حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کالم شروع کیا نصف لکھ چکا تو عدم اطمینان کے باعث نیا ورق لے کر پھر سے لکھنا شروع کردیا۔ پچھلے ڈیڑھ گھنٹے میں ایسا کُل تین بار ہوچکا۔ غالباً سیاسی کالم لکھنے کو جی آمادہ نہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر قلم مزدوری کرنے والے دوستوں کے ساتھ یہ مسئلہ رہتا ہے۔ آدمی آدمی ہی تو ہے روزانہ 2کالموں اور اداریہ نویسی کی مزدوری واجب ہے۔ کچھ پڑھنا بھی ہوتا ہے۔ پڑھنے کے معاملے میں گو مجھے سب سے زیادہ سوانح عمریاں اور تاریخ و سیاست کے موضوعات پسند ہیں پھر بھی وقت نکال کر قدیم ادب بھی پڑھ لیتا ہوں کبھی کبھی اپنے پسندیدہ شعراء کرام کے کلام میں پناہ حاصل کرتا ہوں۔
یہ پناہ لمحہ موجود سے فراری ہرگز نہیں، عدم فراری ہی تو ورثے میں ملی ہے ۔ سو جو بات درست سمجھی وہی عرض کی نفع و نقصان کا حساب کبھی نہیں رکھا۔
آج ایک عجیب دن ہے اُدھر فقیر راحموں شاعری فرمارہے ہیں۔ ان سے کہا کہ آج علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کا جنم دن ہے شاعری سے رعایت کیجئے۔ مان کر ہی نہیں دے رہے الٹا اقبال صاحب کے دو تین شعر سناتے ہوئے بولے شکر کرو اگر حضرت علامہ نے پاکستان کا خواب نہ دیکھا ہوتا تو پتہ نہیں آج تم جیسوں کی کیا حالت ہوتی۔
خیر فقیر راحموں کو اس کے حال پر چھوڑتے ہوئے ہم آگے بڑھتے ہیں ۔
یہاں آجکل حالت وہی ہے جو کبھی حافظ شیرازیؒ نے بتائی تھی ’’پیمان وفا کو بھول کر گزشتہ شب تنہائی پسند زاہد میخانے کی دہلیز عبور کرآیا اور پیمانوں کو بوسے دیتے ہوئے حلق تر کرنے لگ گیا‘‘۔ یا پھر یوں کہ
’’حکمت کے چشمے سے ایک جام اپنے ہاتھ میں لے۔ شاید تیرے دل کے تختے سے نقشِ جہالت مٹ جائے‘‘۔
یہاں حالت یہ ہے کہ گردش زمانہ سنبھلنے ہی نہیں دے رہی۔ گو موسم بدل رہا ہے لیکن اندر کا موسم وہ بھی تو بدلے نا کبھی۔ کیسے بدلے، چونسٹھ برس ہولئے یہاں جیتے رہتے بھگتتے اور کتنا جیا جائے ۔
فقیر راحموں کہتا ہے، "شاہ رعایا کو سوال زیب نہیں دیتے۔ اسے تو بس اطاعت کرنا ہوتی ہے” ۔
ادھر حافظ شیرازیؒ ہیں وہ صدیوں پہلے کہہ گئے تھے
’’اگر گردشِ زمانہ دو ایک روز ہماری آرزوئوں کے موافق نہیں رہی اور فلک دو ایک روز ہماری مرادوں کے مطابق نہیں گھوما تو غم نہ کرنا کیونکہ زمانے اور اس کی گردش کا حال ہمیشہ یکساں نہیں رہتا‘‘۔
سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں
’’حقیقی خوشی یہ ہے کہ رنج کا کچھ اثر نظر نہ آئے تاکہ دشمن کو خوشی اور دوست کو رنج نہ ہو‘‘۔
یہ بھی فرمایا
’’انسان کے عیب اس کا مال چھپا تو لیتا ہے لیکن اس زبان کا کیا کیا جائے جو عیبوں کو عیاں کرنے میں جُتی رہتی ہے ‘‘۔ امروالقیس کہتے ہیں
’’ساتھیو! ٹھہرو، کہ ہم گریہ کریں، محبوبہ اور منزل کی یاد میں‘‘۔ گزشتہ شب فقیر راحموں نے کہا، ساری عمر گریہ کرتے ہی تو گزری ہے ، کبھی خوابوں اور کبھی تعبیروں کے چوری ہوجانے پر گریہ کیا ،
فقیر راحموں کے بقول،
” سائیاں! ہم نے گریہ کو صبر کی ڈھال بنایا۔ شکر کی تسبیح سے انتظار کے شب و روز کاٹے۔ زندگی پھر بھی روٹھی رہی۔ اب تو ہی بتا کب تک یہ سب کرتے رہنا ہے۔ شہ رگ کے قریب ہی تو مقیم ہے، پھر یہ دو دفتری کیا لکھتے رہتے ہیں‘‘۔
"زندگی کی قسم اٹھاتے ضرور اگر اس سے ملاقات ہوئی ہوتی۔ ہم تو تقسیم پر حیرت زدہ رہے۔ جب حیرت تمام ہوئی تو اجل نے آن لیا ” ۔
ایک دن یوں بھی سمجھایا کہ
’’شاہ، آدمی اپنے حصے سے زیادہ نہیں پاتا” ،
بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ہمارے حصے میں شکر کی اوڑھنی اور صبر کے خیمے کے سوا تھا ہی کیا۔ جواب ملا، ناشکری نے رسوا کیا۔
ارے کیسی ناشکری، کچھ عطا ہوا کیا۔ فقیر راحموں نے بات کاٹتے ہوئے کہا،
"یار شاہ تیرا کچھ نہیں ہوسکتا۔ زبان کے چٹخاروں سے پیٹ نہیں بھرتا۔ زندگی تو بس دکھوں کا گھر ہے‘‘۔
میرا جی چاہتا ہے کہ دوستوں سے کہو،
” دوستو! آنکھیں خشک ہوئیں، یادوں کا دفتر کھولنے کو جی نہیں کرتا۔ حبس بڑھتا جارہا ہے۔ جتنے دن باقی ہیں انہیں رائیگاں کرنے کی بجائے جستجو میں خرچ کرتے ہیں۔ نعتموں کو زوال لازم ہے ” ۔
بے قدری اس کی وجہ ہے یا کچھ اور بات پھر وہی ہے "آدمی اپنے حصے سے زیادہ پانے کی آرزوئوں میں خود سے ایسا بچھڑتا ہے کہ خوابوں میں بھی ملاقات نہیں ہوپاتی‘‘۔
سچل سرمتؒ کہتے ہیں
’’محبوب غیروں پر مہرباں ہو پھر بھی عاشق امید کا دامن نہیں چھوڑتا، غموں نے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے پھر بھی یہ آس نہیں ٹوٹتی کہ بالآخر اسے سچل کے ساتھ ہی زندگی بیتانی ہے‘‘۔ سچل سرمت کہتے ہیں
’’محبت والے تختہ دار کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، عاشق اناالحق کا ورد کرتے دار پر چڑھتے ہیں۔ وحدت کے دریا میں اشکوں کی نہریں رواں کرنا بہتر ہے نہ رونے سے، اشکوں کی نہریں وسوسوں کو دھودیتی ہیں۔ مطلع صاف ہو تو فقط یار کے سوا کچھ نہیں دیکھائی دیتا‘‘۔
’’کھانے پر بلائوں کی طرح ٹوٹنے والے کیا سمجھیں گے، یہ تو روزے بھی احسان کرنے کے لئے رکھتے ہیں یا دیکھاوے کے لئے۔ عشق کی راہ بہت مختلف ہے۔ سوزوفراق والوں کی باتیں ہی اور ہیں‘‘۔
” دنیا طلبی ایسی بیماری ہے جو بڑے بڑے گھر کھاگئی۔ یہاں لوگ بزرگی سے دنیا حاصل کرتے ہیں۔ یہ صوفی صافی نہیں ہوتے خواہشوں کے غلام ہوتے ہیں”
"میرا جی چاہتا ہے کہ ساری بات کھول کے بتادوں۔ پہلا سبق یہی ہے کہ مخدومی اور مجذوبی کبھی ایک وجود میں اکٹھے نہیں ہوتے۔ مخدومی تو طلبِ دنیا سے باندھ دیتی ہے۔ میٹھے شربت اور شراب میں بہت فرق ہے۔ زندگی کی بھیک مانگنے سے کہیں بہتر ہے کہ راہ عشق میں جان لٹادی جائے۔ مست متوالی زندگی دیوانگی اور شیخ بننے کی آرزو سے لاکھ گنا بہتر ہے۔ جس دل میں مبحت نہیں وہ بنجر زمین کی طرح ہے۔ محبت کا نغمہ دیدار کی بانسری سے الاپا جائے تو سماں بندھتا ہے‘‘۔
کچھ دیر پہلے فقیر راحموں نے کہا یار شاہ جی کیا کاغذ کالے کرتے رہتے ہو۔ مسائلِ دنیا اور ہیں، وہ کیا؟
جواب ملا "آدمی صرف اپنے دکھوں کی صلیب اٹھاتا ہے دوسروں کی صلیب پر کبھی سزا وار نہیں ہوتا۔ کتابوں کے سبق جن سمتوں کےلئے رہنمائی کرتے ہیں ان کی طرف کا سفر اصل امتحان ہے۔ لوگ بھی کیا ہیں طمع کی کھیتی میں جمع کا بیج کاشت کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ فصل بہت اچھی ہوگی‘‘۔
مجھے اس کی باتوں پر کبھی حیرانی نہیں ہوتی ویسے تو میں اب خود پر بھی حیران نہیں ہوتا۔ کیا عشق کے بغیر سب جھوٹ ہے؟ عاشقی دار تک بھی لے جاتی ہے۔
ایک بار پھر سچل سرمت سے ملتے ہیں، فرماتے ہیں
’’ملائوں کی تشریحات کو کبھی دل نے تسلیم نہیں کیا، صداقت ثابت کرنے کے لئے منصور کی طرح سولی چڑھنا پڑتا ہے۔ یہ راستے تو محض پھندے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خود ہی حقیقت ہیں اور خود ہی مالک بھی‘‘۔
سچل سرمستؒ ہی کہتے ہیں
’’اے سکھیو مل کر آجائو، دوست نے رونق پیدا کی ہے آنکھوں کا رنگ سرخ و سیاہ تو سوزوفراق سے ہوا ۔ میرے محبوب نے میری طرف دردوفراق کا بازار ہی دوڑادیا۔ اس کے حُسن کا چرچا ہر سو ہے ۔ سچل خود تو نہیں کہتا اس میں یار بولتا ہے‘‘۔
عین ان سموں فقیر راحموں نے ایک کاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، یار شاہ تم بھی نہ دوسروں کی طرح گھر کا فقیر اور چلہے دا وٹہ ہی سمجھتے ہو ہمیں ۔
لیجئے ایک بار پھرفقیر راحموں کی شاعری کو برداشت کیجئے۔ لکھا تو انہوں نے یہ ہے
’’ہم نے اس کے دیدار کے شوق میں، آنکھیں ہتھیلی پر رکھیں وہ دھوپ سے پگھل گئیں، محبوب کو گھر بلا تو لوں لیکن وہ میرے زخموں کو دیکھ کر آزردہ ہوگا۔ میں شکر کے دھاگے سے زخموں کو سی لوں پھر صبر کی چادر اوڑھ لوں گا۔ جب سے اس نے منہ موڑا ہے میرے صحن سے غم اور فاقہ مستی جاتے ہی نہیں۔ اس کے ہوتے ہوئے کتنی فراوانی تھی۔ اب تو دکھوں، غموں اور زخموں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
سائیاں! یہ محت کے زہر والا پیالہ تو عطا کرو، وعدہ ایک قطرہ بھی زمین پر نہیں گرے گا اور پیتے ہوئے رقص بھی جاری رہے گا‘‘۔
اس کی شاعری اورباتیں میری تو سمجھ میں نہیں آتیں۔ ہم تو اب تک کے سفر حیات میں بس اتنا ہی جان پائے ہیں یار جس حال میں رکھے راضی رہنا چاہیے۔
سرمدؒ نے کہا تھا ’’تیرے دیدار کے لئے ہنسی خوشی گردن کٹوانے والے اور ہیں ہی کتنے؟‘‘
مجھے کبھی کبھی وہ شاعر بہت یاد آتا ہے جس نے کہا تھا ’’ہم جیسے دلبروں کو دوزخ میں پھینک کر بہشت کا کیا کرو گے‘‘۔ حرف آخر یہ ہے کہ
’’رمزوں والے محبوب تو سبھی نے رکھے، بے رمزوں کی کون سمجھے ہے اُس کے سوا‘‘۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور