گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش ڈیرہ اسماعیل خان میں پرندوں سے محبت کی جاتی ۔۔
آج میرے پوتے کینیڈا میں اپنے گھر کے قریب جھیل پر سیر کے لئے گئے تو وہاں پر موجود ہنس راج یا جنگلی منگھ کے ساتھ بیٹھ کر ان کا نظارہ کرتے رہے ۔انہوں نے بتایا کہ کینیڈا میں چرند پرند اور جنگلی حیات کو اتنا پیار امن اور تحفظ حاصل ہے کہ یہ بازار آ کے بیٹھ جاتے ہیں۔۔ روڈ پر گھومتے پھرتے ہیں مگر مجال ہے ان کو کوئ ہاتھ لگا سکے۔
ہمارے ڈیرہ اسماعیل خان میں خوبصورت مہمان پرندے چار ھزار میل کا سائیبیریا سے سفر کر کے دریائے سندھ پر اترتے ہیں تو قدم قدم پر انہیں شکاریوں کی گولیوں اور چھروں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔کوہ سلیمان پر آجکل آگ لگی ہوئ ہے اور خوبصورت ہرن پناہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں مگر ہم ان کو بھی مار ڈالیں گے۔
آجکل ہمارے ڈیرہ میں کونجیں۔منگھ ۔مرغابیاں۔ککوئے ۔رشین کاک۔پین۔جل ککڑ ۔ڈولفن ۔سیڑھے ۔ابابیل۔ہریل طوطے نظر نہیں آتے کہ ہم نے ان کا قتل عام کر کے اپنے پیٹ کو پرندوں کی قبریں بنا دیا۔
وائلڈ لائف کا محکمہ بھی بے بس ہے۔ شعر ہے۔
میں خود ہوں اپنے آپ کے پیچھے پڑا ہوا ۔۔
میرا شمار بھی میرے دشمنوں میں ہے ۔
کال کڑیچھی پرندہ ۔۔۔Black drongo bird
تصویر میں جو پرندہ نظر آ رہا ہے سرائیکی زبان میں اس کو یہاں کے لوگ کالکریچھی کہتے ہیں۔ اس پرندے نے ایک بار میرے گھر کے ساتھ درخت پر گھونسلا بنایا اور انڈے بچے دیے۔میں نے کئی بار نوٹ کیا کہ یہ صبح سویرے ٹھیک چار بجے چہچہانا شروع کرتا اور اس کی دلربا چہچاہٹ آدھا گھنٹہ جاری رہتی۔ پھر شکاریوں سے تنگ آ کر یہ پرندے انسانوں سے بہت دور چلے گئے بلکہ غائب ہوگئے ۔ جب 2020ء میں کرونا لاک ڈاون ہوا اور ہر طرف خاموشی چھا گئی تو یہ پرندے واپس ہمارے گھروں کے درختوں پر لوٹنا شروع ہوۓ۔ جب لاک ڈاون ختم ہوا تو پھر شادیوں اور عید پر ہوائ فائرنگ اور آتشبازی ان پرندوں کو دور لے گئ۔ جنگلات اور درختوں کی کٹائ کی وجہ سے پرندے رخصت ہو رہے ہیں۔ اگر ہم قدرتی ماحول برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو گھر گھر شجر کاری کرنا ہو گی اور فائرنگ اور آتشباذی بندکرنا پڑے گی۔
قوم کے دانشور ۔۔
پرانے زمانے کی بات ہے گاوں میں کسی شخص کے لیلے کا سر مٹی کے مٹکے میں پھنس گیا۔اس نے کافی کوشش کی مگر وہ لیلے کا سر مٹکے سے باہر نہ نکال سکا ۔پھر گاوں کے ایک عقلمند پھر دوسرے سیانڑے کے پاس گیا مگر کچھ نہ ہوا ۔آخر فیصلہ ہوا کہ گاوں کے عقلمند ترین بزرگ کے پاس جائیں۔چنانچہ لیلا لے کر حاضر ہوئے۔اس نے کہا کم عقلو اتنا مسئلہ حل نہیں کر سکتے؟جاو چھری لے آو ۔چھری لائ گئی بزرگ نے لیلے کو ذبح کر کے گردن تن سے جدا کر دی۔پھر ہتھوڑے سے مٹکا توڑ دیا اور لیلے کا سر نکال کے مالک کے حوالے کیا کہ لو اب لیلے کا سر بھی آزاد ہو گیا اور ٹوٹا مٹکا بھی لے جاو اور نہیں تو لیلے کو پانی پلانے کے کام آئے گا۔ یوں گاوں کے لوگ ہنسی خوشی بزرگ کی لمبی عمر کے نعرے لگاتے مٹکا اور لیلا ہاتھوں میں اٹھائے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر