حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ حسینؒ، وہی "مادھولال” والے شاہ حسینؒ، قادری تھے، شطاری یا ملامتی؟ اچھا ویسے اگر وہ حقیقی طور پر قادری یا شطاری سلسلوں سے منسلک ہوتے تو پھر دونوں سلسلوں کے بڑے (اس وقت کے) اور منبربازوں کو تو ان پر مادھولال کے حوالے سے لگی تہمت کا رد کرنا چاہیے تھا لیکن ہوا اس کے برعکس ان میں سے بعض بڑوں نے نہ صرف تہمت کو پَر لگائے بلکہ کچھ منبربازوں نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اورنگزیب عالمگیر کے دفتری (منشی) نواب انشاء اللہ خان نے اپنے روزنامچہ میں شہید سرمدؒ کے ساتھ کیا تھا۔
شاہ حسینؒ سے یہ سلوک ان کی باغیانیہ روش کے باعث ہوا۔ شاہ حسین اپنی فکر کے حساب سے وحدت الوجودی تھے۔ استاد مکرم اکرم شیخ نے نہیں شطاری کی بجائے قادری قرار دیا۔ ان کے خیال میں انہوں نے کبھی کوئی جملہ یا شعر ایسا نہیں کہا جس سے شطیحہ کی فہم کا اظہار ہوتا ہو۔
استاد مکرم سمیت دیگر اہل دانش اور محققین نے بھی قریب قریب یہی بات کی ہے۔ان کے ارشادات سر آنکھوں پر مگر طالب علم کے لئے اہم بات یہ ہے کہ کیا ان اہل دانش نے مولوی ذکاء الرحمن کی اڑائی بے پرکی کا پس منظر تلاش کرنے کی سعی کی؟ مولوی ذکا الرحمن نے اس وقت شاہ حسینؒ پر بعض ایسے الزامات لگائے جو قدیم و جدید سماج میں کسی بھی شخص کو تنہا کرنے کے لئے کافی ہیں۔
یہ ذکاالرحمن ہی تھے جنہوں نے شاہ حسینؒ سے مادھو لال (ہندو لڑکے) کی عقیدت کو منفی انداز میں پیش کیا، کیوں؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ مولوی ذکاالرحمن کا خیال تھا کہ شاہ حسین شریعت کے باغی ہوچکے۔
کالم کا دامن اور مزاج دونوں متحمل نہیں ہوسکتے کے اس پر بحث کی جائے کہ شریعت اپنے پیروکار سے کن امور کی انجام دہی کی متقاضی ہے اور کیا امور وہ ہوں گے جن کی انجام دہی پر باغی قرار دیا جائے گا یا یہ کہ کسی پیش نماز کو فتویٰ دینے کا حق حاصل ہے ۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ مفادات پر پڑتی ضرب کا ردعمل ہے۔ ہم اس ردعمل کا نشانہ بننے والے مسلم صوفیا سے ذکر شروع کریں یا اس سے قبل والے زمانوں سے۔
حقیقت یہی ہے کہ "پاسبان شریعت” کو ہر اس شخص سے خطرہ پیدا ہوا جس نے طلب دنیا اور پیٹ بھروں کی مستی پر آواز اٹھاتے ہوئے کہا
’’حیرت ہے شریعت نے یہ تک نہیں سمجھایا کہ پیٹ بھرنے سے بانٹ کر کھانا اہمیت رکھتا ہے‘‘۔
ملامتی صوفیا یا فرقہ ملامتیہ، کے تعارف میں سرفراز حسین قاضی لکھتے ہیں ’’فرقہ ملامتیہ کی پہچان بہت زیادہ مشکل ہے۔ عام لوگ ان کے ظاہری طور طریقوں سے اس لئے دھوکہ کھاتے ہیں کہ ان ظاہری طور طریقوں میں انہیں شریعت کی مروجہ شکل کی نفی دیکھائی دیتی ہے‘‘۔
سرفراز حسین قاضی بھی ان پیش رو اہل دانش سے متاثر ہیں جنہوں نے ملامتی صوفیوں کے فرقے کا بانی جناب بایزید بسطامیؒ کو قرار دیا۔
انہوں نے بھی دوسروں کی طرح اس رائے کو نظرانداز کیا کہ مسلم ملامتی صوفیا کے سرخیل حسین بھی منصور حلاجؒ ہیں۔ بھید کی پردہ پوشی یا بھیدوں کو عیاں کرکے سوال لئے پھرنا اصل بحث یہی ہے۔ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ اس کے ہونے کا اقرار بالذات کیا انکار کے زمرے میں آتا ہے یا اقرار ہے؟
خیر یہ ایک طویل بحث ہے ہم شاہ حسینؒ کی باتیں کرتے ہیں۔ بہت احترام کے ساتھ میں ڈاکٹر لاجوانتی کی اس بات سے بھی متفق نہیں کہ شاہ حسینؒ مے نوش تھے۔ یا یہ کہ جب انہیں اکبر کے دربار میں لے جایا گیا تو وہ شراب کے نشے میں چور تھے۔
اکبر تو خود شراب کا رسیا تھا اسے کسی کا شراب پینا کیوں برا لگتا۔ ایسا لگتا ہے کہ مولوی ذکاالرحمن کے ہم خیالوں نے شاہ حسینؒ کی جذب و مستی کو نشے کا نتیجہ سمجھا۔
یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں سمجھاتا ہے کہ ظاہری صورت اور اظہار پر فوری رائے اور فتویٰ دونوں درست نہیں۔
شاہ حسینؒ، اکبر اعظم کے عہد کی شخصیت ہیں یہ وہ دور ہے جب وحدت ادیان کی بحثیں عام تھیں۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ مذہب فرد کا نجی معاملہ ہے۔ سماجی برتائو بطور انسان ہونا اور معیار قرار دیا جارہا تھا۔
اس سیکولر فہم پر ’’دین الٰہی‘‘ کی پھبتی کسی گئی۔ عجیب بات یہ ہے کہ وحدت ادیان کی فہم کو ایک نئے دین یعنی دین الٰہی کا نام تو خود شاہجہان کے دور میں دیا گیا تھا ۔
شاہ حسینؒ کا خاندانی نام ڈاہڈا حسین ہے۔ ڈہڈہ یا ڈاہڈا۔ راجپوتوں کی ایک ذات ہے۔ ان کا خاندان وہاڑی کے علاقے سے لاہور منتقل ہوا۔ شاہ حسین کے جداعلیٰ کلجس رائے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے فیروز شاہ تغلق کے دور میں اسلام قبول کیا۔ داراشکوہ نے شاہ حسینؒ کو ملامتی گروہ کا سردار لکھا۔
حافظ ابوبکر بگھوی شاہ حسینؒ کے ابتدائی اساتذہ میں شامل ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ مولوی ذکاالرحمن حافظ ابوبکر کے درس میں شاہ حسین کے ہم جماعت تھے اور ابتدا ہی سے وہ اساتذہ کی شاہ حسینؒ پر خصوصی عنایات اور پھر حضرت شیخ بہلول شطاریؒ کی جانب سے شاہ حسینؒ کو اپنی سرپرستی میں لئے جانے پر وہ اپنے ہم مکتب کے دشمن ہوگئے
بعدازاں اسے جب بھی موقع ملا اس نے شاہ حسینؒ کی کردار کشی میں کسر نہیں چھوڑی۔
شاہ حسینؒ کے مرید مادھو لال سے تعلق کے افسانے گھڑنے والوں میں پیش پیش لوگوں (کتب تواریخ میں سب کے نام موجود ہیں) کی اپنی شخصیت کا تجزیہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ ایک اوسط ذہن کے مسیتڑ پیش نماز کے لئے شاہ حسینؒ کے افکار عجیب ہی نہیں بلکہ دماغ کے پڑخچے اڑانے والے تھے
سو کسی تاخیر کے بغیر دو کام ہوئے اولاً کردار کشی اور ثانیاً باغی شریعت کا فتویٰ۔
بہرطور یہ امر مسلمہ ہے کہ شاہ حسینؒ کی فہم کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے عہد میں چمکا اور اس کی روشنی نے شریعت کو جمع کی ہانڈی بناکر رکھنے والوں کے کاروبار کو نقصان پہنچایا۔
ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ سمیت بہت سارے شارحینِ شاہ حسینؒ نے ڈاکٹر لاجونتی کو آڑے ہاتھوں لیا تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ڈاکٹر لاجونتی نے ہی شاہ حسین کو ’’مادھو لال حسین’’ لکھا تھا اسی نے مسیتڑوں کے گھڑے قصے اور عیب شاہ حسینؒ پر تھونپے۔
شاہ حسینؒ 1632میں دنیائے سرائے سے رخصت ہوئے۔ باغبانپورہ لاہور میں ان کی خانقاہ (مزار) پر آج بھی ان سے الفت رکھنے والوں کا ہجوم رہتا ہے۔
شاہ حسینؒ کہتے ہیں ’’شب گزرگئی تم بیدار ہی نہیں ہوئے، رات پر بھروسہ کیسا‘‘
’’جو وقت اس کی یاد سے خالی ہے وہ ضائع ہوا، آئو بیٹھ کر اس کی باتیں کریں، اس کی جس کے اسیر ہیں‘‘۔
” لوگو ! ہم نے عشق کا اصل پالیا، اسے دیکھ لیا، جس کے دیدار کے لئے عشق کا بوجھ اٹھائے پھرتے تھے‘‘۔
’’دنیا اور مال جی لگانے کے لئے نہیں، انہیں جمع کرنے کا فائدہ سب تو یہیں رہ جانا ہے”۔
"آدمی کو عشق نہیں نفس کی محبت مارتی ہے۔ عشق کی راہ پر چلنا ہے تو محبوب کی خواہش کے مطابق بنو۔ ظاہروباطن یکساں ہوتے ہیں عاشق کے ‘‘۔
’’ہم تو تیرے ہوئے، تجھ بن ہم کیا ہیں، محبت بیوپار نہیں، عاشق اس کی راہ سے پلٹتے نہیں ہیں۔ عشق میں عقل کا چراغ ہے‘‘۔ ’’جدائی کی بھڑکتی آگ اس کے دیدار سے بجھے گی۔ یونہی کھیل کود میں وقت برباد کیا۔ پھر حق آشنائی ہوئی تو دنیا کے جھمیلے بہت پیچھے رہ گئے”۔
"عاشق تو اپنی جان کی قیمت پر اسے پانے کے لئے نکلتا ہے۔ دنیا تو چار دن کی ہے۔ چار دنوں کا سودا کیااور ادھار کیا‘‘۔
"زندگی دینے والا ہی مارتا ہے عزرائیل تو محض بہانہ ہے۔ شاہ حسین نے تو مالک سے کہہ دیا، ہم منہ موڑنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ جب چاہو گے نعمت تلی پر دھر کر پیش کردیں گے‘‘۔
’’شاہ حسین اس کے صدقے جس نے حق آگاہی دی، اب مجھے کسی سے دلچسپی نہیں، وہ میرے وجود میں سماگیا ہے، وہ ہے ہم ہیں، کوئی دوسرا کہاں”،
"جب جانا ہی لازم ہے تو رہنے سے جی لگانے کا فائدہ۔ دنیا کی محبت فریب کے سوا کچھ نہیں۔ لوگوں کی زندگی یونہی بیت جاتی ہے۔ ہونے کا مقصد سجھے بغیر رخصت ہونا بڑی اذیت ہے‘‘۔ ’’مائے نی، میں اس جدائی کا احوال کس سے بیان کروں، دکھوں کی روٹی کے ساتھ کانٹوں کا سالن آہوں کا بالن (ایندھن) بناکر تیار کیا ہے”۔
"ہجر کے کانٹوں کی چبھن بڑی شدید ہے۔ اس کی جدائی کے دکھ نے سارے احساس چھین لئے ہیں”۔ "مسافر سازوسامان باندھے جارہے ہیں۔ کچھ سامان ہمارا بھی تیار ہے، سوچ رہا ہوں میرا سامان کون اٹھائے گا”،
"کوئی پیچھے مڑے اور دوستوں کو سمجھائے۔ دنیا کی لذتوں پر سانس قربان نہ کرو‘‘۔ "راکھ ٹٹولی تو سرخ انگارے نظر آئے۔ مرشد کی دھونی لگی ہوئی ہے”۔
"دنیا، جنگلوں اور ویرانوں میں نہیں جس نے اس سے ملنا ہو وہ شاہ حسین کی طرح خود سے مل لے”۔
"اچھا ہوا میرا چرخہ ٹوٹ گیا، میری جان اس عذاب سے چھوٹ گئی۔ چرخہ ٹوٹا ہے شاہ حسین کہ ساری دنیا ہی فنا ہوتی جارہی ہے‘‘۔
’’مجھے مبارک دو، یار نے میرے آنگن میں قدم رکھا ہے ہر سو اس کا نور چمک رہا ہے۔ مرشد نے یار سے ملنے کی راہ دکھلائی تھی آج یار نے دیدار کروادیا۔ ظاہر باطن ایک ہوئے اور ہم اور وہ بھی‘‘۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر