نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حضور۔۔۔! آپ نے ’’کہا‘‘، ہم نے ’’مان‘‘ لیا، حساب "برابر” ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرِتسلیم خم کہ 2018ء انتخابات میں آر ٹی ایس کے بھنگ پی کر سوجانے کی باتیں محض ہوائیاں ہیں لیکن حضور یہ الیکشن سے پہلے (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے لوگوں کا ہانکا کرکے تحریک انصاف میں کون لے گیا تھا ؟

تحریر نویس ، سید باسط سلطان بخاری سمیت 35افراد کے اسمائے گرامی اس تحقیقاتی کمیشن کے سامنے (جو اگر قائم کردیا جائے) پیش کرسکتا ہے جنہیں ایک محکمہ کے ضلعی افسران نے دھونس، بلیک میلنگ اور دھمکی سے پارٹی بدلنے کا حکم دیا تھا ۔ ایک صاحب (ن) لیگ کا ٹکٹ لے کر حلقہ انتخاب کی طرف رواں دواں تھے۔

موبائل پر فون آیا، تمہاری بیٹی فلاں کالج میں پڑھتی ہے، آمدورفت کے معمولات یہ ہیں۔ امیدوار نے پوچھا یہ سب بتانے کی ضرورت کیا ہے۔

حکم ہوا (ن) لیگ کا ٹکٹ واپس کردو اور پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑو۔ امیدوار نے "بنتی” کی میں ٹکٹ آپ کے حکم پر واپس کردیتا ہوں لیکن الیکشن آزاد امیدوار کے طور پر لڑوں گا۔ اس نے ٹکٹ واپس کردیا۔ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا اور جیت گیا۔

یہ ایک مثال ہے اور زندہ حقیقت۔ چلیں اسے گولی ماریں، چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالٰہی کی راحیل شریف سے ملاقات اور شجاع پاشا سے گفتگو پرویزالٰہی کے ایک انٹرویو کی صورت میں محفوظ ہے وہ سن لیجئے۔ کیسے شجاع پاشا نے ق لیگ کے بندے پی ٹی آئی میں بھرتی کروائے۔

لیاری میں بلاول کے حلقہ میں کیا ہوا کیوں ایک سیکٹر کمانڈر مرضی کا نتیجہ بنوانے تک ریٹرننگ افسر کے دفتر میں ڈیرے ڈال کر بیٹھا رہا؟

فہمیدہ مرزا کو رینجر نے کس طرح جتوایا۔ جھنگ میں سید فیصل صالح حیات کے 10ہزار سے زائد ووٹ کس کے حکم پر مسترد ہوئے۔

ملتان میں علی موسیٰ گیلانی اور سید یوسف رضا گیلانی کے ناموں پر سرخ لکیر پھیر کر متعلقہ حکام کو کس کے دفتر سے پرچی بھجوائی گئی تھی؟

جانے دیجئے حضور ! الیکشن مینجمنٹ میں گردن تک دھنسے ہوئے معززین کو شوبھا نہیں کہ وہ تاویلات سے حقائق مسخ کریں۔

’’مینجمنٹ کی ہے تو اس پر قائم بھی رہیں۔

معززین کو صاحب کردار ہونا چاہیے‘‘۔

آپ نے بھارت اور پاکستانی عوام کے رویوں کا تجزیہ کیا، معاف کیجئے گا یہ تجزیہ بنتا نہیں پھر بھی کہتے ہیں تو جواب عرض کئے دیتے ہیں۔

بھارت ایک جمہوری ملک ہے وہاں عوام وزارت دفاع کے ماتحت محکموں کے بعض اموال اور دعوئوں پر تنقید کرتے ہیں۔ تنقید کرنے والے غائب نہیں ہوتے۔ بھارتی فوج کا کشمیر کے ایشو کے علاوہ سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

ہمارے یہاں تو حضور دلیہ، سیمنٹ، کھاد وغیرہ تک سے تعلق ہے۔ خدمات کیا ہیں؟

ملازمت کی تنخواہ ملتی ہے مراعات الگ ہیں۔ اعلیٰ مخلوق کا "درجہ” بمعہ سود وصول کیا جاتا ہے۔ آفات کے دنوں میں ہماری ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی افواج اپنے لوگوں کی مدد کے لئے میدان عمل میں اترتی ہیں۔ کہیں بھی ایکسٹرا خدمات (یعنی آفات کے دنوں میں) کا حق خدمت وصول نہیں کیا جاتا۔

حضور ہم سکیورٹی اسٹیٹ کے محکوم باشندے ہیں۔ آپ حاکم ہیں تلخ حقیقت اور پورا سچ یہ ہے کہ ۔ آپ نے ہمیشہ تجربات کئے۔ اب بتلایئے ان تجربات کی تاریخ کا آغاز کہاں سے کرنا ہے؟ میجر جنرل سکندر مرزا کی آئین شکنی سے، ایوب خان کے مارشل لاء سے، تھوڑا سا پیچھے نہ چلیں کیا ون یونٹ والا فارمولہ ملٹری اسٹیبشمنٹ کا غیراعلانیہ "چائلڈ بے بی” نہیں تھا؟

اگست 1947ء سے 16دسمبر 1971ء تک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ والی ’’تگڑم‘‘ کیا تھی؟

16دسمبر 1971ء سے یاد آیا۔ آپ نے فرمایا سقوط ڈھاکہ فوجی نہیں سیاسی شکست ہے۔

جی بالکل پلٹن میدان میں کمانڈر انچیف جنرل ذوالفقار علی بھٹو نے ہتھیار ڈالے اور دستاویزات پر دستخط کئے۔ اس وقت کی مقبول ترین عوامی جماعت "پاکستان بندوق پارٹی” کے سربراہ آغا محمد یحییٰ خان قوم کو خبردار کرتے رہے کہ پیپلز آرمی مشرقی پاکستان میں قومی مفادات کے منافی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

بھٹو کی پیپلز آرمی نے جماعت اسلامی کی البدر اور الشمس کے ساتھ مل کر بنگالیوں کو متنفر کیا۔

صاحبزادہ یعقوب علی خان اور میجر جنرل غلام عمر پر الزامات بھی بھارت کے شہر پٹنہ میں گھڑے گئے ورنہ یہ دونوں تو انتہائی شریف آدمی تھے۔

سیاسی جماعتیں اپنے رویے پر کیسی اور کتنی نظرثانی کریں۔ یہ بھی لگے ہاتھوں بتاہی دیتے تو اچھا تھا۔ حضور مجھے جان پیاری ہے اس لئے غیرریاستی لشکروں والے تجربات، بلوچستان خیبر پختونخوا اور سندھ سے اٹھالئے جانے والے ’’شرپسندوں‘‘ کے حوالے سے تو بات ہی نہیں کرنا چاہتا۔

بس ایک بات بتادیجئے وہ بھاغفور کی مشہور زمانہ ٹیوٹ ’’اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت‘‘ کا مطلب کیا تھا۔ آپ سے اچھا مفسر اور کون ہوگا جو ہمیں اس ٹیوٹ کا شان نزول سمجھاسکے۔

یہ اسلامی جمہوری اتحاد بنوانے کے حوالے سے مرحوم جنرل حمید گل کے ارشادات و اعترافات بھی یقیناً جھوٹ ہی ہوں گے۔ ماڈل ٹائون میں آئی جے آئی اور آئی ایس پی آر کے مشترکہ میڈیا سیل کی باتیں بھی یہودوہنود کا زہریلا پروپیگنڈہ۔

2013ء میں کرن تھاپر کو عمران خان کے انٹرویو، عمران خان کے گلبرگ میں سٹیج سے واپسی پر قلابازئیاں کھاتے ہوئے گرنے اور مسلم لیگ (ن) کی الیکشن میں کامیابی کا بھی آپس میں کوئی خونی یا سوتیلا رشتہ و تعلق داری بالکل نہیں ہوگی۔

یہ ملک دشمن قوتیں اور کرائے کے لوگ پاک فوج کو بلاوجہ بدنام کرتے رہتے ہیں۔

جی کیا کہا؟

یہ آپ سے پہلے کی باتیں ہیں۔ جی بہت اچھا حضور۔ پچھلوں کا ملبہ آپ پر کیوں ڈالا جائے۔ وہ تو آپ نے ستر سال کی مداخلت کا اعتراف کیا اس لئے پرانی باتیں یاد آگئیں

قبلہ قربانیاں تو اس ملک کے عوام نے بھی بہت دی ہیں۔ زیادہ تر لوگ ان غیرریاستی لشکروں کی وارداتوں میں کھیت ہوئے جو عالی جناب کی تجربہ گاہ میں بنوائے گئے تھے۔

حضور اب آپ غیرجانبدار معاف کیجئے سیاسی عمل سے باہر ہوگئے ہیں تو کیا اب میڈیا مینجمنٹ بھی نہیں ہوا کرے گی؟ یہاں ایک دو باتیں کرنے کو جی مچل رہا ہے لیکن ذاتی رونے رونے کا کیا فائدہ۔

آپ نے فرمایا ’’ہم نے اپنی اصلاح شروع کردی ہے سیاسی جماعتیں بھی اپنے رویے پر نظرثانی کریں‘‘۔ جو حکم حضور کا وہ سر آنکھوں پر، سیاسی جماعتوں نے محفوظ راستہ دیا یہی ان سے ہمیں شکوہ ہے۔

ہم آپ کی قربانیوں کے ہمیشہ معترف رہے نہ ہوتے تو ڈی ایچ اے نامی کچی بستیوں اور تجارتی و مالیاتی اداروں کے وجود پر سوال اٹھاتے ۔ نہیں اٹھائے کیونکہ ہم اس طرح کے سوالات کو ملک دشمنی سمجھتے ہیں۔

یہ جو آپ نے شکوہ کیا9 اپریل کے بعد سے شروع ہوئے طوفان بدتمیزی کا اس میں ہمیں دوش نہ دیجئے۔ ہم چپ رہے مقصود تھا پردہ آپ کا۔

ویسے سر اس آخری خطاب کا جس نے بھی مشورہ دیا وہ آپ کا دوست بالکل نہیں جے آئی ٹی بنواکر تحقیقات کروالیجئے۔ اس خطاب کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

ہم نے تو ہمیشہ اعتراف کیا کہ یہ ہماری زندگی روزی روٹی، گھر، کتابیں، بچے، دوست اور محفلیں سب کچھ آپ کی قربانیوں کا ثمر ہیں۔ جان کی امان ہو تو ایک بات کہوں۔

حضور محض غلطیوں کا اعتراف کافی نہیں، کچھ غلطیاں جنہیں فقیر راحموں ’’غلطان‘‘ کہتا ہے ایسی ہیں کہ ان پر باضابطہ معافی مانگی جانی چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آدھا پونا یا چوتھائی سچ، جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

بہرحال ہم امید کریں گے کہ اب حکومت وقت بھی اپنی اصلاح کا آغاز کرتے ہوئے ٹیکسوں میں دی گئی جھوٹ واپس لے لے گی۔ ریٹائر افسروں کو دی گئی ملازمتیں اصل حق داروں کو لوٹادے گی اور قانون بنائے گی کہ آئندہ ڈی ایچ اے مفتوحہ علاقوں میں قائم ہوں گے اور افسروں کو اراضی بھی مفتوحہ علاقوں میں الاٹ کی جائے گی۔

معاف کیجئے گا یہ باتیں بس دلپشوری کے لئے کی ہیں سنجیدہ نہ لیجئے گا انہیں۔ جو بات اصل میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سیاسی اور اطلاعاتی مینجمنٹ کے لئے قائم خصوصی سیل ختم کرادیجئے جاتے جاتے۔

ایک اور مہربانی اگر ہوسکے تو وہ بھی کردیجئے ہم دعائیں دیں گے۔ وہ یہ کہ پچھلے 10برسوں میں جو لوگ اٹھائے گئے انہیں عدالتوں میں پیش کرنے کا حکم جاری کرتے جائیں وہ کسی جرم میں ملوث ہوئے تو قانون کے مطابق سزا کے حقدار ہوں گے۔

یہ احمد نورانی نے جو تماشا لگایا ہے اس کا برا نہ منایئے گا بلکہ اپنی صفوں میں موجودہ وہ بندہ تلاش کیجئے جس نے مسلمانان پاکستان کو اپنے محبوب سپہ سالار سے بدظن کرنے کی سازش کی ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ کون کتنا غیرسیاسی ہوا اب یہ وقت بتائے گا۔ ستر بہتر سال کے زخم ایک تقریر سے بھرنے ممکن نہیں وقت لگے گا ان زخموں کے بھرنے میں۔

ہم امید کرتے ہیں کہ اب ہم طبقاتی جمہوریت کے کوچے سے نکل کر عوامی جمہوریت کی طرف بڑھ سکیں گے۔

امید پر دنیا قائم ہے اور امید ہے کہ ہماری اس امید پر مستقبل میں کوئی شب خون نہیں مارے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author