گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادوں کے جھروکے ۔
صحافت کی زندگی بلڈ پریشر ۔شوگر ۔ڈیپریشن کی زندگی ہے کیونکہ آپ کا دن رات ناانصافی ۔مار دھاڑ ۔ظلم کی خبروں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ میں نے بھی صحافت کی زندگی اختیار کر کے یہ تین تحفے حاصل کئے۔لیکن کبھی کبھی کچھ اچھے واقعات بھی سامنے آتے رہے جو یاد آتے ہیں تو مونجھاں لیھ ویندن۔
مدت سے یہ تجربہ ہے ہمارے وزراء کو جب کوئی درخواست دیتا تو وہ پین کی مختلف سیاہی اور کوڈ استعمال کر کے ہر ایک درخواست پر آرڈر کر دیتے مگر وہ کام نہیں ہوتا ۔اس لیے کہ افسروں کو پتہ تھا کس کا کام کرنا ہے۔
سندھ کے ماضی کے ایک چیف منسٹر تھے جام صادق علی۔ ایک دن اندرون سندھ پروٹوکول کے ساتھ گاڑی میں جا رہے تھے کہ سڑک پر کھڑے ایک غریب سندھی نے ہاتھ کھڑا کیا تو قافلہ روک دیا۔ گاڑی میں بیٹھے رہے پوچھا کیا مسئلہ ہے۔ کہنے لگا بیٹا میٹرک پاس ہے کوئ نوکری نہیں ۔ جام صادق نے پوچھا درخواست ہے اس نے کہا میں ان پڑھ میرے پاس درخواست کہاں؟ ڈرائیور سے پوچھا کوئی کاغذ ہے وہ بھی نہیں تھا۔ سگریٹ پی رہے تھے ۔سگریٹ کی ڈبی سے تمام سگریٹ نکال کے الگ رکھے اور اس پر آرڈر کر دیے۔ سندھی ہاری وہ گتے کا ٹکڑا لے کر گیا اور بیٹے کے آرڈر ہوگیے۔
جھوکاں تھیسن آباد ول ۔
اے وی پڑھو
اُچ ڈھاندی ڈیکھ تے چھوراں وی وٹے مارے ہن۔۔۔|شہزاد عرفان
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو