نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ارشد شریف کا قتل اور درشنی و فیشنی انقلابی ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک طویل عرصہ تک اسٹیبلشمنٹ کی تلوار کا کردار ادا کرنے اور پھر عمران خان کے رجیم چینج والے بیانیہ کی حمایت میں پیش پیش معروف اینکر ارشد شریف کینیا کے شہر نیروبی میں قتل ہوگئے۔
کینیا کے پولیس حکام اس واقعہ کو شناخت کی غلطی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
پہلے کہا گیا کہ سمگلروں کی تلاش کے لئے ناکہ بندی تھی ایک گاڑی ناکے پر نہیں رکی جس پر فائرنگ کی گئی۔
کچھ دیر بعد کہا گیا ناکہ بندی کا مقصد ایک ایسی کار کی تلاش تھی جس میں وہ اغوا کار سوار تھا جو ایک بچے کے اغوا میں مطلوب تھا۔ ناکہ پر نہ رکنے والی گاڑی معلومات (مخبری) کے مطابق اسی کار کی رنگت کی تھی جو اغوا کار کی تھی۔ گاڑی نہ رکی تو فائرنگ کی گئی۔
تیسرا اور حتمی موقف یہ ہے کہ چوری کی ایک گاڑی کی تلاش کے لئے ناکہ لگایا گیا تھا۔ گاڑی کی رنگت سے ملتی جلتی گاڑی ناکے پر نہ رکی تو فائرنگ کی گئی۔
تیسرا موقف باضابطہ تحریری طور پر نیروبی پولیس نے جاری کیا۔ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ23اور 24 اکتوبر کی درمیانی شب 10سے سوا 10بجے کے درمیان پیش آیا تھا۔ گاڑی میں 2افراد سوار تھے۔ ارشد شریف ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے تھے۔
تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ گولی ان کے سر کے بائیں طرف کان سے کچھ اوپر لگی۔ پولیس نے اگر ناکہ توڑنے پر گاڑی کے عقب اور سامنے سے گاڑی روکنے کےلئے دو سمتوں سے فائرنگ کی تھی تو قانونی طور پر فائرنگ گاڑی کے ٹائروں پر کی جانی چاہیے تھی۔
اندھا دھند دو سمتوں سے فائرنگ کا جواز اس لئے بھی نہیں بنتا کہ گاڑی سے پولیس پر جوابی فائرنگ نہیں ہوئی۔ فائرنگ گاڑی کے عقب اور سامنے کی جانب سے کی گئی تو موت کا باعث بننے والی گولی پہلو بدل کر بائیں سمت سے کیسے سر میں جالگی؟
کچھ دیر قبل بیرون ملک مقیم چند پاکستانی شہریوں اور ایک دو اخبار نویسوں کے اس واقعہ پر وی لاگ سنے۔ سنجیدہ سوالات کی جگہ جذباتیت کی بھرمار اور الزام تراشی کے سوا ان میں کچھ بھی نہیں تھا۔
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامی اور اسٹیبلشمنٹ کے سابق دیوانوں کے لشکر قتل کا ذمہ دار ریاست کو ٹھہرارہے ہیں۔ ان سب کا خیال ہے کہ کینیا میں کرائے کے قاتل آسانی سے مل جاتے ہیں۔
دو دعوے ہیں اس قتل کے حوالے سے، سوشل میڈیا پر دوڑتے بھاگتے۔ پہلا یہ کہ ارشد شریف کے پاس اسٹیبلشمنٹ کی چند یا دو شخصیات کی کچھ ویڈیوز اور بیرون ملک اثاثوں کے ثبوت تھے وہ اگلے چند دنوں میں یہ ثبوت سامنے لانے کا ارادہ رکھتے تھے۔
ویڈیوز اور بیرون ملک اثاثوں کے ثبوت سامنے لانے سے روکنے کے لئے انہیں راستے سے ہٹادیا گیا۔ اس پہلے موقف کے حق میں یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں نے دبئی کے حکام سے سرکاری اور ذاتی روابط کو استعمال کرتے ہوئے دبائو ڈال رکھا تھا کہ ارشد شریف کو پاکستان کے لئے ڈیپورٹ کردیا جائے۔
دبئی حکام نے ہی اس کی اطلاع انہیں (ارشد شریف) کو دی اور کہا کہ وہ دبئی چھوڑ دیں تاکہ انہیں پاکستانی حکام کے کہنے پر ڈی پورٹ نہ کرنا پڑے۔ ارشد شریف دبئی حکام سے معاملہ کی آگاہی کے بعد وہاں سے چلے گئے۔
دوسرا یہ کہ ارشد شریف نے حال ہی میں شریف خاندان کی کرپشن کے حوالے سے اپنی ویڈیو فلم کا مختصر ٹریلر جاری کیا تھا وہ دبئی، لندن اور کینیا میں شریف فیملی کی کرپشن پر ڈاکومنٹری بنانے کے لئے ہی رابطوں اور ذاتی طور پر گئے۔
مطلب یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی ان دو سازشی تھیوریوں کے مطابق ارشد شریف کا قتل اسٹیبلشمنٹ نے کروایا ہے یا شریف فیملی نے۔
ان سطور کے لکھے جانے سے قبل اسلام آباد کے دو معروف صحافی دوستوں کے توسط سے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے ذرائع کو سوال بھجوایا کہ کیا پاکستانی حکومت نے کسی سطح پر دبئی کے حکام کو ارشد شریف کو ڈی پورٹ کرنے کے لئے کہا تھا نیز یہ کہ اگر ایسی بات ہوئی ہے تو کیا یہ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ میں سے کس نے کی؟
دونوں وزارتوں کے ذرائع نے ایسی کسی درخواست اور دباو کی تردید کردی۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔
اب رہ گئی اسٹیبلشمنٹ (سادہ لفظوں میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ) تو بہت ضروری ہے کہ تاخیر کے بغیر آئی ایس پی آر اس پر اپنا موقف دے۔
دوسرا الزام کسی ڈاکومنٹری کے حوالے سے شریف خاندان کی طرف بڑھایا جارہا ہے۔ کہا یہ جارہاہے کہ ارشد شریف کینیا گئے ہی کچھ ثبوت حاصل کرنے کے لئے تھے وہ وہاں کے بعض صحافیوں کے ساتھ مل کر اس ڈاکو منٹری پر کام کررہے تھے۔
جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں اس وقت تک کینیا کے کسی صحافی نے یہ اعتراف نہیں کیا کہ وہ شریف خاندان کے خلاف کسی کرپشن سٹوری یا ڈاکو مینٹری پر ارشد شریف کے ساتھ مل کر کام کررہا تھا۔
جس گاڑی پر پولیس ناکہ توڑنے کے ’’الزام‘‘ میں فائرنگ کی گئی اس کا ڈرائیور بھی یہ کہتا ہے (یہ بیان پولیس کو دیا ہے زخمی نے ہسپتال میں) کہ ارشد ایک ڈویلپر تھے۔ ہم کہیں جارہے تھے، یعنی اسے بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ارشد شریف صحافی ہے۔ معلوم تھا تو ابتدائی بیان میں مرنے والے کو ڈویلپر کیوں کہا۔
کینیا کے صحافیوں نے پولیس کے تینوں موقف مسترد کردیئے۔ آخری باضابطہ سرکاری موقف پر ان کا سوال ہے کہ وہ بچہ کون ہے جو اغوا ہوا۔ رپورٹ کہاں درج ہوئی۔ اغوا کار کون ہے۔ ناکہ توڑنے والی گاڑی پر اگر عقب سے فائرنگ پولیس نے کی ہے تو سامنے سے کس نے کی۔ فائرنگ گاڑی میں بیٹھے ہوئے افراد پر کرنے کی بجائے ٹائروں پر کیوں نہیں کی گئی؟
نیروبی پولیس حکام کہتے ہیں کہ ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے۔ پولیس کے مطابق گاڑی پر عقب اور سامنے سے فائرنگ کی گئی۔ ارشد کو گولی بائیں طرف سے سر میں لگی۔ پولیس موقع پر کسی سنائپر شوٹر کی موجودگی سے انکار کرتی ہے۔
پھر گولی پہلو بدل کر موت کی وجہ بنی یا ارشد نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ یہ پیچھے مڑ کر دیکھنے والی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ ماسوائے اس کے کہ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ہوا اور گاڑی کی سامنے والی سمت پر اس کے سر کا بایاں حصہ آگیا ہو اور سامنے سے آنے والی گولی اسے لگ گئی۔
ایک پاکستانی صحافی جسے عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل والے مقدمے میں ایف آئی آر کا ملزم بنایا گیا تھا اسے اسلام آباد کی بجائے پشاور ایئرپورٹ سے پورے پروٹوکول کے ساتھ دبئی جانے والی فلائٹ میں سوار کروایا گیا اور وہ دبئی منتقل ہوگئے۔
یہ دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے دبئی کا ویزا کب لیا کتنے دن قبل۔ ظاہر ہے اندراج مقدمہ یا شہباز گل کی گرفتاری کے فوراً بعد تو نہیں مل گیا ہوگا اس دن ویسے بھی سرکاری تعطیل تھی۔
کہا یہ جارہا ہے کہ شہباز گل نے اے آر وائی چینل پر ٹیلیفون سے جو گفتگو کی وہ ایک تحریر کی صورت میں ان کے سامنے تھی۔ دوران تفتیش شہباز گل نے بتایا کہ تحریر ارشد شریف نے لکھ کر دی تھی۔
کالم کی ابتدائی سطور میں عرض کیا تھا کہ ارشد شریف طویل عرصو تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ’’چہرہ‘‘ سمجھے جاتے رہے۔
یہ تاثر ہوائی ہرگز نہیں انہوں نے اگر بطور اینکر 500 پروگرام کئے ہیں تو 480 سیاستدانوں کی ان کرپشن کہانیوں پر مبنی تھے جو اسلام آباد کے تقریباً تمام "عظیم الشان” تحقیقاتی صحافیوں کو عطا کی جاتی ہیں۔
ان کے پروگراموں میں ریاست، حکومت، انصاف کے عمل سے ناراض اور عدم مساوات پر شاکی افراد، طبقوں اور قومیتوں بارے جو کچھ کہا جاتا رہا وہ ریکارڈ پر ہے۔
پشاور ایئرپورٹ سے محفوظ طریقے سے بیرون ملک بھجوانے کا انتظام کس کا تھا اور کس کے کہنے پر وزیراعلیٰ کے ذاتی سٹاف کے 2افراد بورڈنگ تک ان کے ساتھ تھے۔
کیا جو لوگ انہیں محفوظ انداز میں دبئی بھجواسکتے ہیں وہ کینیا میں کسی خطرے سے پیشگی آگاہ نہیں تھے۔ بطور اینکر انہوں نے پچھلے برسوں کے دوران اپنے ہی شعبہ کے ان لوگوں بارے کیا کہا جو اپنے اپنے وقت میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے غصے کا شکار ہوئے؟
اس وقت وہ (معتوب ) محب وطن اور ریاست کے زیرعتاب آئے افراد غدار تھے۔
حب الوطنی اور غداری کی یہ بحث اور ان کے ماضی پر سوالات اس وقت درست نہیں کیونکہ وہ قتل ہوگئے ہیں یہ بحث پھر کبھی سہی ۔
انسانی جان قیمتی ہے مرنے والے کا آخری سانس تک کا رویہ اور فہم نہیں۔ لاریب تحقیقات ہونی چاہئیں البتہ تحقیقات کے نتائج سے قبل الزامات کی توپوں میں بارود ڈالنے سے گریز ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author