نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لانگ مارچ تحریک 10ماہ چلے گی۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حقیقی آزادی لانگ مارچ جہاد ابھی جی ٹی روڈ پر ضلع گوجرانوالہ کی حدود میں ہے اور خان صاحب کی دھواں دھار تقاریر کا سلسلہ بھی جاری ہے۔گزشتہ روز انہوں نے ارشاد فرمایا، کوئی یہ نہ سمجھے اسلام آباد پہنچ کر ہماری تحریک ختم ہوجائے گی۔ یہ تحریک اگلے دس ماہ تک جاری رہے گی جب تک الیکشن نہیں ہوجاتے۔

دس ماہ، یعنی نومبر دسمبر امسال کے اور جنوری سے اگست آئندہ برس کے۔ امکان یہی ہے کہ انتخابات اگست 2023ء کے دوسرے پندڑواڑے میں ہوں گے۔

"ویسے امکان سے زیادہ یہ وہ سچ ہے جو انہیں ایوان صدر میں ڈاکٹر عارف علوی کی میزبانی میں ہوئی ملاقات کے دوران بتادیا گیا تھا” ۔

اب سوال یہ ہے کہ جب وہ جانتے ہیں کہ انتخابات اگست اور بہت جلدی ہوئے تو جولائی میں ہوسکتے ہیں تو پھر وہ لانگ مارچ لئے سڑک پر کیوں ہیں؟ فقیر راحموں کا خیال ہے کہ ’’سپانسرڈ کی منشا یہی ہے‘‘۔ ہمزاد کی اس بات سے جزوی اختلاف ہے۔

کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ تحمل کے ساتھ 10ماہ گزارنے سے ریت مٹھی سے پھسل جائے گی اس لئے لہو گرم رکھنے اور عشاق کو متحرک رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ نہ کچھ کرتے رہیں۔ اگر صرف انتخابات کی تاریخ لینا مقصود ہوتا تو پھر لانگ مارچ کے ڈھنگ اور ہوتے۔

اپنے سابق مربیوں کو کوستے رہنا ہی ان کی سیاست کا رزق ہے۔ وہ نچلے نہیں بیٹھ سکتے۔ نفرت کی ہنڈیا چولہے پر دھرے رکھنا ان کی مجبوری ہے، یہی ان کی سیاست اور کاروبار ہے ، ماضی میں انہیں اسی کام کے لئے لانے والے لائے تھے۔

آپ عدم اتفاق کا حق رکھتے ہیں لیکن ان کی تقاریر کا تجزیہ کرکے دیکھ لیجئے وہ کہتے کیا ہیں کس سے کہتے ہیں۔ جن سیاستدانوں کو وہ آج چور اچکا وغیرہ وغیرہ کہتے نہیں تھکتے ان میں سے بہت ساروں کے لئے انہوں نے ماضی میں اچھی اچھی باتیں بھی کیں۔

انہی کے ساتھ وہ مختلف سیاسی اتحادوں میں بھی رہے یہ سیاسی اتحاد سڑکوں پر بھی بنے اور پارلیمان کے اندر بھی۔ جی ڈی اے، اے پی ڈی ایم اے۔ متحدہ اپوزیشن۔ یہ ماضی کے قصے ہیں ۔

حُسنِ اتفاق یا بدقسمتی کہہ لیجے انہوں نے اپنے کہے ہر لفظ کی خود تردید کی۔ عاشقان نے دونوں بار ان کی باتوں کا دفاع کیا۔ ساعت بھر کے لئے رکئے سانس لیجئے۔

ان کے مخالفین پچھلے دو تین دن سے ایک بھارتی چینل کو دیئے گئے پرانے انٹرویو کے ایک "نیم پختہ” کلپ کو لئے ادھم مچارہے ہیں اس "کچے پکے” کلپ سے یہ تاثر دیا جارہا ہے جیسے شوکت خانم ہسپتال کا قیام کینسر کی ادویات پر تحقیقی تجربات کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ مناسب یہ ہے کہ پورا سوال یا کم از کم انٹرویو کا متعلقہ حصہ مکمل طور پر اپ لوڈ کیا جائے تاکہ بات پوری سنی اور سمجھی جاسکے۔ ادھورے سوال اور جواب سے صرف منفی پروپیگنڈہ کیا جاسکتا ہے جو غیرضروری ہے۔

بالکل اسی طرح جیسے انکے نانا احمد حسن خان برکی کے عقیدے پر سوال اٹھانا۔

یہ بجا ہے کہ خود عمران خان اور ان کے عاشقان کسی کا لحاظ نہیں کرتے بلکہ مخالف کے لئے جو منہ میں آتا ہے کہتے چلے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری مروجہ سیاست میں اپنے پہلے دن سے ہی یہ تاثر تھا اور اب بھی ہے کہ بڑھکوں، دشنام طرازیوں اور حرف غلط کی طرح مٹادینے کے دعوے ہی مقبولیت کی سند عطا کرتے ہیں۔

اپنے اپنے وقت میں سبھی نے تھوڑا یا کم و زیادہ یہ انداز اپنایا ضرور البتہ عمران خان نے بے مثال ریکارڈ قائم کئے۔ معمولی سے اعتراض پر ان کے عشاق منہ بھر کے گالیاں دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں حب الوطنی دیانت مسلمانی سبھی کچھ عمران خان اور ان کے حامیوں کے لئے مختص ہے باقی سب چور جھوٹے اور بدنام زمانہ لوگ ہیں اس لئے وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران چند مقامات پر ان کے خلاف اوچھے نعرے اور پوسٹر بھی لگائے گئے یہ نعرے اور پوسٹر اصل میں کرنیوں کا پھل ہیں۔

اکتوبر 2011ء سے اب تک ان کے جو منہ میں آیا انہوں نے مخالفوں کے لئے کہا۔ اب ان کے مخالفین نے بھی پولی پولی ڈھولک بجانا شروع کردی ہے

مثال کے طور پر دو دن قبل لندن میں میاں نوازشریف کی قیام گاہ کے باہر (ن) لیگ کے کارکنوں نے جن ’’جذبات‘‘ کا مظاہرہ کیا انہیں لاکھ اخلاقی قدروں کے منافی کہیں لیکن کیا کوئی دوسرا راستہ عمران اور ان کے عشاق نے چھوڑا؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’نہیں ‘‘۔

سیاسی عمل میں آپ جو بوتے ہیں اسی کی فصل کاٹتے ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد نے 1988ء میں اور (ن) لیگ نے 1990ء سے 1997ء کے درمیانی برسوں میں منفی رویوں، زہریلے پروپیگنڈے، دشنام طرازی اور کردار کشی کی جو ’’سیاست‘‘ کی اسے اس وقت جواب اس لئے نہ ملا کہ تب محترمہ بینظیر بھٹو پی پی پی کی سربراہ تھیں۔

اگلے برسوں میں لیگی قیادت نے یہ تاثر دیا کہ مقدمات سمیت ہم نے پیپلزپارٹی کے خلاف جو بھی کہا وہ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کے مطابق تھا، پھر معذرتیں ہوئیں۔ یہ کہہ لیجئے کہ لیگی قیادت نے وقت سے سبق سیکھا۔

اکتوبر 2011ء سے عمران خان جو کہہ کررہے ہیں اسے وہ اپنی سیاسی معراج کے طور پر پیش کرتے آرہے ہیں۔ اب وہ ایک سے زائد بار یہ اعتراف کرتے دیکھائی دیئے کہ کرپشن کہانیاں انہیں تو اسٹیبلشمنٹ نے دیکھائیں سنائیں۔ اپنی کہی بات پر اگر وہ ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی زحمت کریں تو اسٹیبلشمنٹ نے انہیں جمہوری عمل کے خلاف استعمال کیا۔

ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی اس ’’گیم‘‘ میں ملک کی سب سے بڑی عدالت معاون بنی اور ثابت بھی ہوئی۔ اس معاونت کی تصدیق گزرے برسوں میں عمران خان خود بھی کرچکے ہیں لیکن حال ہی میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے پھر اعتراف کیا کہ ’’2017ء میں ہمیں سپریم کورٹ میں بلاکر کہا گیا کہ آپ لوگ سڑکوں پر کیوں ہیں عدالت میں آئیں ہم آپ کو انصاف دیں گے‘‘۔ اسد عمر نے گو نئی بات نہیں کی ان دنوں جب پانامہ کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا جس طرح پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو عدالت بلالیا گیا اور ’’پیشکش‘‘ کی گئی یا بعد میں اس کیس کے مختلف مرحلوں میں جو کچھ ہوا

اس پر ان سطور میں تفصیل کے ساتھ عرض کرتا رہا کہ ان سارے اقدامات کا مقصد انصاف یا احتساب ہرگز نہیں بلکہ اس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کی کھڑی کی گئی جماعت کو اقتدار میں لانے کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے۔

2018ء کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے جو تجربات کئے اب وہ ان سے ’’بھرپائے ‘‘ کا اظہار کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اظہار درست ہو لیکن طالب علم کو اب بھی شک ہے کہ سب اسی طرح نہیں ہے جیسا تاثر دیا جارہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے وقت سے ان سطور میں عرض کرتا آرہا ہوں کہ مسائل و مشکلات، نفرتوں کے بیوپار اور بدترین سماجی تقسیم کے اصل ذمہ داروں کو محفوظ راستہ دینے کا فیصلہ قطعی طورپر نادرست تھا اسے منطقی انجام سے دوچار ہونے دیا جانا چاہیے تھا۔

عمران خان نے دو تین دن قبل ایک سوال کے جواب میں کہا

’’لگانا ہے تو لگائیں مارشل لاء مجھے کیوں ڈراتے ہیں مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا‘‘۔

یہ جواب اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ وہ جمہوری سیاست کی بجائے جتھوں کے دبائو پر مقاصد حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ جمہوریت پسند ہوتے تو کہتے۔ کوئی لگاکر تو دیکھائے مارشل لاء ہم عوام کی طاقت سے نظام کی بساط لپیٹ دینے والوں کے خلاف جدوجہد کریں گے۔

انہوں نے ایسا کیوں نہیں کہا اس کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ وہ جمہوری عمل پر نہیں "انتظامات” کے ذریعے اقتدار میں آنے پر یقین رکھتے ہیں ان کے عشاق اور پروپیگنڈہ کا محاذ سنبھالے ہوئے یوٹیوبرز اور اوریا مقبول جان جیسے سابق بیوروکریٹ لانگ مارچ کے اعلان والے دن سے کہہ رہے ہیں کہ مارشل لاء لگنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

نیز یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کا موثر حصہ عمران کا حامی ہے مگر وہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے کھل کر سامنے نہیں آرہا۔ اس دروغ گوئی کو مرچ مصالحہ لگاتے ہوئے اگلے روز خان نے دعویٰ کیا

’’آپ لوگوں کے لئے خوشخبری ہے جب ہمارا لانگ مارچ اسلام آباد میں داخل ہوگا تو اسلام آباد پولیس حکومت کی بجائے ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی‘‘۔

کم از کم اکتوبر 2011ء سے ہم سن اور خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں دو قانون ہیں طاقتور کے لئے ایک اور غریب کے لئے دوسرا۔ اپریل سے اب تک کے سات ماہ کے دوران خان اور ان کے ساتھیوں کو قانون و انصاف کا طاقتوروں والا حصہ مل رہا ہے۔ پیش ہوئے بغیر عدالتوں سے ضمانت مل جاتی ہے۔ طلبی کے نوٹس پر پیش ہونا وہ توہین سمجھتے ہیں۔ ان کی کہہ مکرنیوں کا حساب ہی نہیں۔

اب تو سپریم کورٹ کو بھی کہنا پڑگیا کہ 25مئی کے عدالتی حکم کا پی ٹی آئی نے غلط استعمال کیا ہے۔ دو وکلاء کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا۔

یہ باتیں تب ہوئیں جب عمران خان نے توہین عدالت کے کیس میں سپریم کورٹ میں ابتدائی بیان جمع کرواتے ہوئے کہا، میں نے کسی کو یقین دہانی کرانے کے لئے نہیں کہا تھا۔ مجھے بیان جمع کرانے کے لئے وقت دیا جائے۔ فیصل چودھری اور بابر اعوان کی عدالت کو کرائی گئی یقین دہانی سے میرا کوئی تعلق نہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے راگوں پر سیاست اور کاندھوں پر اقتدار دونوں کے لطف بھلائے نہیں بھولتے۔ کیمرہ ٹرک اور پروپیگنڈے کو اٹھا رکھیں تو ان کا لانگ مارچ رونق میلہ تو ہے مگر خطرے کی گھنٹی یا انقلاب کی دستک بالکل نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author