نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان میں تعلیم کی تاریخ ۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں تعلیم کی تاریخ ۔
ایک انگریز ڈپٹی کمشنر نے بیسویں صدی کے شروع میں لکھا تھا ۔۔
Dera Ismail Khan is intellectual capital of NWFP.
یہ تب کی بات ہے جب ہندو بھی ڈیرہ میں آباد تھے اور تعلیم کا تناسب ان میں مسلمانوں سے زیادہ تھا۔ اس وقت ڈیرہ میں تجارت۔آرٹ ۔علم و ادب ۔شاعری۔عروج پر تھی۔ 29-1928 میں ڈیرہ کی ایک شاعرہ پوجا بائ نے مشھور زمانہ سرائیکی گیت ۔۔۔ چن کتھاں گزاری وی رات وے ۔۔لکھا اور ڈیرہ کے ممتاز سنگر پروفیسر دینا ناتھ نے اس گیت کو گا کر امر کر دیا۔بعد میں ھزاروں سنگرز نے اس گیت کو گایا اور یہ آج تک لوگوں کے دلوں کو گرماتا ہے۔ آج ہمارے ڈیرہ میں دو یونیورسٹیاں میڈیکل انجنیرنگ کالج اور سیکڑوں تعلیمی ادارے موجود ہیں مگر کوئ نئ دریافت سامنے نہیں آ رہی کیونکہ معیار تعلیم پست ہو گیا۔
1825۔ء میں موجودہ نیا ڈیرہ بنا تو یہاں کوئی پراپر سکول نہیں تھا۔ مسجدوں میں مدرسے عربی فارسی کی تعلیم دیتے۔ ریاضی ہندو اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو سکھاتے اور عربی فارسی سیکھنے ان کو مسلمانوں کے مدرسوں میں بھیج دیتے۔اس طرح ہندو بچے عربی فارسی ریاضی پڑھ کر خوب کاروبار کرتے اور اچھی نوکری حاصل کر لیتے اور مسلمان ریاضی نہ جاننے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے۔انگریز وں نے 1848ء میں ڈیرہ کا چارج سنبھالا تو 1864ء میں مسگراں بازار کے شروع میں چرچ مشن سکول قائم کر دیا جو آج تک ڈیرہ کا قدیم ترین سکول ہے۔ اس میں انگریزی کی تعلیم دی جانے لگی تو مسلمان اس سے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے اور زیادہ ہندو لڑکے داخل ہوئے اود خوب عھدے حاصل کیے۔یہ واحد سکول تھا جس کا بورڈنگ ہاوس اور کھیل کا بڑا میدان تھا۔ اس سکول میں بھکر ۔لیہ۔جھنگ۔میانوالی ۔شاہ پور ۔خوشاب ۔ٹانک سے بچے آ کر پڑھنے لگے مگر مسلمان آٹے میں نمک کے برابر۔ 1904ء میں برطانیہ سے ایک شخص ایچ۔سی۔گائیر اس سکول کا پرنسپل بنا جو 1930ء تک پرنسپل رہا اور سکول کی بہتری کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔سکول کی عمارتیں نئی بنائیں۔اساتذہ کے لیے پنشن جاری کی اور شھر کے بڑے پراجیکٹ میں اہم رول ادا کیا۔ اس کی تعلیمی شھرت کی وجہ سے نواب آف ٹانک غلام قاسم خان کٹی خیل نے اپنے دو بیٹے یہاں داخل کروائے۔مسٹر گائیر صوبے کے سکاوٹ آرگنائزر اور کیمپ کمانڈر تھے اور صوبے میں درجنوں کیمپ لگا کر سکاوٹنگ کی تحریک کو متحرک کردیا۔جب انگلینڈ میں ورلڈ سکاوٹ جمھوری منعقد ہوئی تو اس سکول کے دو طالب علم عبدالرحیم محسود اور شری منوہر لال جنڈوانی اس جمھوری میں شرکت کے لیے لندن بجھوا دیے۔ ان طلباء کے ساتھ دو ٹیچر بھی گئے تھے۔ سکاوٹنگ پر یاد آیا ہماے سکول کے زمانے مرحوم شمس الدین شمس صاحب نے سکاوٹنگ کو عام کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ شمس صاحب میلہ اسپان میں سارا دن لاوڈسپیکر پر کھیلوں اور دوسرے ایونٹس پر تبصرہ کرتے اور اپنی شگفتہ کلامی کی وجہ سے محفل گرما دیتے۔ان کے بیٹے ڈاکٹر شھاب الدین بین الاقوامی سطح کے آرتھوپیڈک سرجن ہیں اور ڈیرہ کے لوگوں کی بے لوث خدمت کرتے ہیں۔ کسی زمانے وہ پشاور سے ڈیرہ آ کر کلینک کرتے مگر دھشت گردی کی وجہ سے وہ کلینک بند ہو گیا۔ واپس مشن سکول کے پرنسپل ایچ سی گائیر کی طرف چلتے ہیں۔گائیر نے تعلیمی خدمات کے علاوہ ڈیرہ کی میونسپل کمیٹی۔ ڈیرہ کا دریا پر بند تعمیر کرنے اور ڈیرہ کا کالج بنانے میں اہم خدمات فراہم کیں۔وہ ساٹھ سال کی عمر میں 1930ء کو ریٹائر ہو کر واپس انگلینڈ چلے گئے وہاں جا کر شادی کی اور پرانا مرغیاں پالنے کا شوق پورا کرنے لگے۔جب 1947ء میں بٹوارہ ہوا تو اس سکول کے پرنسپل پادری بی سی ایشور داس تھے۔ چونکہ ہنگاموں میں سکول کچھ عرصہ بند رہا وہ انڈیا چلے گیے۔ بی سی ایشور داس اتنے لائق آدمی تھے کہ وہاں آل انڈیا ریڈیو جالندھر کے سٹیشن ڈائیرکٹر تعینات ہوئیے۔
آج ہم ڈیرہ کی یونیورسٹیوں ۔کالجوں۔سکولوں کا حال دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔کیا ہماری دھرتی اتنی بانجھ ہے کہ اس کی کوکھ سے ایک سپوت بھی ایسا نہیں جو اپنے جدید تعلیم کے ذریعے ڈیرہ کو گلُ گلزار بنا دے؟

About The Author