حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان کے کنٹینر پر حملے کا معاملہ الجھتا جارہا ہے۔ کیسے، اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ فی الوقت یہ عرض کرنا ہے کہ اس معاملے میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی مختلف ٹی وی پروگراموں میں گفتگو انتہائی نامناسب، غیرذمہ دارانہ اور ذاتی عناد سے عبارت ہے ۔
ان کا عمران خان پر غصہ بجا ہے۔ ہیروئن کیس اتنا ہی جھوٹا تھا جتنا یہ دعویٰ کہ یہ ملک سکیورٹی سٹیٹ نہیں بلکہ جمہوریہ پاکستان ہے۔
وہ اب سات ماہ سے وزیر داخلہ ہیں اس سے پہلے جب وہ ضمانت پر رہا ہوئے تو ان سطور میں تجویز کیا تھا کہ وہ منشیات والے کیس کو چیلنج کریں۔ عمران خان، شہریار آفریدی اور اے این ایف کے اس وقت کے سربراہ کو عدالت کے کٹہرے میں لائیں۔ جب مقدمہ درج ہوا تھا تو تب بھی عرض کیا تھا اور بہت سارے یقینی کیس تھے رانا ثناء اللہ پر اس لئے جعلی مقدمہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔
دونوں باتوں پر تحریر نویس اب بھی قائم ہے۔
رانا ثناء اللہ کہتے ہیں مذہبی جنونیت کو عمران خان نے ہوا دی۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے سوفیصد درست نہیں کیونکہ اس مذہبی جنونیت کے بڑھاوے میں ان کی اس جماعت کا بھی بہت حصہ ہے جس میں وہ اس وقت شامل ہوئے جب محترمہ بینظیر بھٹو نے انہیں میاں نوازشریف کی صاحبزادی کے خلاف عامیانہ تقریر کرنے پر پارٹی سے نکالا تھا۔
رانا صاحب 1988ء کے عام انتخابات کے موسم کو یاد کریں ان دنوں وہ پیپلزپارٹی میں ہوتے تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد بنوانے والے مرحوم جنرل حمید گل کے ایک سے زائد بیانات ریکارڈ پر ہیں جن میں انہوں نے آئی جے آئی بنوانے کے حقیقی مقاصد بیان کئے۔ نمونے کے طور پر دو بیان پیش خدمت ہیں۔
اولاً یہ کہ ” فوج نے اسلامی جمہوری اتحاد بنوانے کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ فوج کے اندرونی حلقوں میں عام تاثر یہ تھا کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلزپارٹی میں فوج کے خلاف غم و غصہ ہے۔ اس کے چند لیڈروں کے بھارت سے روابط ہیں۔ اس لئے اس کا راستہ روکنا چاہیے ورنہ پیپلزپارٹی اقتدار میں آکر فوج سے بدلہ لے گی‘‘۔
اس بیان کے حوالے سے چند برس بعد انہوں نے کہا
’’بھارت سے روابط اور فوج سے بدلہ لینے کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے بارے میں ہماری سوچ غلط تھی‘‘۔
ان کا دوسرا بیان یہ تھا کہ
’’اسلام کے نام پر بنے ہوئے ملک میں سیکولر سوچ رکھنے والی پیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے فوجی قیادت کے مشورے سے ہم نے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا اور اس میں محب وطن و اسلام پسند جماعتوں کو اکٹھا کیا‘‘۔
اس دوسرے بیان کی انہوں نے مرتے وقت تک کوئی وضاحت نہیں کی۔ یہ ضرور ہوا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے ایک موقع پر یہ کہا کہ
"آئی جے آئی بنوانے کا فیصلہ عسکری قیادت کا اجتماعی فیصلہ نہیں تھا لیکن پی پی پی مخالف اتحاد بنوانے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی بھی نہیں کی گئی ” ۔
1988ء کے انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ کے خلاف آئی جے آئی کے جلسوں میں جو بولا کہا گیا وہ شرمناک تھا۔ اتنا شرمناک کہ یہ سطور لکھتے وقت وہ باتیں یاد کرکے آنکھیں نم ہوگئیں۔ ذاتی کردار کشی کے علاوہ عورت کی غیرشرعی حکمرانی کا چورن بھی خوب فروخت کیا گیا ۔
نون لیگ کے محبوب دوراں عطاءالحق قاسمی اور چند دیگر نے تو یہ تک لکھ دیا کہ ۔ عورت بھلا کیسے حکمران ہوسکتی ہے وہ تو مہینے میں چند دن ’’پاک‘‘ ہی نہیں ہوتی (میں یہ حوالہ لکھنے پر معافی چاہتا ہوں)
1990ء کے انتخابات کی انتخابی مہم کا ریکارڈ نکلوالیجے یا بعد کے دو الیکشنوں کا لگ پتہ جائے گا کہ کیا کیا بولا گیا۔
1990ء کے انتخابات کے وقت غلام مصطفی جتوئی نگران وزیراعظم تھے پی ٹی وی کو ہدایت کی گئی کہ جب بھی محترمہ بینظیر بھٹو یا پیپلزپارٹی کی کوئی خبر نشر ہو تو خبر کے دوران بلاول ہائوس کراچی کو اس طرح سکرین پر دکھایا جائے کہ گھر کے اوپر لگا ہوا علم حضرت عباسؑ نمایاں طور پر ناظرین کو نظر آتا رہے۔
عارف اقبال بھٹی کے قتل میں ملوث ٹولے کی سرپرستی میاں نوازشریف نے کی اس معاملے میں مذہبی تنازع کو (ن) لیگ نے بطور جماعت ہوا دی تھی ۔ سلمان تاثیر کے خلاف مذہبی مہم میں (ن) لیگ اور شریف خاندان پیش پیش رہے۔ 2عدد مولوی صاحبان کو رقم دے کر سلمان تاثیر کے خلاف میدان میں اتارا گیا جب آگے چل کر یہی دو مولوی (ن) لیگ کے گلے پڑے تو کہا گیا یہ سب اسٹیبلشمنٹ کروارہی ہے۔
حضور گھوڑے اور لشکر تیار کس نے کئے؟
اس لئے یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کے بڑھاوے میں صرف عمران خان ہی ذمہ دار ہے۔
2013ء کے عام انتخابات سے قبل لشکر جھنگوی سے معاہدہ اسی پولیس افسر نے کروایا تھا نہ جو بعد میں کئی سال تک پنجاب کا آئی جی تعینات رہا یعنی مشتاق سکھیرا۔
یہ درست ہے کہ تحریک انصاف نے (ن) لیگ کے خلاف وہی ہتھیار استعمال کیا جو (ن) لیگ پیپلزپارٹی کے خلاف کرتی چلی آئی تھی۔ جیسے قبل ازیں (ن) لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل تھی بالکل ویسے ہی (ن) لیگ کے خلاف اسٹیبلشمنٹ سینہ تان کر پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہوئی بلکہ فیض آباد دھرنے کے شرکا میں تو باوردی لفافے بنام واپسی کا کرایہ تقسیم ہوتے کروڑوں لوگوں نے دیکھا۔
تحریک انصاف نے 2017ء سے (ن) لیگ کے خلاف ختم نبوت کارڈ استعمال کیا۔ (ن) لیگ کا مذہبی ووٹ بینک متاثر کرانے کے لئے ملی مسلم لیگ اور پھر لبیک والے میدان میں اتروائے گئے۔ اسی عرصہ میں نوازشریف پر جامعہ نعیمیہ میں جوتا پھینکا گیا۔ احسن اقبال کو گولی لگی، خواجہ آصف پر حملہ ہوا پھر سیاہی پھینکی گئی۔ ابرارالحق نامی ایک گلوکار نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام کے علاوہ چند دیگر مواقع پر سینہ ٹھوک کر کہا احسن اقبال وغیرہ کے ساتھ جو ہوا وہ عوامی ردعمل ہے تب ان کے خیال میں مذہبی جنونیت کی کوکھ سے جنم لیتا تشدد عوامی ردعمل ہوتا تھا ۔
2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے مذہبی جوش و جذبہ سے (ن) لیگ کے خلاف ختم نبوتؐ والا کارڈ کھیلا اور خوب کھیلا۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے درجنوں لیڈران مجاہد ختم نبوتؐ ٹھہرے۔ منکرین ختم نبوت کوووٹ نہ دینے کے باقاعدہ پوسٹر لگوائے گئے۔
خود عمران خان اپنی تقاریر میں اسلامی رنگ بھرنے کے لئے جو کہتے رہتے ہیں ان سب کو ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو نئے فساد کا دروازہ کھل سکتا ہے لیکن کیا اپنے وقت میں (ن) لیگ نے کم کیا یا اب پچھلے چند دنوں سے جو ہلکی پھلکی مذہبی جنونیت کی ڈھولکی بجائی جارہی ہے یہ درست ہے؟
معاف کیجئے گا معاملات اتنے سادہ ہرگز نہیں مذہبی جنونیت کے اسٹیبلشمنٹی کھیل میں جس نے جب حصہ لیا اور حصہ پایا اس نے سیاسی عمل، جمہوریت اور عوام کے ساتھ ظلم کیا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا بڑا حصہ عوام دوستی سے زیادہ مذہب فروشی، خوابوں اور اسلامی اصلاحات کو سیاست کا رزق بنائے ہوئے ہے۔
سچ یہ ہے کہ اگر ایک دن کسی ایک دن سیاسی جماعتوں نے اخلاقی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکیورٹی سٹیٹ کی مذہبی تجارت کو شٹ اپ کال دی ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے ۔
عمران خان پر حملہ ہوا، حملہ آور کیا کہتا ہے اس پر درست یا غلط کی بحث الگ چیز ہے لیکن حملہ کی وجہ (بقول ملزم) بار بار بیان کرکے طعنے بازی کا مطلب دوسرے کی غلطی کی نشاندہی نہیں بلکہ جنونیت کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔
رانا ثناء اللہ سے عمران خان نے بطور وزیراعظم ظلم کیا اس ظلم پر رانا کے بدترین مخالفین بھی کہتے دیکھائی دیئے کہ عمرانی حکومت کا یہ اقدام درست نہیں۔ اس لئے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں آج کل جو زبان و بیان رانا ثناء اللہ برت رہے ہیں یہ بھی درست نہیں۔
عمران خان کو بھی اب احساس ہوا کہ (ن) لیگ انہیں سلمان تاثیر بنانا چاہتی ہے۔ ذرا ماضی کے اوراق الٹ کر سلمان تاثیر کے بارے میں خود اپنے خیالات سے حظ اٹھالیں۔
باردیگر عرض ہے اس ملک میں مذہبی شدت پسندی کے بڑھاوے کے چشمے اسٹیبلشمنٹ کے ’’بڑے گھر‘‘ سے پھوٹے۔ مذہبی جماعتوں نے تو خوب فیض پایا لیکن (ن) لیگ اور تحریک انصاف نے بھی بوقت ضرورت ’’سیر‘‘ ہونے میں کسر نہیں چھوڑی۔ پیپلزپارٹی سے بھی یقیناً کچھ غلطیاں ہوئیں ماضی میں لیکن وہ ایک الگ موضوع ہے۔ فی الوقت یہ عرض کررہا ہوں کہ عمران خان کے کنٹینر پر ہونے والے حملے میں پکڑے گئے ملزم کے ویڈیو بیان کو چٹخارے لے کر بیان کرنے سے شدت پسندی بڑھے گی۔
لاریب عمران خان اپنے مطلب کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکاتے اور تاثر دیتے ہیں کہ فقط وہی روحانی و سیاسی صالح اور نجات دہندہ ہیں۔
لیکن جواباً ان کی سیاسی غلطیوں، بلنڈرز اور اسٹیبلشمنٹ کے جھولے میں پروان چڑھائے جانے کے برسوں کی نشاندہی کی جانا چاہیے۔
ثانیاً یہ کہ (ن) لیگ کو بھی ماضی میں مذہبی کارڈ کھیلنے پر عوام سے معافی مانگنا چاہیے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور