نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان اور سندھ ساگر ۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ اسماعیل خان اور سندھ ساگر ۔۔
ڈیرہ شھر جس دریا کے کنارے آباد ہے اس دریا کے کئی نام ہیں جیسے اباسین ۔سندھ ۔سندھو ۔مہران ۔ شیر دریا ۔ سندھ ساگر ۔انڈس ۔ وغیرہ۔
سندھ ساگر اس کو اس کی وسعت کی وجہ سے کہتے تھے کیونکہ جب گرمیوں میں یہ بپھر جاتا تو مختلف مقامات پر اس کے کنارے نظر نہیں آتے تھے۔ گرمیوں میں ڈیرہ شھر سے دریا خان تک 25 کلومیٹر دریا ہی دریا ہوتا جب اس سے دس بارہ لاکھ کیوسک پانی گزر رہا ہوتا۔ اور ہم بچپن میں دریا خان جانے کے لیے اس دریا کو ایک جہاز ایس ایس جھلم کے ذریعے عبور کرتے جس پر سارا دن لگ جاتا۔ انڈس سولائزیشن دنیا کی قدیم تہزیبوں میں شمار ہوتی ہے جس نے دنیا کو بند باندھنے ۔نہریں نکالنے سے روشناس کرایا اور کئی فصلیں بھی متعارف کرائیں۔کپاس سب سے پہلے سندھ میں کاشت ہوئ اور یہاں سے مصر اور یونان گئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی زبان میں اب بھی کپاس کو سندھونی کہتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ خوش قسمت ہیں کہ وہ دنیا کی اس قدیم انڈس تہذیب کے وارث ہیں ۔اس لیے اب بھی ان لوگوں نے صدیوں پرانی تہذیب کے عجائبات اور فنون کو سنبھال رکھا ہے جن پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے ۔
گیت میں کلام جناب اشو لال کا ہے۔

بدقسمت قوموں کے بادشاہ ۔۔

پرانے زمانے کے بادشاہ ہر وقت ایک دوسرے پر حملے کرتے تھے اور طاقت کے زور پر قبضہ جما لیتے تھے ۔
بعض اوقات اُس زمین کے اصل مالک جوابی حملہ کرتے تو قابض بادشاہ کو وہ شھر اور زمین اصل مالکوں کے لۓ خالی کرنی پڑ جاتی۔
جب بادشاہ پسپاہ ہوتا تو اپنے غلاموں کو حکم دیتا کہ اس شھر کو تباہ کردو ۔ چنانچہ چند گھنٹوں میں پُل اور عمارتیں تباہ کر دی جاتیں ۔۔تناور درختوں کے سر قلم کر دئے جاتے اور ہرے بھرے کھیتوں کو آگ لگا دی جاتی۔
مقصد یہ ہوتا کہ ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
اور پھر اس شھر کے بدقسمت لوگ تعمیر نو کا کام اس طرح شروع کرتے کہ پیپر پِن کہ جگہ ببول کے کانٹے ۔درختوں کے نیچے سکول ۔ ایمبولینس کی جگہ چارپائ استعمال ہوتی۔

About The Author