ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب اسمبلی نے گزشتہ روز کے اجلاس میں گورنر پنجاب کی جانب سے بھجوائے گئے پنجاب لوکل گورنمنٹ سمیت چار ترمیمی قوانین کو دوبارہ پیش کرنے کی منظوری لی گئی۔ بلدیاتی الیکشن نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک کا اہم مسئلہ ہے۔ عمران خان نے خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی الیکشن کروا دیئے ہیں۔ اب پنجاب میں بھی اُن کی حکومت ہے۔ صوبے میں بلا تاخیر انتخابات کرا دینے چاہئیں کہ یہ بنیادی جمہوریت کا سوال ہے۔ جمہوریت کی چیمپئن تمام جماعتیں بنتی ہیں مگر بنیادی جمہوریت کو پائوں تلے روند دیا جاتا ہے۔ بلدیاتی الیکشن سالہا سال سے التواء کا شکار چلے آرہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی پنجاب میں عمران خان کی حکومت تھی مگر بلدیاتی الیکشن کی طرف توجہ نہ دی گئی۔ سچی بات یہ ہے کہ الیکشن فوجی آمر کراتے رہے مگر اُن کے ذہن میں بھی بنیادی جمہوریت والا فلسفہ نہیں تھا بلکہ اُنہوں نے بلدیاتی الیکشن کو ڈھال اور دکھاوے کے طور پر استعمال کیا۔ البتہ مشرف کے دور میں جو بلدیاتی نظام آیا اُس کا عام آدمی کو یہ فائدہ ہوا کہ اختیارات نیچے تک آئے اور بلدیاتی اداروں کو فنڈز بھی ملے۔ اب بھی اُسی طرح کے نظام کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی اداروں کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایوب خان نے 1958ء میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا اور بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا اور 1959ء میں بنیادی جمہوریت کا آرڈیننس نافذ کیا۔ اور 1961ء میں ایک حکومتی بیان کے ذریعے بنیادی جمہوریت کے مقاصد فرائض اور حدود کی وضاحت کی۔ ایوب خان نے بھی بلدیاتی نظام سے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی اور 1962ء کے آئین میں اس نظام کو انتخابی کالج کا درجہ دیا گیا۔ ایوب خان کے بعد1969ء میں ون یونٹ کو ختم کرکے بلدیاتی نظام کو ازسرنو منظم کیا گیا مگر عام آدمی کو اس کا فائدہ نہ ہوا۔ بلدیاتی نظام کو ہر مرتبہ شٹل کاک بنایا گیا۔ اب تو ہر آدمی کی زبان پر یہ سوال ہے کہ بلدیاتی الیکشن کب ہوں گے؟ بلدیاتی تاریخ کو دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے ملک کو ہی دو لخت کرا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بقیہ ملک کے سربراہ بنے تو چار ایکٹ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے منظور کیے۔ 1972ء میں سندھ اور سرحد کے ایکٹ منظور کیے گئے اور 1975میں پنجاب اور بلوچستان کے ایکٹ منظور کیے گئے۔ اس دور میں قوانین کی منظوری کے ساتھ ساتھ علاقائی انتخابات کے ڈھانچے کو بھی بہتر کیا گیا اور اس دور میں دیہی کونسلیں۔ عوامی میونسپل کمیٹیاں عوامی ٹائون کمیٹیاں اور عوامی محلہ کمیٹیاں قائم کی گئی تاکہ لوگوں کی حقیقی فلاح کے لیے پیپلز ورکس پروگرام کو عملی جامہ پہنچایا جاسکے۔ جمہوریت اور بنیادی جمہوریت مضبوط نہ ہونے سے ملک میں بار بار مارشل لاء آتے رہے۔ جنرل ضیاالحق نے عنان حکومت سنبھالا۔ ایک آرڈیننس کے ذریعے1979ء میں مقامی حکومتی نظام کو نافذ کیا گیا۔اس کے بعد نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کو دو دو مرتبہ موقع ملا اور وزارتِ عظمیٰ نصیب ہوئی مگر افسوس سے یہ بات کہنی پڑھ رہی ہے کہ ان کی ترجیحات میں بلدیاتی انتخابات کی جگہ کچھ اور تھا۔ بلدیاتی نظام کی تاریخ بھی عجب ہے یہ بھی دیکھئے کہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف حکومت پر شبِ خون مارا اور ایک منتخب حکومت کو لمبی چھٹی پر بھیج دیا ۔ اس نے بھی سابقہ جرنیلوں کی طرح 2000ء میں مقامی حکومتی آرڈیننس جاری کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ضلعی حکومتی نظام متعارف کروایا جس میں اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا گیا اور اختیارات کا دائرہ کار مزید وسیع کرتے ہوئے ضلع کی افسر شاہی کو منتخب نمائندوں کے تابع کر دیا گیا جس سے مقامی حکومتی نظام کو مضبوطی میسر آئی اور ترقیاتی کام عروج پر پہنچ گئے جس میں سڑکوں،پُلوں اور نالوں کی تعمیر ان کی دیکھ بھال۔تعلیم اور صحت کے مراکز اور کھیل کے میدانوں پر توجہ دی گئی اور عوام الناس کی زندگی میں واضع بہتری نظر آنے لگی۔ اور اس کے علاوہ بڑے بڑے محکمہ جات کو بھی ضلعی حکومت کے کنٹرول میں دے دیا گیا۔ہم نے شروع میں پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا ذکر کیا یہ بھی دیکھئے کہ اجلاس میں صوبہ پنجاب کے آئینی حقوق کے حوالے سے قرار داد پیش کی گئی۔مذکورہ قرارداد سردار حسنین بہادر دریشک کی جانب سے پیش کی گئی جس کے متن میں کہا گیا کہ پنجاب کا یہ ایوان حکومت کی جانب سے پنجاب کے ساتھ نا روا سلوک کی مذمت کرتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ وفاق نے پنجاب کے واجبات روک لئے ہیں، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے بھی کچھ نہیں دیا گیا، 176 ارب کے واجبات روکنے کی وجہ پنجاب میں صحت اور دیگر شعبوں میں سہولیات کی فراہمی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ پنجاب کی وفاق سے شکایت اس موقع پر بھی سامنے آئی جب نوازشریف وزیرا علیٰ اور محترمہ بینظیر بھٹو وزیر اعظم دتھیں۔ اس وقت تو وزیرا علیٰ میاں نوازشریف شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سے بھی آگے بڑھ گئے تھے۔ ایک مکمل پالیسی ہونی چاہئے کہ جب مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) برسراقتدار ہوتی ہے تو وہ اپنی من مانی کرتی ہے اور دوسروں کی بات نہیں سنی جاتی۔ مرکز اور پنجاب آویزش سے غریب پریشان ہیں۔ اس کا حل ہونا چاہئے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وفاقی حکومت واجبات روک کر پنجاب کو کھنڈرات بنانا چاہتی ہے، وفاقی حکومت نہ تو پنجاب کو گندم دے رہی ہے اور نہ ہی گندم خریدنے کی اجازت دی جارہی ہے، حکومت کو سیلاب متاثرین اور روزمرہ کے استعمال کے لیے گندم کی کمی کا سامنا ہے۔ سیلاب متاثرین کے مسائل کو دیکھنا ہو تو کوئی وسیب، سندھ اور بلوچستان کا وزٹ کرے۔ مرکز سے جو شکایات پنجاب کو ہیں وہی شکایات سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرین کو بھی ہیں۔ وہاں ایک فائدہ یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے اپنے اپنے صوبے ہیں اور وہ صوبائی سطح پر مسائل کو حل کر رہے ہیں۔ وسیب تو دہرے عذاب کا شکار ہے۔ نہ مرکز مدد کر رہا ہے اور نہ صوبے سے کوئی امداد آرہی ہے۔ تباہ کن سیلاب کے بعد بحالی کا عمل رکا ہوا ہے۔ سیلاب سے گھر اور فصلیں نیست و نابود ہو گئیں اور وسیب کے دیگر اضلاع جہاں سیلاب نہیں آیا وہاں بارشوں نے تباہی پھیر دی۔ کپاس کی فصل ختم ہو گئی۔ اب گندم کی کاشت کیلئے مسائل ہی مسائل ہیں۔ کیا حکومت ان مسائل کی طرف توجہ دے گی؟
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر