کر کہا کہ اگر اصغر ندیم رمادا میں ٹھہرنے اور الگ سواری کے مطالبے سے دستبردار نہ ہو تو اسے ڈراپ کر دینا۔
تیسرا فیسٹول اس نے گھر بیٹھ کر اس وقت دیکھا کہ جب وہ کینسر کے ساتھ حتمی معرکے میں مصروف تھا جب میں ملنے گیا تو کہنے لگا کہ یار اس بار تم نے وسعت اللہ خان، محمد حنیف اور وجاہت مسعود جیسے لڑکوں کو بلا کر وہ اودھم مچا دیا ہے کہ جس سے کئی لوگوں کی دم میں پٹاخے بجیں گے جو شاید تمہیں اگلے کئی سال سننے پڑیں لیکن اب بارود کم نہیں کرنا۔
میں چوتھے ملتان لٹریری فیسٹیول کا احوال سقراط کو نہیں سنا پایا لیکن میں جب یہ سوچتا ہوں کہ اگر وہ جناب رضا ربانی کو آتے دیکھتا تو خوشی سے میرا منہ چوم لیتا، وہ منہ کڑوا کرتا اور ٹپے گا کر کانوں کی رس گھولتا وہ جب تیمور رحمان کو ”امید سحر کیا بات سنو“ گاتا دیکھتا تو نہال ہو جاتا، وہ فیضی کو اسٹیج کے سامنے ایک مجذوب کے ساتھ دیوانہ وار ناچتے دیکھتا تو اس ریاست کے ٹھیکیداروں کو مڈل فنگر دکھاتا، وہ شرمیلا فاروقی کو دیکھتا تو خوشی سے اس کو بینظیر بھٹو کہہ دیتا کہ شرمیلا نے بھی کچھ سزائیں وہ بھگتیں کہ جس میں اس کا کٌل قصور کسی ریاستی معتوب کی بیٹی ہونا تھا، وہ ٹرانس جینڈرز کے حق میں تنویر جہاں کی گفتگو کو ریاست کے آئین میں شامل کرنے کی تجویز دیتا، وسعت اللہ کے بوٹ کو بوٹ مبارک کہنے پر وجد میں آ جاتا، وجاہت مسعود کو گے اور لیسبین رائٹس کی بات کرنے پر کائنات کا سب سے بڑا دانشور قرار دے دیتا۔ کبھی حسنین جمال کی داڑھی پر واری جاتا تو کبھی فرنود عالم کی تحریر پر، کہیں کسی کونے میں کھڑا شمائلہ حسین کے رونے سنتا تو کہیں آرٹس کونسل کے دالان میں بینا بخآری اور اس کی سہیلیوں کے ساتھ سرائیکی جھمر ڈالتا، وہ یہ سب کرتا لیکن آج کی تاریخ میں میرا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ سب کرنے کو میرا سقراط موجود نہیں ہے اور یہ بہت اذیت ناک ہے۔
میرے سقراط میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ایک بار تم نے بتایا تھا کہ سقراط یونانی مجسمہ ساز تھا لیکن تمہارے جانے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ سقراط ملتانی انسان ساز تھا، تم نے بتایا کہ اس کے ہم عصر ڈرامہ نگاروں نے سینکڑوں ڈرامے سقراط پر لکھے، لیکن سقراط ملتانی کے جانے کے بعد جب ہم نے ملتان لٹریری فیسٹیول کو تاحیات اس کے نام سے منسوب کیا تو اس کے ہم عصروں میں سے کسی نے کہا کہ خالد سعید کون سا کوئی نوبل لاریٹ تھا کہ جو اس کو اتنا سر پر چڑھایا جا رہا ہے؟ اے میرے سقراط آج مجھے سمجھ آتا ہے کہ کیوں اپنے دور کے بونوں کی موجودگی میں تم نے بات کرنا بتدریج کم کر دیا تھا؟
آج مجھے سمجھ آتا ہے کہ کیوں تم ان میں سے بیشتر کی صرف توصیف کیا کرتے تھے؟
آج میں سمجھ چکا ہوں کہ کیوں تم ان کو ان کے اصل قد سے کئی گنا بڑا مانپتے رہے؟
جب تم یہ سب کر رہے تھے تب میں تم سے الجھتا تھا، لڑتا تھا آج مجھے تمہاری مجبوری سمجھ آ گئی ہے کہ جب حقدار کے حق کی بات کر کے ہمارے اپنے ہمیں اس سے دستبردار ہونے پر نہ صرف مجبور کریں بلکہ معتوب بھی تو وہی ٹھیک تھا جو تم کرتے تھے۔
میں آج اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو جو تمہارے احسانوں تلے دبے ہوئے ہیں وہی تم سے سب سے زیادہ خائف ہیں، وہی کہ جو کل تک تمہاری موجودگی میں مسکرا مسکرا کر تم سے کڑٌھتے رہتے تھے آج اس شہر میں ہونے والے تمہارے یادگاری ریفرنس ان کے لیے تکلیف کا باعث ہیں، تمہارا تو جنازہ بھی تمہارے کچھ دوستوں کے لیے تشنج کا باعث بن گیا اور کیا کہیں۔ میں آج تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک میرے سینے میں دم ہے، میں تمہارا دم بھرتا رہوں گا۔ یہ کوئی ضد یا انا نہیں ہے میں کیا کروں کہ میرا کٌل اثاثہ تم ہو اور اسی کی ہی بنیاد پر میں اس دنیا کا سب سے امیر شخص ہوں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ