رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ے پاکستانی نوجوانوں کا سیاستدانوں کے ہاتھوں استعمال کبھی اُس طرح سمجھ نہیں آیا تھا جو اب اسد عمر کے ایک ٹویٹ نے سمجھا دیا ہے۔ گھڑی سکینڈل کے بعد اسد عمر نے ایک ٹویٹ میں فرمایا: عمران خان کے خلاف ان جھوٹی داستانوں کا تیا پانچہ کرنے کیلئے سوشل میڈیا میں بیٹھے انصافین ہی کافی ہیں۔ اس ٹویٹ کے 13ہزار ری ٹویٹس اور 40 ہزار لائکس ہیں اور اس پر کمنٹ دو ہزار کے قریب ہیں۔ میں نے جب اس ٹویٹ کے نیچے کمنٹس پڑھنا شروع کیے تو مجھے کچھ حیرانی ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ نیچے واہ واہ ہو رہی ہوگی اور جس توقع کا اظہار اسد عمر کررہے تھے وہ پوری ہورہی گی۔ اگرچہ دو ہزار کمنٹس تو میں نے نہیں پڑھے لیکن جتنے پڑھے اُن میں زیادہ تر اسد عمر کے ٹویٹ کی مذمت میں تھے کہ آپ نے نوجوانوں کو اس کام پر رکھا ہوا ہے کہ وہ آپ کی چوریوں‘ جھوٹ یا فراڈ کا بیٹھ کر دفاع کریں۔
بلا شبہ اسد عمر کا ٹویٹ ان لوگوں کے لیے نہیں تھا جنہوں نے نیچے کمنٹس کیے ہیں‘ وہ ٹویٹ دراصل اُن سب نوجوانوں کے لیے تھا جنہیں ایک ہی زبان سمجھا دی گئی ہے کہ بیٹا! تم نے ہر مخالف یا سوال اٹھانے والے کو غدار کہنا ہے یا پھر اسے گالی دینی ہے۔ اپنے بچوں کو بیرونِ ملک بہترین یونیورسٹیز یا کالجز میں حصولِ تعلیم کے لیے بھجوانے کے بعد دوسروں کے بچوں کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ بیٹا! آپ نے یہاں ٹویٹر پر ہمارے مخالفین کا تیا پانچہ کرنا ہے تاکہ ڈر کے مارے کوئی عمران خان‘ مانیکا خاندان یا اُن کے دیگر دوستوں پر لگنے والے سنگین الزامات پر بات کرتے ہوئے بار بار سوچے۔اب تک یہ حربہ کامیاب رہا ہے۔میںجمائما خان کا ایک پرانا ٹویٹ پڑھ رہا تھا جس میں وہ کہتی ہیں کہ عمران خان کے بچوں کا سوشل میڈیا پر کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے۔ مطلب خان صاحب کے اپنے بچے اس گند اور گندگی سے دور ہیں جو پاکستان میں سوشل میڈیا کے نام پر پھیلا دی گئی ہے۔ شاید انہیں مصلحتاً سوشل میڈیا سے دور رکھا گیا ہوگا کہ عمران خان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت کچھ سامنے آتا رہتا ہے لہٰذا بہتر ہے کہ بچے ان خبروں سے دور رہیں جو انہیں ہرٹ کر سکتی ہیں۔
یہ عمران خان کی بڑی کامیابی ہے کہ ان کے فالورز ان کے خلاف کوئی بھی سکینڈل آنے پر ان کا اندھا دھند دفاع کرتے ہیں۔ ان فالورز کی ایسی ذہن سازی کر دی گئی ہے کہ جو کچھ بھی ان کے لیڈر کے خلاف چھپ رہا ہے وہ محض سازش ہے یا جھوٹ۔ ویسے ایسی برین واشنگ پاکستانی تاریخ میں شاید ہی پہلے کبھی کی گئی ہو کہ آپ کا لیڈر ایک دیوتا ہے جو کبھی کوئی غلطی نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ اگر نیویارک میں کسی کو گولی بھی مار دے تو بھی اس کا فین کلب اس کا دفاع کرے گا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ٹرمپ کے ایک فالور نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ اگر ٹرمپ کسی کو مار دے تو اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ پاکستان میں سیاسی اشرافیہ نے بھی اپنی لوٹ مار اور کرپشن کا دفاع کرنے کے لیے ذہین نوجوان بھرتی کر لیے ہیں اور انہیں قائل کر دیا گیا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ ملک اور قوم کے مفاد میں ہے۔ ابھی یہی دیکھ لیں کہ سعودی گھڑی سکینڈل پر اسد عمر فرما رہے ہیں کہ نوجوان انصافین ان کا تیا پانچہ کر دیں گے جو سوال اٹھائیں گے۔ حالانکہ ان نوجوانوں کو پی ٹی آئی قیادت کا تیا پانچہ کرنا چاہیے اور ان سے سوالات کرنے چاہئیں کہ آپ لوگ تو آصف زرداری اور نواز شریف سے مختلف ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن اب آپ خود وہی کام کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان نے ان انصافین کو اس امتحان میں ڈالا ہی کیوں کہ وہ اُن کی گھڑیوں کی خرید و فروخت پر سوشل میڈیا پر اُن کی جنگ لڑیں اور اُن کو سچا ثابت کریں تاکہ اُن کے کروڑوں روپے کمانے کا جواز ڈھونڈا جا سکے اور اس حوالے سے کوئی کارروائی بھی نہ ہو۔ کیا عمران خان کو خود احتیاط نہیں کرنی چاہیے تھی‘ خصوصاً جب ان کے سامنے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مثال موجود تھی کہ ترکی کی خاتونِ اوّل نے جو ہیروں کا ہار سیلاب زدگان کے لیے عطیہ کیا تھا وہ انہوں نے رکھ لیا تھا۔خود عمران خان درجنوں دفعہ اس ہار کا ذکر اپنے جلسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں کر چکے ہیں۔ لہٰذا جب سعودی شہزادے کی دی ہوئی گھڑی کو توشہ خانہ سے لے کر بیچا جارہا تھا تو کیا عمران خان نے لمحہ بھر نہ سوچا کہ کہیں ان کا انجام بھی یوسف رضا گیلانی جیسا نہ ہو۔ کہیں تقدیر یا قدرت انہیں جان بوجھ کر امتحان میں تو نہیں ڈال رہی ہو کہ کیا ایک اور وزیراعظم بھی Temptation کا شکار ہو کر گرتا ہے یا نہیں؟ یہ قدرت تو پہلے ہی ایک وزیراعظم کو امتحان میں فیل کر چکی تھی۔ عمران خان کے ذہن میں تو فوراً گھنٹی بجنی چاہیے تھی کہ سعودی عرب سے آئی گھڑی دراصل ان کیلئے امتحان بن کر آئی تھی۔ لیکن عمران خان بھی یوسف رضا گیلانی کی طرح اس امتحان میں بری طرح فیل ہوئے اور اپنے مداحین کو مایوس کیا جو ابھی تک سمجھتے ہیں کہ خان کوپیسے کا لالچ نہیں ہے۔
اگر پیسے کا لالچ نہیں تھا تو پھر اس قیمتی گھڑی کو کیسے دبئی کے بازار میں بیچ کر کروڑوں کمائے جا سکتے ہیں؟ کبھی اپوزیشن کے دنوں میں خان صاحب حضرت عمرؓ کا حوالہ ہر تقریر میں دیا کرتے تھے۔ ان کے کرتے اور دریائے دجلہ کے کنارے کتے کے بھوکے مرنے پر حساب کا واقعہ سناتے تھے۔ لیکن جب وہ خود وزیراعظم بنے تو پھر کسی نے ان واقعات کا ذکر نہ سنا۔ جب اپنی باری آئی تو پھر وہی سہارا لیا گیا کہ جناب ہم نے قانون کے تحت توشہ خانہ سے بیس فیصد پر خرید کر اسی فیصد پرافٹ پر بیچ دیا۔ آپ تو ایسے قوانین ختم کرنے آئے تھے جن سے آپ سے پہلے پرویز مشرف‘ شوکت عزیز‘ میر ظفر اللہ خان جمالی‘ چودھری شجاعت حسین‘ یوسف رضا گیلانی‘ آصف زرداری اور نواز شریف تک نے بے پناہ فائدے اٹھائے اور توشہ خانہ میں لوٹ مار کی۔ اگر آپ نے بھی اسی قانون کا سہارا لے کر‘ جو کہ خود وزیراعظم کا اپنا بنایا ہوا تھا‘ لوٹ مار کرنی تھی تو آپ میں اور ان باقی سیاستدانوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟
جب عدالتوں نے توشہ خانے کی تفصیلات مانگیں تو کہا گیا یہ قومی راز ہیں۔ عمران خان وزیراعظم تھے اور پورے دو سال تک وہ عدالتوں سے لڑتے رہے‘ پارلیمنٹ سے لڑتے رہے کہ میں ان تحائف کی تفصیل نہیں دے سکتا جو مجھے بیرونی ملک دوروں سے ملے ہیں۔ دراصل خان صاحب کی مزاحمت کی وجہ یہی تھی کہ وہ ان تحائف کو بیچ چکے تھے۔ وہ بھی آصف زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے ساتھ جا کھڑے ہوئے تھے جنہوں نے توشہ خانہ قانون کے نام پر لوٹ مار کی تھی۔ اگرچہ نواز شریف‘ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کہہ سکتے ہیں کہ مان لیا ہم نے توشہ خانہ کے تحائف قانون کا سہارا لے کر رکھ لیے تھے لیکن کم از کم ہم نے پاکستانیوں اور سعودیوں کو شرمندہ نہیں کیا کہ ان کے تحائف دبئی کے بازار میں بیچ دیے گئے تھے۔
انصافین کو تو عمران خان‘ اسد عمر اور دیگر سے سخت سوال و جواب کرنے چاہیے تھے کہ اگر آپ نے بھی پہلے والوں جیسے کام کرنے تھے تو اُن میں کیا برائی تھی؟ آپ کو تو اُن سے بہتر ہونا چاہیے تھا۔ اس سے پہلے کوئی انصافین اٹھ کر عمران خان اور اسد عمر سے سوالات اور ان کا تیا پانچہ کرتا‘ اسد عمر نے سمجھداری سے پہلے ہی ان نوجوانوں کو تھپکی دے کر کہا: ہمارے جوانو! آپ نے الٹا ان سب کا تیاپانچہ کرنا ہے جنہوں نے عمران خان کے دبئی میں تحائف بیچنے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ کیا بھاری ذمہ داری ان نوجوانوں کے ناتواں کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ کیا 26 برسوں کی دن رات کی محنت سے نوجوان انصافین اس دن کے لیے تیار کیے گئے تھے کہ وہ گھڑی سکینڈل پر سوالات اٹھانے والوں کا تیا پانچہ کریں؟
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ