عادل علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بظاہر مکمل میرٹ کا پاس رکھتے ہوئے موسٹ سینئر لیفٹننٹ جنرل سید عاصم منیر کو نیا آرمی چیف مقرر کرنے کی سمری صدر پاکستان کو ارسال کردی گئی ہے اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ صدر عارف علوی کا تعلق تحریک انصاف یعنی عمران خان سے ہے۔
خان صاحب اعلان فرما چکے ہیں کہ صدر ان سے مشورہ کرینگے کیونکہ وہ اس سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں جس سے صدر پاکستان کا تعلق ہے۔
عمران خان نے مسلسل اداروں کو متنازعہ بنایا اور بنائے ہی رکھا جبکہ یہ کام انہوں نے تب شروع کیا جب ملکی مفاد میں انہیں اقتدار سے دور کیا گیا اس سے پہلے تو یک قلب و دو جاں والا معاملہ تھا۔
اب بھی اگر عمران خان اس معاملے پر مزید بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو میرا نہیں خیال کہ ایسا ممکن ہوپائے گا۔ اور حسب معمول ایسا نہیں ہوا، صدر مملکت نے جنرل عاصم منیر کی بطور چیف آف آرمی اسٹاف تقرری کی سمری پر دستخط کردیئے۔
جنرل عاصم منیر کی نامزدگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ محمکے کے اندر کا طوفان بھی ایک سمت ہوچکا ہے اور گزشتہ روز کی الودائی تقریر میں جنرل باجوہ باضابطہ طور پر اعتراف کر چکے ہیں کہ ستر سال سے فوج سیاست میں مداخلت کرتی آرہی تھی مگر اب نہیں کرے گے۔
سیاست اور سیاستدانوں کی بات نہیں کرتے نظر دوڑاتے ہیں آمریت کے ادوار کی تو مملکت خداداد میں جب جب شب خون مارا گیا تب ہی ملک مزید تباہی کا شکار ہوا۔
کل چیف صاحب نے بہت دل سے کوشش کی کہ بنگلادیش کے معاملے سے تہی دامن ہوکر بچا جائے مگر تاریخ کے اوراق اس سے متضاد ہیں۔ محمکے کے ہی ایک افسر کی کتاب تمام تفصیلات سے بھری پڑی ہے اور اس وقت جنرل یحییٰ خان جنرل رانی کے ساتھ محو راگ و سرور تھے۔
اس حد تک کہ انہیں اپنی فوج کو سرنڈر کرانا پڑا اور بعد میں ایک سیاسی لیڈر انہیں چھڑوا کر لایا۔
بھٹو و مجیب رحمان کا اتحاد و اختلاف آئینی سطور پر تھا تفصیل آپ خود پڑھ سکتے ہیں مگر محکمہ پچاس برس بعد اگر اپنے پاپ دھونا چاہتا ہے تو یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
تاریخ جنرل ضیاء کے بدترین دور کے بعد جنرل مشرف کے زخم بھی اب تک تازہ ہی محسوس کرتی ہے جس نے نہ صرف کارگل گنوایا بلکہ پرائی آگ میں کود کر ملک کو آگ کا ایندھن بھی بنا دیا۔ سینکڑوں بم دھماکے ہزاروں شہادتیں لاکھوں زخمی بلوچستان کے احساس محرومی میں اضافہ اور دیگر کئی ایسے کارنامے ان کے سر ہیں۔
سن 2008 میں آمریت کے براہ راست شب خون مارنے کا راستہ بند کردیا گیا تو قوم نے برقعہ پوش مارشل لاء بھی دیکھا کہ کس طرح جنرل باجوہ کے دور میں عوامی جماعتوں سے حکومت چھین کر ایک تاریخی نااہل انسان کے حوالے کی گئی اور یہ ہی قدم عمران خان سمیت محکمے کا بھی کچہ چھٹا کھول بیٹھا۔
عمران خان اگر مسند اقتدار نہ ہوتا تو امر ہو کر مرجاتا مگر اس کی نااہلی بھی کھل کر سامنے آگئی کہ ریس میں اسے اکیلا دوڑانے کے باوجود بھی اہداف پورے کرنے تو کیا نزدیک بھی نہ آسکا اور بعد میں عمران کو نااہل کرنا ہی محکمے کو بھی بے آبرو کرگیا۔
ماننا پڑتا ہے کہ جتنا کھل کر محکمے کے معاملات عمران خان کے حکومت سے نکلنے کے بعد سامنے آئے ایسا کبھی پہلے نہ ہوا۔
اسے آپ دیگر سیاسی جماعتوں کی دور اندیشی بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے محمکے کا نام کھل کر اس لیے بھی نہ اچھالا کہ آخر میں بدنامی ملک کی ہی ہونی تھی پر عمران خان اس سب سے مبرا نکلا اس نے پول کھول کر رکھ دی ساتھ ہی محکمے کے اندر پنپتی پھوٹ بھی سب کچھ ایکسپوز کرتی رہی۔
مشرف کے بدترین دور میں باوردی باہر جانا مشکل تھا۔ جنرل کیانی نے سیاست سے دور رہ کر فوج کا مورال بہتر کیا اور جنرل راحیل شریف نے اسی فوج کو سپر اسٹار بنا دیا جسے جنرل باجوہ نے صفر کر کے رکھ دیا ہے۔
فیض و باجوہ کی جنگ ہو یا عمران خان کو لانا اور اسے مسلسل سپورٹ کرنا ہو یا ملک کی تباہ ہوتی معیشت ملک کے اعلیٰ عملدار کبھی عوامی فلاح کے لیے یکجا نظر نہ آسکے اور آج جب ملک تاریخ کے بدترین معاشی دور سے گزر رہا ہے جہاں ملک پریکٹکلی ڈیفالٹ کر سکتا ہے ایسے میں ایک صاحب اپنی چھڑی نئے صاحب کو سونپتے وقت اشک شوئی کر کے بری و ذمہ ہونا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے اور نہ یہ ڈگر نئے صاحب کے لیے اتنی آسان ہے کہ محکمہ اپنا مورال جلد واپس بحال کرسکے۔
بیلوں کی آپسی لڑائی ملک کی فصل کو بری طرح روند چکی ہے اور فصل کی پھر سے اگائی و ہریالی کے لیے ایک طویل وقت و جدوجہد درکار ہے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی