رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں دیارِ غیر میں بیٹھ کر یہ سطور لکھ رہا ہوں تو سردار صاحب مرحوم کو لحد میں اتارا جارہا ہوگا۔رب جلیل سے دعاہے کہ اُنہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ سردار صاحب تقریباً نصف صدی تک سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ کچھ عرصہ تک ملک کے نگران وزیرا عظم بھی رہے‘ مگر عام لوگ اُن کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ جس علاقے سے اُن کا تعلق تھا اور جس کی مٹی میں جیئے اور اسی میں سما گئے۔ بلوچ قبائل کے بارے میں بھی تربت سے لے کر بلوچستان کی آخری‘ مشرقی سرحد روجھان تک صدیوں سے بسنے والے بلوچوں کے سماج‘ طرزِ زندگی‘ تاریخ‘ زبان‘ ادب اور ثقافت کے رنگوں سے وہی آشنا ہوسکتے ہیں جنہیں ان کے قریب رہ کر ان کا مشاہدہ کرنے کی فرصت ملی ہو۔ علم اور معاشرے کے طالب علم یہی کرتے ہیں۔ وہ بستیوں‘ وادیوں اور صحرائوں میں ا ن کے ساتھ کئی مہینے‘ بلکہ بعض تو کئی سال گزارتے اور ان کی زبان سیکھتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے ایسے زندہ معاشروں کو دل میں اتار کر اپنے قلم کی زینت بناتے ہیں۔دکھ کی بات یہ ہے کہ بلوچوں کے متعلق تحقیقی مقالے اور کتب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلوچستان میں حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو جس طرح ماضی میں دبایا گیا‘ ان کی منتخب حکومتوں کو بیک جنبش قلم ختم کرکے وفاقی راج قائم کیا گیا ایسے واقعات کو ملک کے مرکزی مکالموں میں جائز اور قومی مفاد کے عین مطابق قرار دیا گیا۔ سب بلوچوں کو ایک ہی رنگ میں دکھایا گیا ہے۔ یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ روجھان کے مزاری قبائل‘ اس علاقے کے تمدن اور معاشرے کے بارے میں ایسی ہی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
درویش کا تعلق اسی علاقہ سے ہے۔ بچپن یہیں گزرا۔ اس دھرتی اور رہتل سے رشتہ ابھی تک برقرار ہے۔ ہم پرانی طرز کے لوگ اپنی بنیاد کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔ ثقافتی اور تاریخی لحاظ سے یہ خطہ اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ دریائے سندھ کے مغرب اور بلوچستان کے مشرقی پہاڑوں اور چٹیل میدانوں کے درمیان زیادہ تر مزاری قبائل آباد ہیں۔ یہاں کی زبان اور ثقافت بلوچی ہے۔ عام لوگ اور قبائل سرائیکی بولتے ہیں۔ جنوب کی طرف سندھ کی حدود شروع ہوجاتی ہیں لیکن زبان اور ثقافت کا رنگ کہیں دور جا کر تبدیل ہوتا ہے۔ پنجاب اور دیگر علاقوں سے لوگوں کا وہاں سے گزر ہوا‘ یا کسی وجہ سے وہاں رہے تو ان سے عجیب و غریب باتیں سننے میں آئیں کہ یہ علاقہ آباد نہیں۔ انہیں کون سمجھائے کہ ایسے تصورات ذہن کی اختراع ہوتے ہیں۔ چلیں‘ مان لیا کہ ہم ویرانوں کے لوگ ہیں لیکن ہماری ویرانیوں اور کسی اور کی شادابیوں میں سیاست اور وسائل کی تقسیم کا بڑا عمل دخل ہے۔ ہماری بستیوں اور کھیتوں کو سیلاب تباہ کرتے ہیں۔ جب پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو ہماری نہریں خشک رہتی ہیں۔ زمین ہوتی ہے تو پانی نہیں ہوتا۔ جب پانی سیلاب کی صورت آتا ہے تو زمین نہیں رہتی۔ ہم معاشروں اور ان کی ثقافت کو کسی اور معیار کے مطابق نہیں دیکھتے اور نہ ہی دیکھنا چاہیے‘ بلکہ ایسے فطری رنگ کی بہارمیں اس کا نظارہ کرتے ہیں۔ روجھان کا اردو میں مطلب روحِ جہان سمجھا جاتا ہے۔ہمارے قبائل اور ہم سب کے لیے ہماری روح اور ہمارا جہاں یہی ہے۔
میر بلخ شیرمزاری مرحوم اس خطے کے فرزند تھے۔ عام لوگ اور ہمارے گھر اُنہیں میر سخی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس لیے کہ سخاوت اور فیاضی میں ان کا گھرانا دوردور تک مشہور تھا۔ راجن پور اورڈیرہ غازی خان میں مزاری منزل ہوا کرتی تھی۔ دونوں جگہوں پر دور دراز سے آنے والے طالب علموں اور مسافروں کے قیام اور طعام کے لیے مناسب بندوبست ہوتا تھا۔ میں نے جب آٹھویں جماعت کا امتحان لاہور بورڈ میں 1964 ء میں دیا تو مزاری منزل راجن پورمیں ہی دو تین ہفتے قیام کیا۔ ڈیرہ غازی خان کالج میں اپنی رہائش ہاسٹل میں چار سال تک رہی۔ کالج کے کئی ایک طالب علموں کو مزاری منزل میں بھی قیام کرتے دیکھا۔ وہ وظائف بھی دیتے تھے اور تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ روجھان چھوٹاسا قصبہ ہے۔ اس کے باوجود یہاں تین کالج ہیں‘ ایک خواتین کا‘ دو لڑکوں کے۔ خلیج کی ریاستوں کے امرا شکار کی غرض سے ہمارے علاقے میں آتے رہتے ہیں۔ ان کی بھی میر صاحب سے ملاقات ہوتی تھی۔ جب خلیجی مہمانوں نے علاقے میں فلاحی منصوبوں کی خواہش کا اظہار کیا تو میر صاحب نے ایک کالج کے قیام کی فرمائش کی جو اُنہوں نے فوراً پوری کردی۔ ان کی خواہش پر صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے اور دریائے سندھ پر پل بنایا گیا۔
میر صاحب ہر سطح پر نہایت عزت اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ سیاسی مخالفین بھی ان کی عزت کرتے۔ سادگی اور شرافت کا پیکر تھے۔ وہ ایسے روایتی قبائلی سردار نہیں تھے جن کے بارے میں آپ اخباروں میں پڑھتے ہیں‘ یا زبانی روایات سن رکھی ہیں۔مجھے ان کے قریب بیٹھنے کی سعادت حاصل رہی۔ سال میں ایک دو مرتبہ ضرورحاضری دیتا۔ جب سردار صاحب جسمانی طور پر کمزور ہونا شروع ہوگئے تو یہ خیال کرکے توقف کرنے لگا کہ اُنہیں زحمت ہوگی۔ پہلے مجھ سے پوچھتے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ ان کے سامنے بھلا میں کیا کہہ سکتا تھا۔ میں تو ان کی بات سننے کے لیے حاضرہوتا تھا۔ وہ ہمارے سیاسی اکابرین سے کبھی خوش دکھائی نہ دیے۔ جھوٹ‘ بدعنوانی اور فریب کاریوں سے مایوس تھے۔ ان کا تکیہ کلام تھا ”دیکھیں‘ یہ کیا کر رہے ہیں‘‘۔ میرے ساتھ بات ہمیشہ سرائیکی میں کرتے۔ ہمارے علاقے کے سب بلوچ ایسا ہی کرتے ہیں۔ اگر کوئی بلوچ مجلس میں آجائے تو اس کے ساتھ بلوچی زبان میں بات کرتے۔ اپنے علاقے‘ ضلع اور سرائیکی خطے کے بارے میں اُنہیں ہمیشہ فکر مند دیکھا۔ جہاں بھی اُنہیں موقع ملتا‘ وہ اپنے علاقے اور عوام کا مقدمہ ضرور لڑتے۔
ملاقاتوں کے دوران ایک مرتبہ ایچی سن کالج میں تعلیم کے بارے میں کچھ باتیں بتائیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ جب وہ وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے تو انگریز حکومت نے اُنہیں دہلی بلالیا۔ وہاں اُنہیں سول سروس میں جونیئر مجسٹریٹ کی ملازمت کا پروانہ دے دیا گیا۔ سابق صدر غلام اسحاق خان کو بھی اُسی سال تعینات کیا گیا تھا۔ شاید کچھ دیر ٹریننگ میں بھی رہے مگر مزاری قبائل کا اصرار تھا کہ اگر سردار صاحب یہاں سے چلے گئے تو ان کا کیا بنے گا؟ میر صاحب نے بتایا کہ کئی معتبر لوگ آئے اور کہا کہ اگر آپ نوکری کے سلسلے میں چلے گئے تو ”ہم یتیم ہوجائیں گے‘‘۔ ہنس کر بولے کہ پھر انہیں ”یتیمی‘‘ سے بچانے کے لیے سول سروس چھوڑ دی۔
میر صاحب کا اپنا مقام تھا۔ جو عزت اور احترام اُنہیں اپنے علاقے اور پورے ملک میں حاصل تھا‘ وہ اس عہدے کے چیدہ چیدہ سیاست دانوں کو ہی نصیب ہوا ہے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب موجودہ دو اضلاع‘ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور ایک ضلع تھے تو صرف ایک حلقہ ہوا کرتا تھا۔ اس حلقے میں ہمیشہ میر صاحب ہی جیتتے تھے۔ ان کی رفاقتوں‘ دوستیوں اور قومی سطح پر روابط کا سلسلہ بہت وسیع تھا۔اُنہوں نے بہت قریب سے پاکستان کو بنتے اور بگڑتے دیکھا تھا۔ جو سیاست ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں‘ وہ کبھی اس کا حصہ نہ بنے‘ بلکہ خاموشی سے الگ ہوکر اپنی دنیا میں گم ہوگئے۔ اب وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ ہمارے دلوں اور دعائوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی شرافت اور نیک نامی کی چمک بھی باقی رہے گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ