گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلاں دیاں میلیاں نے چن جیاں صورتاں ۔۔
اناں کولوں چنگیاں نے مٹی دیاں مورتاں۔۔
پرانی بات ہے میں اسلام آباد ایک بہت اچھے جاننے والے افسر کو ملنے اس کے دفتر چلا گیا ۔ اس افسر نے سمجھا شاید میں ان سے کوئی کام کرانے آیا ہوں ۔اس نے میرا حال احوال خیریت پوچھی اور پھر اچانک اپنی سیٹ seat پر کھڑا ہو گیا اور ہاتھ ملانے کے لیے میری طرف بڑھا دیا اور کہا اچھا خدا حافظ۔ میں ان سے ہاتھ ملا کر واپس آ گیا اور بڑی خفت محسوس کی کہ میں ایسے آدمی کو کیوں ملنے چلا آیا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے دوستوں کا گروپ اسلام آباد کو ۔۔۔کوفہ ۔۔۔ کہ کر پکارتے تھے۔ فون پر جب دوست پوچھتے کہ کہاں
ہو تو بے اختیار میرے منہ سے نکلتا ۔۔ کوفہ میں ۔۔۔
لیکن سب لوگ ایسے نہیں تھے 90% لوگوں نے جو محبت پیار دیا وہ میرا سرمایہ ہے۔اور متکبر بھی یاد ہیں۔ خیر ماضی میں جب مجھے ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب دریا سندھ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کو عبور کرنا ہوتا تو وہاں پر موجود کیہل اپنا کام چھوڑ دیتے اور بغیر معاوضے کے مجھے اپنی کشتی پر پار چھوڑ آتے اور بتاتے جب واپس آنا تو ہمیں اشارہ کر دینا ہم آپ کو لے جائینگے۔ یہ کیہل زیادہ تر مٹی کے کھلونے اور ٹوکرے بنا کے معمولی قیمت پر فروخت کرتے ۔کبھی کبھی تو بچوں سے تھوڑا آٹا لے کر بھی بچوں کو کھلونا دے دیتے۔ آج میں بڑے بڑے شھروں اور لوگوں کے ساتھ رہ کر واپس گاوں لوٹا تو جب گنتی کرتا ہوں کہ میں ساری زندگی میں کیا کما کر لایا ؟ تو میرے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں بچتا کہ۔۔
زندگی میں جو محبت مجھے ملی یا جو محبت میں نے کی۔۔
یہی میرا خزانہ ۔بینک بیلنس ۔میری جایئداد اور بچت رہ گئی ہے۔باقی سب مایہ ہے۔
اے وی پڑھو
راجدھانی دی کہانی:پی ٹی آئی دے کتنے دھڑےتے کیڑھا عمران خان کو جیل توں باہر نی آون ڈیندا؟
چُپات – کہاݨی ۔۔۔||وقاص قیصرانی بلوچ
سرائیکی قوم کا مقدمہ۔۔۔||عامر حسینی