حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
23کروڑ کی آبادی والے ملک میں 36کروڑ کرنل آفریدی اور 10کروڑ علی عمران ایم ایس سی پی ایچ ڈی آکسن ہوں تو یہی ہوتا ہے جو جمعرات کی دوپہر سے سوشل میڈیا پر ہورہا ہے۔
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب الیکٹرانک میڈیا نے سابق وزیراعظم عمران خان کے لانگ مارچ والے کنٹینر پر حملہ کی خبر نشر کی۔ یہ حملہ وزیرآباد کے اللہ والا چوک کے مقام پر ہوا۔
آگے بڑھنے سے قبل 2سوالات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اولاً یہ کہ کیا قانون کے مطابق ابتدائی طبی امداد کے بعد میڈیکل رپورٹ ( ایم ایل سی ) تیار ہوئی؟ اصولی طور پر یہ بہت ضروری تھی اور ہے۔ ابتدائی طبی امداد کس کس زخمی کو کس ہسپتال میں دی گئی۔
زخمیوں کی میڈیکل رپورٹ جس میں زخموں اور وجہ زخم کی نشاندہی ہو کہاں ہے؟ (اس تحریر کے لکھے جانے تک اس حوالے سے کچھ بھی نہیں ہوا) ثانیاً وقوعہ وزیرآباد کے اللہ والا چوک میں ہوا، پی ٹی آئی کے ایک کارکن نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پسٹل بردار کو عقب سے دبوچنے کی کوشش کی اس کوشش کے دوران پسٹل بردار سے ممکنہ طور پر مزید ایک گولی اور چلی اور سامنے کی طرف سے اس کی جانب آگے بڑھتے شخص (یہ بھی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور اپنے تین معصوم بچوں سمیت لانگ مارچ میں شرکت کے لئے آئے تھے) کو لگی اور وہ راہی ملک عدم ہوگیا۔
اس پسٹل بردار کی گرفتاری اللہ والا چوک سے ہوئی۔ وقوعہ وزیر آباد میں ہوا پولیس ملزم کو کیسے تھانہ صدر گجرات لے گئی۔ کسی ضابطے کی کارروائی کے بغیر ایک ضلع کی حدود سے دوسرے ضلع کی حدود میں واقع تھانہ میں ملزم کی منتقلی کا جواز کیا ہے؟
گجرات کے تھانہ صدر میں پسٹل بردار ملزم کا ویڈیو بیان ریکارڈ کیا گیا۔ بیان ریکارڈ کرنے کی حد تک تو بات درست ہے لیکن بیان کو میڈیا کے لئے دعوت عام بنادینے کا فیصلہ کس کا تھا؟ کیا ویڈیو بنانے کے وقت وہاں کوئی غیرمتعلقہ شخص بھی کیمرے کے ہمراہ موجود تھا اور اس نے ویڈیو بناکر میڈیا اور سوشل میڈیا کے لئے فراہم کی یا پھر یہ تھانہ صدر گجرات کے ایس ایچ او کا فیصلہ تھا۔
محض ایس ایچ او کا فیصلہ یا وہاں بیان کی ریکارڈنگ کے وقت ایک یا زائد اعلیٰ پولیس افسران بھی موجود تھے؟
اللہ والا چوک پر عمران خان کے کنٹینر پر ہونے والی فائرنگ سے عمران خان سمیت 13افراد زخمی ہوئے۔ وزیر آباد کے سرکاری ہسپتال سے کیا ان زخمیوں کا ایم ایل سی بنوایا گیا؟ قانونی طور پر ایم ایل سی بنوانا بہت ضروری تھا۔ ایم ایل سی اور ایم ڈی، ایکسرے کسی بھی اس طرح کے کیس میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
تھانہ صدر گجرات کی ابتدائی رپورٹ (اس کی اطلاع میڈیا کو بھی دی گئی) کے مطابق ملزم سے نائن ایم ایم کا ایک پسٹل 20 گولیاں اور دو خالی میگزین برآمد ہوئے؟ ابتدائی تفتیش کے مطابق جائے وقوعہ سے گولیوں کے گیارہ خول ملے ان میں 9 خول نائن ایم ایم پسٹل کے اور 2 دوسرے اسلحہ کے ہیں یہ بھی غور طلب ہے کہ کیا اس حملہ اور ساری ہنگامہ آرائی میں کسی اور مقام سے بھی کنٹینر پر فائرنگ کی گئی؟
ایم ایل سی اور ایم ڈی ایکسرے کے علاوہ انتہائی ضروری کام جائے وقوعہ کو سیل کرنا تھا۔ اطلاع یہ ہے کہ وقوعہ والی جگہ پر موجود کنٹینر کو سات بجے کے بھی بعد کارٹن آف کیا گیا۔ اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون ہے۔
وزیراعلیٰ نے پسٹل بردار کا ویڈیہ بیان لیک ہونے پر تھانہ صدر گجرات کا عملہ معطل کردیا۔ بظاہر یہی ہوسکتا تھا مگر وزیرآباد سے تھانہ صدر گجرات ملزم کس کے حکم پر لے جایا گیا؟
ملزم کا ویڈیو بیان جس میں اس نے عمران خان کو گمراہی پھیلانے کا مرتکب قرار دیا اپنی جگہ اہم ہے (قانونی طور پر) لیکن فائرنگ کرنے والے کے کپڑوں اور ویڈیو بیان دینے والے کپڑوں کے رنگ میں فرق ہے فائرنگ کے وقت پسٹل بردار نے جیکٹ پہنی ہوئی تھی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے کچھ لیڈران حامی اور یو ٹیوبرز جو الٹے سیدھے سوالات اور اٙت اٹھارہے ہیں ان کا جواب دیا جانا چاہیے۔
عینی شاہدین کہتے ہیں حملہ آور دو سے تین لوگ تھے۔ اگر یہ بات درست ہے تو بتایا جاناچاہیے کہ گرفتار شخص کے پسٹل سے کتنے فائر کنٹینر کو لگے اور اس سے کتنے افراد زخمی ہوئے۔ کیا فائرنگ میں کسی اور ساخت کا اسلحہ بھی استعمال ہوا؟ جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ کسی قریبی عمارت سے ’’پمپ ایکشن‘‘ سے کنٹینر پر فائرنگ ہوئی۔
کنٹینر اگر بلٹ پروف تھا تو 14سے 16فٹ نیچے سے چلائی گئی گولیاں کیسے اوپر جاکر لگیں۔ ماسوائے فیصل جاوید جنہیں چہرے پر زخم آیا اور دو افراد جن کی کمر پر چھرے لگنے کی اطلاع ہے کہا جارہا ہے کہ تقریباً تمام زخمیوں کو جسم کے نچلے حصے میں ٹانگوں پر گولیاں لگیں۔ تمام زخمی بلٹ پروف کنٹینر میں کھڑے ہوئے تھے۔ بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن ان کی اہمیت مسلمہ ہے۔
دوسری طرف اسد عمر اور پنجاب کے سینئر وزیر میاں اسلم اقبال نے عمران خان سے شوکت خانم ہسپتال میں ملاقات کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ہمیں عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ اس حملے کے ذمہ داران میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ایک خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسر (ویڈیو بیان میں نام موجود ہے) شامل ہیں۔ عمران خان کی ہدایت پر ان کے خلاف مقدمہ درج کروانے جارہے ہیں۔
گجرات کے آر پی او کہتے ہیں کہ اگر سکیورٹی ہدایات پرعمل کیا جاتا تو واقعہ نہ ہوتا۔ سکیورٹی ہدایات کا چارٹ یقیناً وہ اس جے آئی ٹی کو فراہم کریں گے جو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے جارہے ہیں۔
مکرر عرض کردوں دو باتیں بہت اہم ہیں اولاً کنٹینر کا بلٹ پروف ہونا اور پسٹل سے کئے گئے فائر لگ بھگ 14سے 16فٹ نیچے سے ہوئے ہیں۔ قریبی عمارت سے پمپ ایکشن سے فائرنگ کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس دعوے کی تصدیق بعض ویڈیوز سے ہوتی ہے جس میں پسٹل کے فائر سے قبل برسٹ کی صورت میں ہوئی فائرنگ کی آواز سنائی دے رہی ہے۔
آگے بڑھتے ہیں۔ کنٹینر حملے کے حوالے سے ایک موقف عمران خان کا ہے۔ ایک گرفتار ملزم کا ویڈیو بیان۔ چند عینی شاہدین کا دعویٰ کہ حملہ آور ایک سے زائد تھے 2یا 3۔ فائرنگ صرف پسٹل سے نہیں ہوئی دوسرا اسلحہ بھی استعمال ہوا۔ کس ساخت کا دوسرا اسلحہ استعمال ہوا؟
تکرار کی معذرت، فرانزک رپورٹ بتاسکتی ہے کہ زخمیوں کو لگنے والی گولیاں اسی پسٹل کی تھیں یا دوسرے کسی اسلحہ کی۔
تحریک انصاف کے بعض قائدین اور سوشل میڈیا متحرکین نے چند لمحوں کی تاخیر کے بغیر وقوعہ کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے دیا احتجاجی مظاہروں میں زیادہ تر نعرے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھے۔
یہاں ایک سوال ہے پشاور میں اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی شخصیت کے گھر کے باہر پی ٹی آئی کے احتجاج میں شرکت کے لئے افغان مہاجرین کو کون لے کر آیا؟ (اطلاعات ہیں کہ اس مظاہرہ کی بنائی گئی ویڈیوز سے چند فعال افغان مہاجرین کی نشاندہی ہوگئی ہے)
پی ٹی آئی کے فواد چودھری نے کس بنیاد پر گلی گلی جوابی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے کارکنوں سے ’’وعدہ لیا‘‘۔
کنٹینر پر ہونے والے حملے جس میں عمران خان سمیت 13افراد زخمی ہوئے، بجا طور پر یہ حملہ قابل مذمت اور شرمناک ہے۔ اس سے زیادہ شرمناک وہ رویہ اور دھونس ہے کہ حملہ کی غیرمشروط مذمت نہ کرنے والے ’’یہ ہیں اور وہ ہیں‘‘۔
جو اصول پسندی اور اخلاقیات جمعرات 3نومبر کی دوپہر کے بعد یاد آرہے ہیں اس اصول پسندی اور اخلاقیات کا خود پی ٹی آئی نے کب مظاہرہ کیا؟
بظاہر ابتدائی تفتیش اور ثبوتوں کے بغیر الزام تراشی بھی غلط ہے اور اسی طرح یہ بھی غلط کہ یہ حملہ خودساختہ تھا۔ دونوں طرح کی غلط باتیں کرنے والے اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں کسی بھی افسوسناک واقعہ کے بعد اسی طرح کے "دو پروگرام” چلتے ہیں۔
دو انتہائوں میں تقسیم سماج میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جس اہم بات کو جمعرات 3نومبر کی دوپہر سے نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان پر حملہ وزیر آباد کی حدود میں ہوا، وزیرآباد پنجاب میں ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف اور ق لیگ کی مخلوط حکومت ہے۔
پچھلے تین ماہ کے دوران صوبہ بھر کے انتظامی اور پولیس افسروں کے تبادلوں کے سیلاب کا تجزیہ کیجئے۔ لانگ مارچ اور عمران خان کے کنٹینر کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟ وفاقی حکومت؟ اسٹیبلشمنٹ یا پنجاب حکومت کی؟
سادہ سا جواب ہے پنجاب حکومت کی۔ پنجاب حکومت اور اس کے ماتحت محکمے اپنے فرائض کی انجام دہی میں قطعی طور پر ناکام ہوئے۔ اس ناکامی پر کوئی بات کی جارہی ہےنہ سوال اٹھائے جارہے ہیں ایسا کیوں ہے؟
یہ کیوں بدقسمتی سے دوسری طرف کے موقف کو تقویت فراہم کرتا ہے ۔
حرف آخر یہ ہے کہ منصوبے کے تحت تقسیم کئے گئے سماج میں وزیر آباد کا واقعہ شفاف تحقیقات کا متقاضی ہے کیونکہ اس واقعہ کو مزید تقسیم اور تشدد کے فروغ کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کھلے خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور