رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آندھی اٹھی اور سب کچھ تہس نہس ہوگیا۔ کوئی چیز بھی اپنی جگہ پر نہیں رہی‘ سب کچھ خس و خاشاک کی طرح اُڑ گیا۔ موسموں کی پیش گوئی کی مہارت تو نہیں مگر سن رکھا ہے کہ جب فضا میں جمود ہو‘ خلا ہو اور حدت بڑھ جائے تو طوفان کی آمد کا خطرہ ہوتا ہے۔ موسم گرما میں گھٹن بڑھتی ہے تو آسمان کا رنگ بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ طوفانی جھکڑ چلنے لگتے ہیں جو سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت ہماری بھی ہے۔
بندوبستی نظام کے پرزے اپنی جگہ سے سرک چکے لیکن جس عجلت اور تندی سے اسے جوڑا گیا تھا‘ نہ اس کی کوئی شکل نکلی نہ ہی وہ اس کام کے لیے موزوں تھے جو اگر کسی کے ذہن میں تھا۔ پہلے تو یہ سارے پرزے زنگ آلود تھے۔ کچھ پر میل کی اتنی تہیں جم چکی تھیں کہ دنیا کا کو ئی محلول ان کی صفائی نہیں کر سکتا تھا۔ ان پر رنگ کرکے شکل نکھارنے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے ان کی فطرت کیسے چھپ سکتی تھی۔ گزشتہ سات ماہ سے ایک ہی آواز لگائی جارہی ہے کہ یہ وہی نظام ہے جسے آئین میں لکھا جا چکا اور یہی تو جمہوریت کا ”حسن‘‘ ہے جس کے جلوے ہم ان کی چالیس سالہ حکمرانیوں میں دیکھ چکے ہیں۔ جو اس آواز میں آواز ملانے کے لیے تیار ہے‘ اس پر مہربانیاں اور کرم فرمائیاں ہیں۔ کھوکھلے ہی سہی‘ عزت و تکریم کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بزورِ طاقت دبانے کا چلن ہے۔ اپنے ملک کے المناک ماضی کے دریچوں کی طرف بار بار نظر دوڑ جاتی ہے۔ دل دہلانے والی خبر افریقہ کے ملک کینیا سے آتی ہے کہ ارشد شریف ہم میں نہ رہے۔ سنتے ہی دل بیٹھ گیا‘ ہر طرف اداسی چھا گئی‘ ایک عجیب قسم کی خموشی نے آن لیا۔ فکرمندی کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اس اندوہناک واقعے کے بارے میں جتنا سوچتا ہوں‘ لفظ ظلم بہت حقیر محسوس ہوتا ہے۔ یاد آیا کہ ایک معصوم کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔ اب کس کس کی بات کریں۔ کس کا نام لیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ہر طرف سے ان مظلوموں کی کہانیاں سنائی جارہی ہیں کہ کیسے ٹیلی وژن سٹیشن سے باہر نکلتے ہی سرِبازار پیٹا گیا‘ کپڑے پھاڑے گئے‘ ان کی بزرگی‘ تحریر اور صحافت کے میدان میں نصف صدی سے کمایا گیا نام کچھ بھی ڈھال نہ بن سکا۔ آئین اور قانون موجود ہو اور جمہوریت کا ستارہ چمک رہا ہو تو ایسا سلوک ایاز امیر جیسے صاحبِ علم دانشور کے ساتھ کیسے ممکن ہوتا؟ ابھی تک تو ان پر حملے میں ملوث کوئی شخص پکڑ ا گیا نہ کوئی رپٹ درج ہوئی۔
سوچنے کی بات ہے کہ شہباز گل کے ساتھ بدسلوکی ہو یا سینیٹر اعظم سواتی کے ساتھ‘ انگشت نمائی کس طرف ہوئی۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ کس آئینی اور جمہوری نظام میں ملک کے سینیٹر کے ساتھ ایسا سلوک ممکن ہے۔ اُنہوں نے کیا لکھا تھا؟ چند ایک الفاظ ہوں گے۔ نہ میں نے دیکھے‘ نہ سنے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تو نہیں کہ اخبار میں خبر رکوا دی۔ یہ عالمی ابلاغ کا دور ہے۔ خبریں برقی رو پر سفر کرتی ہیں اور دنیا ایسے واقعات پر خاموش نہیں رہتی۔
ارشد شریف کا قتل ہو یا ایاز امیر‘ شہباز گل اور اعظم سواتی کا معاملہ‘ یہ نہ ملک کے اندر نظر انداز ہو سکا‘ نہ عالمی سماج‘ معاشرہ اور تنظیمیں انہیں نظر انداز کریں گی۔ بے شک عدالتیں نہ لگیں‘ مقدمات کا اندراج نہ ہو‘ سزائیں نہ سنائی جائیں‘ تاریخ کے صفحات کورے نہیں رہیں گے۔ یہ حکومت کیا اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے بچ سکتی ہے؟ شاید اس وقت تک جب تک سرپرستی کی چھتری میسر ہے۔ کیا عقل مند لوگ اس کابینہ کو رونق بخش رہے ہیں؟ عدالت عالیہ کو خط لکھا گیا ہے کہ وہ معلوم کرے کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر بھجوانے کی سہولت کاری کس نے کی تھی؟ کیا انصاف کا معیار یہ ہے کہ تیرہ مقدمے آپ اس کے خلاف بنائیں اور یہ بھی کہ وہ سندھ کے دور دراز کے مقامات سے لے کر پنجاب کے کونے کونے میں درج کرائے جائیں۔ حراست میں لینے کے لیے ہر طرف آپ کے گھوڑے دوڑ رہے ہوں اور آپ الزام دوسروں پر عائد کردیں کہ باہر جانے میں معاونت کیوں کی۔ تو کیا ہم بھی جان کی امان پائے بغیر پوچھ سکتے ہیں کہ پھر نواز شریف باہر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ مشرف کے زمانے میں آپ کے خلاف مقدمات بنے تو آپ نے سعودی فرماں روا کی مداخلت سے خلاصی حاصل کرکے وہاں پناہ لے تھی۔ شکر ہے کہ آپ امان میں رہے لیکن ہمارے جیسے ارشد شریف کو یہ امان میسر نہ آسکی۔
عمران خان پر بھی قاتلانہ حملہ ہوگیا۔ اُوپر کی باتیں اوپر والے جانیں‘ ہم تو ارضی مخلوق ہیں‘ زمینی باتیں ہی کر سکتے ہیں۔ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد عمران خان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ان کے خوف میں اتنا اضافہ ہو چکا کہ کسی بھی چیز کو خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا۔ جوکوئی منصوبہ بنایا گیا تھا‘ اس بارے میں بھی حکومت نے عدالتِ عظمیٰ سے کمیشن بنانے کی درخواست کی ہے کہ وہ اس کے ذمہ داروں کا تعین کرے۔ ارشد شریف پر بھی ایک کمیشن بنا مگر اس کے سربراہ کچھ کرنے سے پہلے ہی مستعفی ہو چکے ہیں۔ آج تک بننے والے تمام تحقیقاتی کمیشنوں کی دستاویزات موجود ہیں جو وہ معلوم کر پائے اور لکھ دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ رپورٹوں کے بجائے کہانیوں پر یقین کرتے ہیں۔
سیاست کے انداز اپنے ہوتے ہیں۔ یہ بنائے نہیں جاتے‘ ایک فطری معاشرتی عمل سے استوار ہوتے ہیں۔ انہیں مصنوعی طریقوں سے تراشا جائے تو جان نہیں پڑتی۔ ان کا کھوکھلا پن طوفانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ گزشتہ سات ماہ سے ایسا لگتا ہے کہ ستر سال بیت گئے ہیں۔ ان سب واقعات کی جھلک دیکھ لی ہے جو سات عشروں میں ہمارے اکابرین بیان کرتے رہے ہیں۔ کسی کو ادراک ہے کہ ہم ایک نئی دنیا میں رہ رہے ہیں؟ یہاں کوئی راز‘ راز نہیں رہتا۔ دنیا مواصلات کے انقلاب سے گزر رہی ہے۔ باتیں کرنے کی اجارہ داری جو کسی زمانے میں حکمرانوں کے پاس تھی‘ آج نہیں ہے۔ روزانہ سکرینوں پر سچ کی دکان چمکانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کوئی خریدار ہی نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اب ان کا اعتبار اٹھ چکا۔ دوسری طرف سیاسی طاقت کا جھکائو ایک شخص‘ عمران خان کے پلڑے میں ہے۔ جو خود ڈراتا ہے‘ اس نے کیا کسی سے ڈرنا ہے؟ خوف تو اب دوسری طرف ہے کہ انتخابات کرائے اور اگر وہ شفاف ہوئے تو ان کی سیاست کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ اور پھر عمران کا مطالبہ کیا ہے؟ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیں۔ آپ نے ملک کا بہت نقصان کر لیا ہے۔ خدشہ ہے کہ ہم کہیں گہری دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ اب مان لیں کہ یہ صورت حال برقرار نہیں رہے گی۔ حکومت کا بس نہیں چل رہا اور حقائق بھی اس سے پوشیدہ نہیں۔ جو افراتفری کی فضا بن رہی ہے‘ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کہ یہ بندوبست چند دن اور گزار جائے مگر جو منصوبے حکومت نے بنائے‘ وہ تو طوفان کی نذر ہو چکے۔ اقتدار کے لیے عوام کی تائید جواز بنتی ہے۔ یہ باقی نہ رہے تو باقی آئینی تاویلیں اپنا وزن کھو بیٹھتی ہیں۔ اس وقت قوم بیدار ہو چکی ہے‘ حکومت کے جاگنے اور آنکھیں اور کان کھول کر گردو پیش کی خبر لینے کی باری ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر