حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نااہل قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں ان کی نشست کو خالی قرار دے دیا ہے ۔ کمیشن کے فیصلے کے مطابق عمران خان کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے ہیں۔
قومی اسمبلی کے سپیکر کے توسط سے ا لیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے ریفرنس کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ جانبدار الیکشن کمیشن کا جانبدارانہ فیصلہ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔
آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نااہلی کی مدت کتنی ہے اس کی وضاحت تفصیلی فیصلے کے اجرا سے ہوگی۔ عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور وزیراعظم توشہ خانہ سے خود کو ملنے والے تحائف حاصل کرکے انہیں فروخت کرنے کے بعد قوانین کے مطابق تحائف کی 20فیصد رقم جمع کرواکے قانون میں تبدیلی کروادی جس کے تحت آئندہ تحائف 50فیصد رقم پر خریدے جاسکتے ہیں۔
توشہ خانہ سے تحائف خریدنے کی روایات موجود ہیں متعدد سابق صدور، وزرائے اعظم اور دیگر شخصیات قانون کے مطابق ادائیگی کر کے تحائف خریدتی رہیں ۔ خریدے گئے تحائف کی مارکیٹ میں فروخت اور اس فروخت کے حوالے سے عمران خان اور ان کے وکلاء کا موقف یہی ہے کہ خریدار ایک چیز کی قیمت ادا کرکے جب مالک بن جاتا ہے تو وہ اس امر میں بااختیار ہے کہ خریدی ہوئی چیز خود رکھے یا آگے فروخت کردے۔
اس موقف کے حق میں وہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے کچھ ایسے ہی معاملات پر سوالات اٹھاتے دیکھائی دیتے ہیں۔ توشہ خانہ ریفرنس کے مدعی (ن) لیگ کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا اور ان کے وکلاء کا موقف یہ ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے متعدد تحائف حاصل کئے انہیں مارکیٹ میں فروخت کرکے 20فیصد کے حساب سے رقم سرکاری خزانہ میں جمع کرائی اور پھر قانون میں تبدیلی کردی۔
دعویٰ یہ کیا گیا کہ تحائف کی مارکیٹ میں مجموعی قیمت 13کروڑ سے زائد تھی۔ عمران خان نے 5کروڑ لگائی اور 20فیصد رقم ادا کردی۔اس سوال کا جواب دونوں کے وکلاء نے نہیں دیا کہ کسی تحفے کی مارکیٹ قیمت کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ کیا چند کاروباری شخصیات سے اس ضمن میں رائے لی جاتی ہے یا توشہ خانہ کے ذمہ داران بااختیار ہیں کہ وہ مارکیٹ نرخ طے کرکے مقررہ رقم پر چیز خریدار شخصیت کو فروخت کردیں؟
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد شروع ہونے والی قانونی کارروائی کے اگلے مرحلہ میں نہ صرف اس سوال کا تسلی بخش جواب سامنے آئے گا بلکہ ان متضاد دعوئوں کی حقیقت بھی کہ کیا تحائف فروخت کرکے رقم جمع کرائی گئی یا تحائف توشہ خانہ سے وصول کرتے وقت ۔
اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا 63ون پی کے تحت نااہلی بنتی ہے نیز یہ کہ اس کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مدت کیا ہوگی۔ توشہ خانہ سے خریداریوں کے حوالے سے تحریک انصاف نے اپنے دور میں سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور دو سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور میاں نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنس بنوائے تھے۔ اس وقت یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر یہ خریداری جرم ہے تو سابق فوجی آمر جنرل پرویزمشرف نے بطور صدر جو تحائف توشہ خانہ سے خریدے ان پر ریفرنس کیوں نہیں بنایا گیا؟
توشہ خانہ ریفرنس میں آرٹیکل 63 ون پی کے تحت عمران خان کی نااہلی اور قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ تحریک انصاف کے قائدین کے خیال میں مائنس ون فارمولے کا حصہ ہے۔ اور یہ قانون کی حاکمیت کی بجائے جانبدارانہ ہے سابق وزیراعظم کے ایک مشیر شہباز گل نے اس فیصلے کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ’’توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ میاں نوازشریف کا لکھا ہوا ہے‘‘۔
ظاہر ہے یہ دعویٰ صداقت پر مبنی اس لئے نہیں کہ اگر اسے مان لیا جائے تو قبل ازیں (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کے خلاف ہوئے بعض اقدامات کے حوالے سے ان دونوں جماعتوں کا موقف بھی درست قرارپائے گا۔ یہ امر بجا طور پر درست ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف کسی منصب پر فائز شخص کو نہیں بلکہ ریاست کو ملتے ہیں۔ شخصیت چونکہ اس وقت ریاست کی نمائندگی کررہی ہوتی ہے اس لئے وصول وہ کرتی ہے۔
دنیا بھر کی ریاستیں اپنے ہاں دورے پر آنے والی حکومتی اور دیگر شخصیات کو تحفے دیتی ہیں البتہ ان تحائف کی فروخت کا رواج اِکادُکا ممالک میں ہے زیادہ تر ممالک تحائف کو محفوظ رکھتے ہیں۔
اصولی طور پر توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت ہی درست نہیں یہ سلسلہ کسی تاخیر کے بغیر ختم ہونا چاہیے۔ تحائف خریدنے والے انہیں پاس رکھیں یا فروخت کریں یہ ان کا قانونی حق ہے۔ یہ بات ایک طرح تو درست ہے لیکن اخلاقی طور پر درست نہیں کیونکہ ریاست کو ملے تحائف خرید کر بازار میں فروخت کرنے سے جگ ہنسائی بہرطور ہوتی ہے۔
دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف ایک مقررہ مدت کے بعد عام نیلامی میں فروخت کئے جائیں اور خریدار اسے آگے فروخت کرسکتے ہیں یا نہیں اس کی قانونی وضاحت ضروری ہے۔
عام نیلامی کی صورت میں تحائف کے نرخ کون طے کرے گا اور کس اصول پر یہ بھی واضح ہونا چاہیے۔ عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی اور نشست سے محرومی پر قانون دانوں کا ایک طبقہ اسے اختیارات سے تجاوز قرار دے رہا ہے ان کے خیال میں مختلف اعلیٰ عدالتوں کے الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہلی کے حوالے سے ماضی میں سامنے آنے والے فیصلوں پر آراء موجود ہیں کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے۔
فیصلہ کے حق میں آراء دینے والے قانون دان کہتے ہیں الیکشن کمیشن میں چیئرمین اور رکن کے طور پر تقرری کی اہلیت بذات خود اس امر کا ثبوت ہے کہ بعض امور میں الیکشن کمیشن کے پاس عدالتی اختیارات ہیں وہ اس حوالے سے بھارتی اور بنگلہ دیشی الیکشن کمیشنوں کے اختیارات کا حوالہ دے رہے ہیں۔
ہر دو آراء رکھنے والے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف عدالتی اپیل کی سماعت کے عمل میں یقیناً عدالتوں کے سامنے اپنے موقف کے حق میں نظیرات رکھیں گے۔
جہاں تک اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ ایک سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی توشہ خانہ سے حاصل کئے گئے بعض تحائف بعدازاں فروخت کئے تھے عین ممکن ہے کہ یہ دعویٰ درست ہو لیکن نوازشریف اب قومی اسمبلی کے رکن نہیں اس لئے ان کے خلاف ریفرنس نہیں بن سکتا البتہ اپیل کے مرحلہ میں یقیناً یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔
عمران خان کی جماعت نے 2018ء کے انتخابات میں ایک کروڑ پچاس لاکھ کے قریب ووٹ لئے تھے انہیں نااہل کرنا انہیں ووٹ دینے والوں پر عدم اعتماد ہے کی منظق کو درست مان لیا جائے تو (ن) لیگ نے 2013ء اور پھر 2018ء کے انتخابات میں بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ووٹ حاصل کئے 2017ء میں جب انہیں نااہل قرار دیا گیا تو تب یہ کیوں نہیں سوچا سمجھا گیا کہ نااہلی کا یہ فیصلہ ان کے ووٹروں پر عدم اعتماد ہے؟
الیکشن کمیشن کے آرٹیکل 63 ون پی کے تحت فیصلہ پر سابق وزیر قانون و اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ انقلاب کی نوید ثابت ہوگا۔ اصل فیصلہ عوام کریں گے۔ اندریں حالات تحریک انصاف سے یہ درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف قانونی جنگ زیادہ مناسب رہے گی سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کی بجائے۔
یقیناً ان کے کارکنوں کو احتجاج کا حق ہے مگر احتجاج قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جائے تو مناسب ہوگا۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کے فیصلے کو اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ قرار دینے والے ماضی اس امر کے اعتراف سے گریز کرتے رہے کہ میاں نوازشریف کے خلاف نااہلی کا فیصلہ بھی ایسا ہی تھا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کو اولیت دے گی یہی بہترین راستہ ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر