گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان کچھ یادیں ۔
آج صبح ڈیرہ میں جم کے بارش ہوئ اور میں سٹیشن ڈائرکٹر صاحبزادہ ڈاکٹر نجم الحسن سے براڈکاسٹنگ ہاوس آنے کا وعدہ کر چکا تھا۔ خیر بارش تھم گئی تو اپنے دوستوں پیر فقیر شیر محمد اور ابوالمعظم ترابی کو ساتھ لے کر ریڈیو سٹیشن پہنچ گئے اور صاحبزادہ نجم الحسن صاحب سے بہت سے موضوعات پر بڑی علمی گفتگو کی۔ ڈاکٹر نجم الحسن صاحب بڑے صاحب مطالعہ اور نہایت نفیس قسم کی شخصیت ہیں جن سے بار بار ملنے کو دل کرتا ہے۔ ہم جب درابن روڈ سے سٹیشن جا رہے تھے تو میرا دل و دماغ ان راستوں میں کھویا رہا ۔کئی سال پہلے یہ سڑک اس طرح نہیں تھی اور مجھے اپنا ماضی یاد آنے لگا۔
جب میری تقرری ریڈیو پاکستان ڈیرہ میں ہوئی تو میں جرنلزم گریجویٹ تھا اور انگریزء اخبار دی مسلم اسلام آباد میں کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتا تھا لیکن ریڈیو کے کام سے مکمل نا آشنا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے ہمارے ملک میں بہت کم ریڈیو سٹیشن تھے اور باہر کے طلباء کو ان کے اندر کام سیکھنے کا بہت کم موقع ملتا۔ ہمارے گھروں میں ریڈیو تو موجود تھے مگر ہمارا فوکس گانا سننے تک محدود رہتا ۔ابھی بجلی سے چلنے والے بڑی سائیز کے ریڈیو سیٹ تھے جو بجلی کے سوئچ کے قریب رکھے ہوتے تھے اور ان کا کنٹرول گھر کے بڑوں کے پاس تھا کہ وہ ہمارے ریڈیو سننے کے اوقات کا فیصلہ کرتے ۔ٹرانسسٹر ہمارے پاس ابھی کم کم تھے۔ جب ریڈیو پاکستان ڈیرہ کی عمارت میں پہلے دن پہنچا تو حیرتوں کے پہاڑ کھڑے ہو گیے۔ سب سے بڑی مشکل تو یہ تھی کہ یہ عمارت ڈیرہ شھر سے چھ کلو میٹر دور ایک ویران علاقے کوٹلہ سیدان کے سامنے بنائی گئی تھی جہاں آنے جانے کی دشواری تھی کیونکہ ہمارے پاس ذاتی موٹر سائیکل یا گاڑی بھی نہیں تھی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا برا حال تھا۔ ریڈیو چونکہ ابھی چالو نہیں ہوا تھا اس لیے وہاں فرنیچر تک نہیں آیا تھا اور گاڑیاں نہیں ملی تھیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی پرانی کھٹارہ راکٹ فورڈ بسیں درابن جانے کے لیے ٹانک اڈہ سے چلتی تھیں اور دو دو گھنٹے کا وقفہ ہوتا تھا۔ یہ بسیں چونکہ راستے کے درجنوں گاوں کی سواریاں بٹھاتی تھیں اس لیے گاوں کے لوگوں کی بھیڑیں ۔بکریاں۔دنبے ۔وغیرہ بس کے اندر سیٹوں کے آگے کھڑے ہوتے۔ ویسے تو مجھے ان تمام جانوروں سے بڑی محبت ہے مگر بس کے اندر ان کے ساتھ سفر کرنے میں مشکل یہ تھی کہ دودھ کے ساتھ بکری کی مینگنیں بھی ہمارے کپڑوں پر گرتیں۔ اور آگے ہم نے دفتر جانا ہوتا۔بکری کی تازہ مینگنیوں میں یہ خوبی ہے کہ یہ کپڑوں سے چپک بھی جاتی ہیں۔دوسری چیز اس وقت یہ دیکھنے میں آئی کہ بکریاں جیسی بھی ہیں وہ خوش پوش صفائی پسند لوگوں سے بہت محبت کرتی ہیں اور اگر پینٹ شرٹ اور ٹائی پہنی ہو تو فورا” آپ سے بے تکلف ہو جاتی ہیں۔بکری کے مالک سیٹ پر بیٹھے اپنے مال کو سامنے پکڑ کر بیٹھتے اگر ہمیں رش کی وجہ سے بکری کی ساتھ والی سیٹ عطا ہوئی ہے تو بکری کی تمام توجہ ہمارے خوبصورت لباس پر مرکوز ہوتی۔ وہ ہماری طرف منہ کر کے ہمارے کپڑوں کو اس طرح چیک کرنا شروع کرتی جیسے موتی بازار پنڈی میں خواتین اپنے بچوں کے کپڑوں کے سائیز ۔رنگ اور کوالٹی چیک کرتی ہیں۔ پتہ یہ چلا کہ بکریاں اور خواتین کپڑوں کے رنگ ان کی پائیداری اور کوالٹی کو بہت عمدہ اور جدید ڈیزائین میں پسند کرتی ہیں۔ مثال کے طور پہلے دن میں پنک کلر کی ٹائی باندھ کے گیا۔ اب بکری کی مجبوری یہ تھی کہ اس نے تو صرف ٹائی کو منہ میں ڈال کے چیک کرنا تھا کیونکہ بکری کے خواتین کی طرح ہاتھ تو نہیں ہوتے چنانچہ بکری نےاچانک بغیر اجازت میری ٹائی کا نچلا سرا منہ میں لیا اور اس زور سے کھینچا کہ میرا سر سیدھا اس کے سینگوں والے ماتھے سے ٹکرایا۔اب اس زورا زوری میں مالک بھی بکری کو اپنی طرف کھینچنے لگا اس رسہ کشی میں میری مخالف ٹیم کے کھلاڑی دو ہو گیے اور میں اکیلا رہ گیا پھر میرا سر تین چار دفعہ اگلی سیٹ کی بیک سے ٹکراتا رہا ۔ بکری کے مالک نے معزرت کی کہ گُنگ دام مال ہے یعنی معصوم بے زبان جانور ہے معاف کر دیں۔ اب انگریزوں کی ٹائی کی خاطر کسی کی جان تو نہیں لے سکتے میں نےاس ٹائی کو ضائع کر کے آئندہ کیلیے ٹائی نہ پہننے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ کونسا ہماری یونیفارم میں شامل تھی۔دوسرے دن پھر بھی جب بکری کے قریب سیٹ ملی میں نے مالک کو وارننگ دے دی کہ بکری کا منہ دوسری طرف پکڑ کے بیٹھے اچھابندہ تھا بات مان گیا حالانکہ آج تو سرے سے ٹائی باندھی ہوئی بھی نہیں تھی۔ لیکن سیانے کہتے ہیں بیوی اور بکری سے بگاڑ کے مت رکھو ۔ بکری نے منہ تو دوسری طرف کر لیا مگر کیا پتہ تھا وہ ناراض ہو چکی ہے مڑ مڑ کے دیکھ تو رہی تھی حالانکہ یہ تو نئی بکری تھی۔اس دفعہ جب مجھے کچھ دیر سکون سے بیٹھا دیکھا تو اچانک دو حملے کر دیے۔ ایک طرف مینگنیوں کی توپ کا دہانہ کھول دیا دوسرے طرف جیسے یورپ کی پولیس والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر گن کا استعمال کرتے ہیں پانی کا پرنالہ کھول دیا۔اب تو میری شرٹ۔پینٹ اور سب کچھ بھیگ چکا تھا۔میں بس سے اترا ۔کنڈکٹر کو غصے سے دیکھا رکشا پکڑا اور گھر پہنچ گیا۔کپڑے تبدیل کیے دفتر فون کر دی کہ طبیعت ناساز ہے چھٹی کرونگا اب کسی کو کیا بتاتا؟ صرف آج آپ کو بتانا پڑ گیا۔ والد صاحب نے جب میری یہ حالت دیکھی تو شام کو یاماہا 100جاپانی موٹر بائیک مبلغ دس ھزار دو سو میں زیرو میٹر دلوا دی۔ والد بھی کیا ہستی ہوتا ہے بچہ تھا اور چلنا نہیں سیکھا تھا تو چلنے والی کارٹ لے آیا۔اس وقت یہ کارٹ لکڑی کی بنی ہوئی ہوتیں تھیں ۔جب چلنے لگا تو ٹرائی سائیکل دلوا دی۔ پھر چھوٹی دو پہیوں والی سائیکلیں پھر بڑی ریلے سائیکل اور اب جبکہ میں کلاس ون افسر بن گیا تو موٹر سائیکل بھی انہوں نے دلوائی۔اللہ مغفرت کرے آمین۔اس طرح میرا بسوں کا سفر ختم ہوا اور اپنی گاڑیوں کا شروع ہو گیا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ