نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چارکوڈیاں (Sea shells)۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چارکوڈیاں (Sea shells)
جب ہم چھوٹے تھے تو مُلک ابھی اتنا ترقی یافتہ نہیں ہوا تھا اور لوگوں کی آمدنی بہت کم تھی۔ اُس وقت ہم بچوں کے پاس بھت قیمتی کھلونے نہیں ہوتے تھے اس لئے ہمارے کھیلنے کے انداز ایسے تھے جن پر خرچ تو کچھ نہیں آتا تھا مگر تفریح بہت زیادہ تھی۔ لڑکیوں کو مائیں پرانے کپڑوں سے گُڑیا بنا دیتی تھی اور وہ اس سے کھیلتی اور دلچسپ بات یہ ھے کہ گڈے گڈی کی شادی بھی ہوتی اور ان کا جہیز بھی تیار کیا جاتا۔ کچھ پلاسٹک سے بنا جہیز کا ایک پیک بہت سستا مل جاتا جس میں پلنگ۔کرسیاں ۔صوفے۔چولھا۔میز۔چمچے۔پلیٹیں سب شامل ہوتیں ۔مطلب جب گڈے گڈی کی شادی ہوتی تو مکمل جہیز کے ساتھ ہوتی۔اسی طرح لُک چھپ hide and seek کا کھیل تو اب بھی بچوں میں ہو رہا ھے۔
ہم لڑکے زیادہ تر گُلی ڈنڈہ ۔گولیاں ۔ کوڈیاں ۔ ڈپو گرم وغیرہ میں مصروف رھتے البتہ سکول میں ہاکی۔فٹ بال۔بیڈ منٹن کے کھیل جاری تھے۔ مگر ان پر خرچہ بہت آتا تھا اور گراوںڈ کی ضرورت تھی اس لئے گھروں میں بس سستے کھیلوں پر گزارہ کرنا پڑتا۔ ہمارے بچپن میں کوڈیاں sea shells بہت سستی بازار سے مل جاتی اور اس کے لئے طرح طرح کے کھیل بھی ایجاد کر رکھے تھے اور ایک دوسرے سے کھیل کر جیت بھی لیتے تھے۔ بعض کوڈیاں چھوٹی کچھ درمیانہ اور کچھ بہت بڑی ہوتی تھیں۔ یہ بہت خوبصورت ہوتیں اور ہم بچوں کو ان سے بہت محبت تھی اور گھر میں خزانے کی طرح سنبھال کے رکھتے۔ایک دفعہ اس سلسلے کی ایک کہانی پڑھی تو دل بھت خوش ہوا کہ دنیا میں انسانیت ابھی باقی ھے ۔ کہانی یہاں سے شروع ہوتی ھے کہ ایک چھ سال کا لڑکا اپنی چار سال کی بہن کے ساتھ بازار گیا تو چلتے چلتے اچانک اس کی بہن گُم ہو گئی۔اب وہ واپس پلٹا تو دیکھا کہ اس کی بہن ایک کھلونے کی دکان کے سامنے کھڑی کسی چیز کو غور سے دیکھ رہی ھے۔لڑکا بہن سے پوچھتا ھے کہ تمھیں کچھ چاھئے؟ تو وہ ایک گڑیا کی طرف اشارہ کر کے کہتی ھے مجھے یہ doll بہت پیاری لگی ھے میں یہ لینا چاہتی ہوں ۔اب یہ چھ سالہ بھائ بڑی محبت سے وہ قیمتی گڑیا اٹھاتا ھے اور بہن کے ہاتھ تھما دیتا ھے۔بہن گڑیا لے کر بھت خوش ہوتی ھے اور اسے سینے سے چمٹا لیتی ھے۔ دکاندار یہ تمام چیزیں بڑی گہری نظر اور دلچسپی سے دیکھ رہا ہوتا ھے۔ اس کے بعد وہ چھ سالہ لڑکا دکاندار کے کاونٹر پر آتا ھے اور پوچھتا ھے اس گڑیا کی کتنی قیمت ھے۔دکاندار بچے کو کہتا ھے جتنی قیمت تم دے سکتے ہو دے دو۔ اب لڑکا اپنی جیب سے تمام کوڈیاں جو اس نے جمع کر رکھی ہوتی ہیں نکال کر دکاندار کے کاونٹر پر رکھ دیتا ھے۔ دکاندار اُن کوڈیوں کو اس طرح گِننا شروع کرتا ھے جیسے نوٹ گنے جا رھے ہوں۔اب وہ لڑکے کی طرف دیکھتا ھے تو لڑکا خوفزدہ ہو کر پوچھتا ھے کیا یہ کم ھیں ؟ دکاندار جواب دیتا ھے نہیں بیٹے یہ تو گڑیا کی قیمت سے بھت زیادہ ہیں اور وہ چار کوڈیاں رکھ کر باقی واپس کر دیتا ھے۔ لڑکا خوش ھو کر کوڈیاں جیب میں ڈال کر بہن کے ساتھ چلا جاتا ھے۔اب اس دکان کا ایک نوکر جو یہ سب دیکھ رہا تھا دکاندار سے کہتا ھے سر آپ نے اتنی قیمتی گڑیا چار کوڈیوں کے بدلے دے دی یہ کیا ماجرہ ھے۔ دکاندار نوکر سے کہتا ھے کہ یہ چھ سالہ بچہ ابھی نہیں جانتا کہ پیسہ کیا چیز ھے مگر جب یہ بڑا ھو گا تو اسے ضرور یاد آے گا کہ اس نے مجھے پیسے دینے کی بجاۓ چار کوڈیاں دے کر گڑیا لی تھی تو اسے احساس ہوگا کہ دنیا میں اچھے اور نیک لوگ بھی بھت ہیں۔ پھر وہ لڑکا خود بھی ایک اچھا نیک انسان بننے کی کوشش کرے گا۔ کیونکہ جب آپ کوئ اچھا کام کرتے ہیں تو اچھائ پھیلتی ھے۔
اسی طرح ایک پھل بیچنے والے دکاندار کے پاس ایک شخص کھڑا آم کے ریٹ پوچھ رہا تھا۔ دکاندار نے بتایا آم سو روپے کلو ہیں ۔ اسی اثنا ایک برقعہ پوش عورت آئ اور دکاندار سے آم کی قیمت پوچھی ۔دکاندار نے عورت کو چالیس روپے کلو ریٹ بتایا اور وہ ایک کلو آم لے کر چلی گئی۔اب جو پہلا شخص تھا وہ دکاندار پر برس پڑا کہ مجھے سو روپے کلو اور اس خاتون کو چالیس روپے دئیے تو دکاندار نے گاہک سے کہا بھائ ناراض نہ ہو آم کا ریٹ سو روپے کلو ھےمگر یہ غریب بیوہ عورت ھے اس کے چھوٹے بچے ہیں اور بہت قلیل آمدن سے بچوں کا پیٹ پالتی ھے مگر یہ کسی کی امداد بھی قبول نہیں کرتی تو میں نے اس لئے بہت کم ریٹ پر آم دیئے تاکہ یتیم بچے بھی آم کھا سکیں ۔ یہ سن کر وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور کہنے لگا میں بھی ایسی کوئ نیکی ضرور کروںگا۔گزارش یہ کرنی تھی کہ آپ بھلائ اور نیکی کے کام کو پھیلائیں اور انشاء اللہ یہ سب بھلائ لوٹ کے واپس آپکے پاس آۓ گی۔

About The Author