حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکر ہے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لئے6اسمائے گرامی پر مشتمل سمری وزارت دفاع کے توسط سے وزیراعظم کے دفتر کو موصول ہوگئی ہے۔ ایک آدھ دن میں یہ معاملہ بھی طے ہوجائے گا۔ اس تعیناتی نے پچھلے کئی ماہ سے خاصی ’’رونق‘‘ لگارکھی تھی۔ ایسی رونق جو کبھی یا یوں کہہ لیجئے 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں کے اخبارات میں شائع ہونے والے ضرورت رشتہ کے اشتہارات کی بدولت لگی ہوتی تھی۔
اشتہارات میں کچھ اس طرح کے مضامین ہوتے تھے،
ضرورت رشتہ،
"حافظہ قرآن، بیوہ خودمختار، فلور مل اور دو مربع زمین کی مالک ایسے جیون ساتھی کی متلاشی جو مخلص ہو، دوسری شادی کے خواہش مند بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ پہلی اہلیہ اور بچوں کا خرچ دیا جائے گا” ۔
ضرورت رشتہ،
"ہماری 24سالہ ڈاکٹر بیٹی کے لئے ذات پات سے بالا تر لڑکے کا رشتہ ضرورت ہے، لڑکے کو برطانیہ سیٹ کرایا جائے گا۔ (نوٹ: شادی دفتروں سے معذرت) براہ راست رابطہ کیجئے۔ مسز….. ”
یہ دو نمونے کے اشتہارات ہیں پہلا اشتہار ضرورت رشتہ ۔
شادی دفتر والے شائع کرواتے تھے۔ دوسرا بھی لیکن طریقے مختلف تھے۔ اتوار کے روز پرانی انارکلی والے بک سٹال سمیت اکثر بک سٹالوں پر نوجوانوں کی بڑی تعداد اخبارات کے اشتہارات والے صفحات کی زیارت میں مصروف ہوتی۔
ان دنوں ہمارے بہت سارے دوست دونوں طرح کے اشتہارات سے استفادہ کرتے تھے۔ شادی دفتر والے ان سے رجٹسریشن فیس کے نام پر مبلغ ایک ہزار روپے اینٹھ کر ایک البم دیکھاتے جبکہ دوسرے اشتہارات والے 750 روپے کا ایک وی پی پارسل جواب میں بھیج دیا کرتے تھے جس میں لڑکی کی خودساختہ خالہ، ممانی وغیرہ کا ایک خط بمعہ تصویر ہوتا تھا۔
خط میں راولپنڈی آکر ملاقات کی دعوت دی جاتی۔ خط کے ہمراہ بھجوائی گئی تصویر عموماً کسی فلمی ایکسٹرا اداکارہ کی ہوتی اس معاملے میں پاکستان اور ہندوستان کی فلم انڈسٹری کی قید نہیں تھی۔
غالباً 1995ء کے سال میں ہم نے ’’مشرق‘‘ کے سنڈے میگزین کے لئے ضرورت رشتہ کے اشتہارات کے حوالے سے ایک فیچر کیا تھا۔ بڑا دلچسپ فیچر تھا اور تجربہ بھی زبرست ہوا۔
سول سیکرٹریٹ، پرانی و نئی انارکلی، نیلا گنبد، موڑ سمن آباد، چوبرجی وغیرہ کے علاقوں میں قائم شادی دفاتر کی بڑی خاک چھانی۔ فیچر شائع ہوا تو شادی دفاتر والوں نے بہت برا منایا نئی انارکلی کی ایک گلی میں قائم حافظ میرج بیورو والوں نے تو باقاعدہ نوٹس بھجوادیا۔
ہم نے دوسری قسط میں حافظ جی کی وارداتوں کے پول کھولے خوب تماشے لگے۔
بس ایسے ہی تماشے پچھلے کئی ماہ سے عمومی اور دو اڑھائی ہفتوں سے خصوصی طور پر لگے ہوئے ہیں۔ تینوں بڑی جماعتوں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے حامی سوشل میڈیا پر اٙت اٹھائے ہوئے ہیں ۔
اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، حجام کی دکانوں اور چائے ہوٹلوں پر زیربحث موضوع یہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا ’’ملخ‘‘ ہی سلیکشن کمیٹی بنا ہوا ہے۔
جگتیں ہورہی ہیں۔ بحث بھی ہے، سوال یہ ہے کہ اس سارے معاملے سے ہمارا اور آپ کا لینا دینا کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں بس دلپشوری پروگرام ہے۔
فقیر راحموں نے دو اڑھائی ساعت قبل ایک کاغذی ہماری طرف بڑھایا ہے۔
لیجئے ایک اشتہار کا مضمون ہے آپ بھی پڑھ لیجئے۔
ضرورت برائے آرمی چیف،
’’اسلامی جمہوریہ پاکستان، آبادی 22کروڑ اپنی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ قانونی و غیرقانونی تارکین وطن ملکی اور غیرملکی قرضوں میں گردن گردن بلکہ گوڈے گوڈے پھنسا ہوا، امت مسلمہ کا پہلا ایٹمی ملک، کے لئے ایک آرمی چیف کی ضرورت ہے۔
امیدوار تھری سٹار جنرل ہو۔ میدان جنگ کے ساتھ سیاست، معاشیات، علوم اسلامیہ، نظریہ پاکستان وغیرہ وغیرہ میں خاصی مہارت رکھتا ہو۔
1973ء کے دستور کو جیب کی گھڑی سمجھ کر سینے سے لگائے۔ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں سے رعایت نہ کرے۔ تھوڑا بہت لبرل ماڈریٹ ہو، بھارت کو سبق سیکھانے کا موروثی جذبہ خصوصی قابلیت سمجھی جائے گی۔
مدتِ منصب تین سال ہے البتہ ’’پبلک‘‘ کے پرزور اصرار پر اس میں توسیع کا "وافر انتظام” موجود ہے۔
منصب پر تقرری کی صورت میں نامزد امیدوار کو وزارت داخلہ، خارجہ اور خزانہ کے سپر وزیر کی حیثیت سے چین، روس، ایران اور عرب ممالک سے خصوصی روابط کے قیام کے لئے جان توڑ خدمات سرانجام دینا ہوں گی۔
نوٹ،
امیدواران کو سیاسی امور میں عدم مداخلت اور مارشل لاء یا جرنیلی جمہوریت وغیرہ جراثیم سے محفوظ ہونے کا سرٹیفکیٹ درخواست کے ہمراہ لگانا ہوگا۔
نماز جمعہ و عیدین اور نماز جنازہ پڑھانے کا تجربہ خصوصی قابلیت شمار ہوگی اور اس کے مجموعی طور پر 40نمبر الگ سے ہوں گے‘‘۔
فقیر راحموں کا اشتہار آپ نے پڑھ لیا اس کی تمام تر ذمہ داری فقیر راحموں پر ہے۔ ہم نہ شریک مشورہ ہیں نہ شریک جرم اور طلبگاران جرنیلی جمہوریت بھی بالکل نہیں۔
کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ ہماےر لوگوں کے پاس ضائع کرنے کے لئے کتنا وقت ہے۔ نان ایشوز پر بحثیں اٹھاتے سر پھٹول کرتے کشتوں کے پشتے لگاتے رہتے ہیں۔
فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت کے باشندوں کو کچھ کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ امت مسلمہ کو تو چاہیے کہ اپنی زکوٰۃ، صدقات، عطیات و فطرانے وغیرہ ایٹمی طاقت کی حفاظت کے لئے وقف کردے۔
یہ فقیر راحموں بھی نہ عجیب آدمی ہے یقین کیجئے پچھلے چونسٹھ برسوں میں جس طرح ہم نے اسے برداشت کیا بھگتا یہ ہم ہی جانتے ہیں۔
طبقاتی جمہوریت یا مارشل لائوں اور حبس سے بھرے موسموں کے ساتھ اسے یہاں تک برداشت کرکے ساتھ لانے پر نوبل پرائز ہمیں ضرور ملنا چاہیے لیکن کیا کریں ہماری تو ملک کے اندر بھی کوئی لابی وابی نہیں "بڑی” دنیا میں ہماری کون سنتا ہے۔
چلیں چھوڑیں ان باتوں کو ان میں کیا رکھا ہے ’’وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے‘‘
بات ضرورت رشتہ سے شروع ہوئی تھی۔ کیا زمانے تھے ہم نے بہت سارے شادی شدہ دوستوں کو دفتری اوقات میں ضرورت رشتہ کے اشتہاروں والے کالم پڑھتے اور نشان لگاتے دیکھا۔
وقت وقت کی بات ہے۔ عشروں پہلے کی بات ہے جب ہم کراچی میں رہتے تھے۔ کہیں ملتان کے نمبر والی گاڑی دیکھائی دیتی تو گاڑی کے سواروں کو بہت عقیدت اور محبت کے ساتھ دیکھتے تھے۔
ہمیں ایسا لگتا تھا کہ وطن کی خوشبو پھیل گئی ہو ہر طرف۔ ایک بار البتہ ایسا ہوا کہ ملتان کے نمبر والی ایک گاڑی والوں نے ہمیں دیکھ کر گاڑی روک لی۔ آج بھی یاد ہے اس گاڑی میں سوار بزرگ نے ہمیں بلایا اور پچھلی سیٹ پر بیٹھی خاتون نے ہم سے سوال کیا۔ آپ خونی برج والی بی بی جی کے بیٹے ہو؟ ظاہر ہے ہمارا جواب اثبات میں تھا۔ وہ گاڑی سے اتریں انہوں نے ہمارے سر پر ہاتھ پھیرا بوسہ دیا اور دعائیں دیں۔
اس شب ہمیں اپنا گھر اور امڑی جان بہت یاد آئے۔
معاف کیجئے گا یہ کالم لکھتے ہوئے اکثر یادوں کی دستک شدید ہوجاتی ہے۔ کبھی کوئی بات واقعہ یاد آجاتا ہے تو ہم لکھ دیتے ہیں۔
ابتدائی سطور میں عرض کیا تھا کہ شکر ہے کہ نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کی تقرری کے لئے سمری وزیراعظم کو موصول ہوگئی ہے۔
ہمارے دوست حارث اظہر نے کل ہم سے پوچھا کہ کیا چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف بری فوج سے لینا ضروری ہے؟
عرض کیا اصولی طور پر تو یہ منصب باری باری تینوں مسلح افواج کے حصے میں آنا چاہیے۔ ماضی میں ایسا ہوتا بھی رہا ہے لیکن پھر اسے بھی "ڈی ایچ اے” ہی سمجھ لیا گیا۔
لولی لنگڑی جمہوری حکومتوں میں اتنا دم خم نہیں کہ اصول پر عمل کراسکیں۔
خیر اس پر مزید کچھ عرض کرنے سے پرہیز بہتر ہے۔ بڑے لوگوں اور محکموں کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے۔
کالم کے اس حصے میں چند احتجاجی سطور رقم کرنا چاہتا ہوں یہ احتجاجی سطور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اس بیان پر ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔
اس خودساختہ ماہر معاشیات کو کوئی بتلائے کہ اس ملک میں ماچس تک کی خریداری پر ٹیکس ہے۔ بجلی کے بلوں میں مختلف نسلوں کے ٹیکس اور ان پر پھر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔
جتنا ٹیکس اور بھتہ اس ملک کے لوگ اپنی حکومت کو دیتے ہیں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ بدلے میں حکومت لوگوں کو کیا دیتی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اس لئے ماضی کی طرح موجودہ وزیر خزانہ لوگوں کو دوش دینے کی بجائے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر