نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لالہ سراج الحق اور عمران خان کا تازہ ’’کلام‘‘ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسٹیبلشمنٹ نے پہلے پی ٹی آئی اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت قائم کی۔ اس ’’شعر ‘‘ کے خالق سراج الحق ہیں۔ ہم سمیت بہت سارے لوگ انہیں لالہ سراج الحق کہتے ہیں۔ آپ جماعت اسلامی کے امیر ہیں۔

فقیر راحموں کا کہناہے کہ شاعر لالہ سراج الحق اصل میں شکوہ کررہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ’’ہمیں ہماری خدمات‘‘ کا پورا معاوضہ کبھی نہیں دیا بلکہ ہمیں جہادی اور عالمگیر انقلاب اسلامی والے کنٹینروں کی بتیوں کے پیچھے لگائے رکھا حالانکہ کسی بھی دستیاب مذہبی اور سیاسی جماعت کے مقابلہ میں ہماری خدمات بہت زیادہ ہیں اتنی زیادہ کہ افغانستان، کشمیر (دونوں حصے) اور پاکستان کے تقریباً ہر قبرستان میں اس کے ثبوت مدفون ہیں۔

یہ فقیر راحموں بھی نا بڑا فسادی ہے اس سے بچنے کے لئے کتابوں میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ اب جو تفسیر اس نے لالہ سراج الحق کے شعر کی بیان کی ہے اس کی بھلا کیا ضرورت تھی۔

جماعت اسلامی میں جو چند غیرپراپرٹی ڈیلر رہ گئے ہیں لالہ ان میں سے ایک ہیں۔ لالہ نے ایک اور شعر بھی سنایا ہے کہتے ہیں ’’پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے سیاستدان وہی ہیں جنہوں نے 75سالوں سے نظریہ پاکستان کے ساتھ بے وفائی کی ہے‘‘۔

75برس کچھ زیادہ بتادیئے لالہ نے ورنہ یہ نظریہ پاکستان، دوسرے فوجی آمر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات میجر جنرل شیر علی خان پٹودی کی تخلیق ہے۔

آپ میں سے جو انہیں نہ جانتے ہوں ان کے لئے مزید عرض ہے کہ یکم مئی عالمی یوم محنت کشاں کے مقابلہ میں ’’یوم شوکت اسلام‘‘ کے خالق بھی یہی میجر جنرل پٹودی تھے۔

تب جماعت اسلامی نے میلوں لمبے جلوس نکالے تھے ان جلوسوں کی وجہ سے ہی یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ 1970ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی سب کا بستر یوریا گول کرادے گی۔

ان دنوں (1970ء کے انتخابات سے قبل) اخبارات کی سرخیاں کچھ یوں ہوا کرتی تھیں

’’پیپلزپارٹی کا پنجاب میں باجا بجنے کو ہے، بھٹو کو لاہور سے عبرتناک شکست ہوگی، جماعت اسلامی انتخابی دوڑ میں سب سے آگے۔ لاہور سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہونے کو ہے ” ۔

چلیں چھوڑیں ہم بھی کیا قصے لے کر بیٹھ گئے۔ پرانی باتوں کا ذکر کیا کرنا۔ جماعت اسلامی کی اسلام، پاکستان، نظریہ پاکستان، دو قومی نظریہ اور عالمگیر انقلاب اسلامی کے لئے بڑی خدمات ہیں ان تاریخ ساز خدمات کے دوران اگر چھوٹی موٹی غلطیاں ہوجائیں اور زبان غوطے کھانے لگ جائے تو برا منانے اور باتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔

ہماری نئی نسل چونکہ جماعت اسلام کی تاریخ ساز خدمات سے واقف نہیں اس لئے وہ چند کمرشل لبرل قسم کے دانشوروں کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر ان کے لتے لینے لگتی ہے۔

کیا زمانہ تھا جب مرحوم میاں طفیل محمد نے (آپ اس وقت جماعت کے سیکرٹری جنرل تھے) ارشاد فرمایا تھا

’’جنرل آغا محمد یحییٰ خان نفاذ اسلام کے اس عمل کو وہیں سے آگے بڑھائیں گے جہاں چوتھے خلیفہ راشد حضرت علیؑ کی شہادت کی بدولت رک گیا تھأ‘‘۔

مجھے یقین ہے اب آپ ثبوت مانگیں گے۔ دو طریقے ہیں ایک یہ کہ 1970ء کے انتخابات اور اس سے قبل کے اخبارات کی فائلوں کی لائبریویوں میں جاکر ورق گردانی کریں دوسری صورت یہ ہے کہ ہمارے قابل احترام بزرگ دوست سید علی جعفر زیدی کی تصنیف ’’باہر جنگل اندر آگ‘‘ پڑھ لیجے

ساعت بھر کے لئے رکئے فقیر راحموں سرگوشی کررہا ہے کہتا ہے ’’اس چیک کا کیا رولا ہے جو امریکی سفیر نے 1970ء کے انتخابات سے قبل جماعت اسلامی کو بھجوایا تھا اور میاں طفیل محمد مرحوم نے باضابطہ اس پر شکریہ بھی ادا کیا‘‘۔

بہت شرارتی ہے یہ فقیر راحموں بلاوجہ ہماری جماعت اسلامی سے دشمنی بنوانے کے چکر میں ہے حالانکہ ہمیں جماعت سے صرف ایک شکوہ ہے کہ ان کی پارٹی کاایک پراپرٹی ڈیلر لاہور میں قائم اپنی ہائوسنگ سوسائٹی میں ہمارے ایک عدد پلاٹ ڈی 38 کو واجبات کلیئر ہونے اور ملکیتی سرٹیفکیٹ جاری ہونے کے باوجود بیچ کر کھاگیا اور دوسرے پلاٹ اور ایک فائل کے پیسے اس نے جہادی چندے میں شامل کرلئے۔

معاف کیجئے اس شخصی دادا گیری کے باوجود ہمیں جماعت اسلامی کا بہت احترام ہے۔ اس احترام کی نصف درجن وجوہات ہیں لیکن ان کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ لالہ سراج الحق اچھے آدمی ہیں یقین کیجئے لیاقت بلوچ، ظہور وٹو اور فرید پراچہ سے کروڑہا درجہ اچھے آدمی ہیں۔

سادہ آدمی ہیں ’’ول جھل‘‘ سے نہیں جوبات دل میں ہو زبان پر لے آتے ہیں۔

آپ جب امیر جماعت منتخب ہوئے تو فقیر ر احموں جیسے اسلام دشمنوں نے خوب پروپیگنڈہ کیا کہ 5ہزار ووٹ اگر غائب نہ کردیئے جاتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ ہم نے تب بھی اس کی اور چند دوسرے اسلام دشمنوں کی اس بات پر بالکل بھی یقین نہیں کیا تھا کہ جماعت اسلامی کی امارت کے اس انتخابات میں ایک خفیہ ایجنسی کے ضلعی سربراہان نے پراجیکٹ منیجروں کی طرح سرمایہ کاری کی تھی۔

چلیں اب کالم کے دوسرے حصہ میں سابق وزیراعظم امیدِ امتِ مسملہ سربراہ تحریک انصاف عمران خان کے تازہ کلام و ارشادات پر بات کرلیتے ہیں۔

لیجئے ایک بار پھر فقیر راحموں نے ٹانگ اڑاتے ہوئے پوچھا ہے ’’شاہ جی فنانشل ٹائمز نے جو کچھ عرصہ قبل عمران خان کی کرپشن کہانیوں پر پورا صفحہ شائع کیا خان صاحب یا ان کی جماعت کب برطانوی عدالت میں فنانشل ٹائمز کا مکو ٹھپنے کے لئے دعویٰ کررہے ہیں؟

اصولی طور پر اس کا جواب خان اور تحریک انصاف کو دینا چاہیے۔ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے پرائی لڑائی میں ٹانگ اڑانے کی ہم تو صرف گوڈے کی معمولی سی تکلیف کی وجہ سے دو سال سے چھڑی کا سہارا لے کر چلتے ہیں۔

ادھر عمران خان ہیں چار گولیاں اور چند چھرے ٹانگوں میں لگنے کے باوجود انہوں نے دوڑنے والی ورزش میں استعمال ہونے والی مشین منگوالی ہے۔ یہ مشین گزشتہ روز بنی گالہ شریف سے زمان پارک پہنچادی گئی ہے۔

خیر چھوڑیئے ہم عمران خان کے تازہ ’’کلام‘‘ سے قارئین کو آگاہ کرتے ہیں۔ خان صاحب نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا ہے، سائفر بیانیہ ماضی کا حصہ ہے اب وہ پیچھے رہ گیا میں برسراقتدار آکر امریکہ سمیت تمام ممالک سے اچھے تعلقات چاہتا ہوں۔ ماضی میں واشنگٹن سے جو آقا و غلام کا رشتہ تھا اس کی ذمہ دار پرانی حکومتیں ہیں۔

فوج میرے مستقبل کے منصوبوں میں تعمیری کردار ادا کرسکتی ہے‘‘۔

یعنی سجدہ سہو کی کھلی دعوت دی ہے۔ ارشاد فرمایا

’’آرمی نے ماضی میں شریف فیملی جیسے خاندانوں کے ساتھ مل کر خودمختار اداروں کو کمزور کیا "۔

یہاں شاعر نے آرمی کی ان خدمات کا بالکل ذکر نہیں کیا جو ان کی میڈیا مینجمنٹ اور سیاسی تربیت و پروان گیری کے لئے انجام دی گئیں۔ 2018ء کے انتخابات میں کی جانے والی واردات کا ذکر بھی شاعر گول کرگیا۔ آر ٹی ایس سسٹم کا بیٹھ جانا، کال پر پارٹی بدل لینا وغیرہ وغیرہ اینڈ وغیرہ۔

یہ بھی ارشاد ہوا، یوکرین حملے سے ایک دن قبل روس کا دورہ باعث ندامت تھا۔

ارے کیوں باعث ندامت تھا قبلہ آپ تو ہمیں پچھلے سات ماہ سے سمجھارہے تھے کہ دورہ روس آزاد خارجہ پالیسی کا حصہ تھا امریکہ کو یہ پسند نہیں آیا اس نے میرے خلاف سازش کی۔ کچھ مقامی سہولت کاروں جن میں میر جعفر، میر صادق، مسٹر ایکس، مسٹر وائی اور مسٹر زیڈ شامل تھے، نے پی ڈی ایم کے ٹوڈیوں کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے ملک میں غیرملکی گماشتوں کی حکومت قائم ہوگئی۔

اب وہ آزاد خارجہ پالیسی والا دورہ جس میں روس نے گندم اور پٹرول خریدنے کے لئے ترلے منتیں کی تھیں، باعث ندامت کیسے ہوگیا؟

خان صاحب نے ایک بار پھر اپنے مخالفین کو کرپشن زدہ قرار دیا ہے۔ ویسے اب انہیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ خود ان کے دامن پر بھی ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے سمیت توشہ خانہ وغیرہ کے الزامات کے داغ ہیں۔

ان کے تازہ کلام کا سب سے اچھا شعر یہ ہے کہ عدلیہ پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑی ہو۔ پاکستانی عوام سے مراد ان کی یقیناً انصافیان ہی ہوں گے۔

سچی بات یہ ہے کہ عدلیہ کو اپنے حقیقی فرض یعنی انصاف کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ انصاف کو تحریک انصاف سمجھنے کی غلطی نہیں کرنا چاہیے۔

خان صاحب کا حقیقی آزادی لانگ مارچ جہاد اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے ۔ پنجاب اسمبلی کا ساڑھے تین مہینوں سے جاری اجلاس دو دن کے وقفے کے بعد پھر شروع ہوگیا ہے۔

چودھری پرویزالٰہی سیانے بیانے بندے ہیں انہیں پتہ ہے کہ رواں اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ اور سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جاسکتی اس لئے وہ اجلاس ملتوی نہیں ہونے دیتے اور (ن) لیگ کے پندرہ اٹھارہ ارکان کے اجلاس میں شرکت پر پابندی لگواتے رہتے ہیں۔

سیاست اسی کو کہتے ہیں لیکن تحریک انصاف کے اندر بھی ان کے خلاف کھچڑی پک رہی ہے اس کی وجہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی اصلی ایف آئی آر کا درج نہ ہونا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author