حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر نوجوان دوست اور طالب علم جب ملنے تشریف لاتے ہیں تو ڈھیر ساری باتوں کے بیچوں بیچ یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں ’’سر کیا پڑھنا چاہیے؟‘‘ میں ان کی خدمت میں ہمیشہ عرض کرتا ہوں عزیزو! کیا پڑھنا چاہیے سے پہلے یہ سوچئے کہ لوگ پڑھتے کیوں نہیں۔
یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ پڑھنے کے لئے جو بھی دستیاب ہو پڑھیں۔ کوئی اخبار بھلے اس کا کھیلوں یا شوباز والا صفحہ ہو۔ جریدہ، ڈائجسٹ، کتاب کسی بھی موضع پر ہو پڑھیں ضرور ۔ بس دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھیں۔
خود مجھے تاریخ اور دوسرے موضوعات کے ساتھ سب سے زیادہ ’’خودنوشت‘‘ پڑھنے میں ہمیشہ دلچسپی رہی تادم تحریر یہ دلچسپی (جسے میری خاتون خانہ دیوانگی قرار دیتی ہیں) قائم و دائم ہے۔
سوموار کو بھارت کے معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر نریندر جادھو کی ’’آپ بیتی‘‘ آوٹ کاسٹ کا اردو ترجمہ ’’سونو‘‘ پڑھا۔
روٹین کے دفتری امور (علالت کے باعث اب ڈیڑھ برس سے گھر پر بیٹھ کر ہی انجام دیتا ہوں) مکمل کرنے کے وقفوں میں اور پھر رات گئے تک 334صفحات کی یہ کتاب پڑھ لی۔
آپ بیتیاں پڑھنے کا شوق اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود ہوں۔ آپ خود نوشتیں پڑھتے ہوئے نئے لوگوں، شہروں، تہذیبی رویوں، فہمی ارتقا، کلچر اور کچھ کچھ نئے الفاظوں سے شناسا ہوتے ہیں۔
فقط یہی نہیں بلکہ اس سے بھی کہ لکھنے والے نے زندگی کی رفعتوں کو پانے کے لئے کتنی جدوجہد کی۔
مصنف کے خاندانی معاملات و حالات ۔ اٹھان، گلی محلے میں اتحاد و اتفاق اور تضادات ان سب سے آگاہی لمحہ لمحہ آگے بڑھتے رہنے اور زندگی سے محبت کے دروازے کھولتی چلی جاتی ہے۔
’’سونو‘‘ بھی ایک ایسی کتاب ہے فقط ’’سونو‘‘ ہی نہیں آپ جو بھی آپ بیتی پڑھیں گے وہ آپ میں ، ولولہ تازہ بھردے گی آپ سمجھ سکیں گے کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں لگن اور حوصلہ قائم رہنا چاہیے۔
میں جب ان سطور میں کبھی اپنے سفر حیات کے اوراق الٹتا ہوں تو مجھے دوطرح کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اولاً یہ سب کیوں ہوا، گھر سے کیوں نکل کھڑے ہوئے، ثانیاً کیا صرف کتاب دوستی آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔
ان دو سوالوں کے جواب میں ہمیشہ یہی عرض کرتا ہوں، جب آپ بیتی لکھوں گا سب پڑھ لیجئے گا۔ ثانیاً یہ کہ کتاب دوستی دنیا کا سب سے بہترین تعلق ہے۔ اس کے درجنوں فوائد گنواسکتا ہوں لیکن سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ دماغ کی کھڑکیاں کھول کر پڑھتے رہیں گے تو لکیر کا فقیر ہونے سے محفوظ ہوجائیں گے۔
اپنی رائے قائم کرسکیں گے۔ اندھی تقلید وغیرہ سے جان چھوٹ جائے گی۔ البتہ یہ یاد رکھیں کہ فقط کتاب پڑھجنا کافی نہیں بلکہ پڑھے ہوئے پر دوستوں سے تبادلہ خیال بہت ضروری ہے ورنہ مطالعہ بے فائدہ ہوگا۔
نصف صدی قبل میں بچوں کے رسالے پڑھتا تھا اسی عرصے میں اخبارات کے بچوں کے صفحات کے لئے لکھنا شروع کیا۔ پڑھنے کے لئے رسالے اپنی آپا مرحومہ سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ کی لائبریری سے مل جاتے تھے۔ پھر یہ ہونے لگا کہ آپا اماں جی رات کو سونے سے قبل مجھے کسی کتاب کے ایک دو صفحے پڑھ کر سناتیں کچھ عرصہ بعد انہوں نے مختلف کتابوں کے بعض صفحات پر نشان لگاکر دینا شروع کردیئے کہ یہ پڑھ لو۔
پڑھنے (مطالعہ) کا شوق مجھے اپنے مرحوم والدین سے عطا ہوا۔ اسے پروان آپا اماں جی نے چڑھایا۔
سچ کہوں تو اس شوق کے پیچھے ایک خوف بھی تھا۔ خوف یہ تھا کہ اگر جو سوچ کر گھر سے نکلا تھا وہ منزل نہ پاسکا اور خاکم بدہن کچھ ایسے ویسے معمولات بن بندھ گئے تو میرے عزت دار والدین پر حرف آئے گا۔
میں اس خوف کا آج بھی شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے ان راستوں پر چلنے بھٹکنے دوڑنے سے محفوظ رکھا جو میرے والدین اور خاندان کے لئے ندامت کا باعث بن سکتے تھے۔
خوف ایک وجہ ضرور ہے لیکن آج جو کچھ اور جیسا بھی ہوں اس میں پچاس فیصد تنہا مرحومہ آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ کی محنت و محبت اور تربیت ہے اور پچاس فیصد اساتذہ کرام کے ساتھ ان مہربان دوستوں کی جنہوں نے قدم قدم پر رہنمائی کی۔
سفر حیات کے بعض مراحل میں بہت ساری کتابیں ضائع ہوئیں۔ کچھ وہ پولیس والے اٹھاکر لے گئے جو مختلف وقتوں میں گرفتار کرنے آتے تھے۔
ایک زمانے میں دوستوں نے بھی بہت مہربانیاں کیں۔
ارشاد امین اور میں ماڈل ٹائون لاہور کے این بلاک والے فلیٹس میں اکٹھے رہتے تھے (معروف معنوں میں کوٹھا پنڈ والے فلیٹس) ہم دونوں کے دوست آتے قیام کرتے خوب محفلیں برپا ہوتیں اکثر دوست رخصت ہوتے ہوئے کچھ کتابیں لے جاتے اگلی باران کی آمد پر کتابوں کا تقاضا کیا جاتا تو وہ بہت معصومیت سے کہتے
’’یار مردو کیا سو ڈیڈھ سو روپے دی کتاب پچھوں‘‘۔
انہیں یہ خبر نہیں ہوتی تھی کہ ایک کتاب خریدنے کے لئے ہم جیسے محنت کشوں کو کئی کئی دن تک ایک وقت کے کھانے پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ ایک وقت کے کھانے کے پیسے بچاکر جمع کئے جاتے تب کہیں کتاب خریدی جاسکتی تھی
ایک اور دلچسپ واقعہ سن لیجئے، یہ سال 1987ء کی بات ہے برادر بزرگ اور مہربان و محسن، شہید سید محسن نقوی نے ٹیلیفون پر میری والدہ محترمہ سے اجازت لی اور رشتہ تلاش کرنے کی مہم شروع ہوگئی۔
میں ان دنوں لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’رضاکار‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ مرحوم محب مکرم اور بزرگ مولانا ملازم حسین اصغرؒ چیف ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے بھائی جان سید محسن نقوی کے مشورے پر رضاکار میں ضرورت رشتہ کا اشتہار بھی شائع کروادیا۔
ان دنوں میں ہر ماہ ایک ہفتہ یا دس دن کے لئے ’’رضاکار‘‘ کے کراچی والے دفتر میں بھی بیٹھا کرتا تھا۔ ایک بار میں کراچی گیا ہوا تھا۔ ایک خاندان نے ضرورت رشتہ والے اشتہار کی بدولت دفتر سے رابطہ کیا۔
وہ لوگ دفتر آئے حسن اتفاق سے اس دن مولانا ملازم حسین اصغر مرحوم بھی دفتر میں نہیں تھے۔
رضاکار کے خازن، جناب آقا حسین زیدی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ زیدی صاحب نے حسب نسب اور دیگر معاملات میں اس خاندان کی تسلی کراتے ہوئے اپنی گاڑھی اردو میں کہا
’’آپ باقی معاملات سے بے فکر رہیں نوجوان میں کوئی عجیب دنیاوی بھی نہیں، بس اسے کتابیں رسالے خریدنے کا شوق ہے اور ہاں اس کے مہمان بہت آتے ہیں دو بیٹھے چائے کھانے سے انصاف کررہے ہوتے ہیں دو تین رخصت ہوکر جاتے ہیں اتنے ہی کچھ دیر بعد نازل ہوجاتے ہیں۔
آقا حسین زیدی صاحب نے برادرم سید منتظر مہدی کی طرف اشارہ کرکے کہا یہ نوجوان کہنے کو تو دفتر کا مددگار ہے مگر اصل میں یہ ہمارے ایڈیٹر کے دوستوں کے لئے دن بھر چائے کھانے لاتا رہتا ہے ہم اپنے کام صبرو و شکر کے ساتھ خود کرلیتے ہیں
ظاہر ہے اس تفصیلی تعارف اور خوبیوں کی نمائش کے بعد وہ لوگ دوبارہ حسب وعدہ نہیں آئے۔
کراچی سے واپسی پر دفتر کے ساتھیوں نے اس تفصیل سے آگاہ کیا۔ میں نے ہنستے ہوئے آقا حسین زیدی صاحب سے شکوہ کیا۔
وہ لمحہ بھر کے لئے سنجیدہ ہوئے پھر مسکراتے ہوئے بولے، ارے میاں ہم نے سچ ہی تو بتایا وہ دیکھو دفتر میں 10دن بعد آئے ہو تمہارے کمرے میں اس وقت بھی تین دوست چائے پی رہے ہیں۔ پھر کہنے لگے برخوردار یہ جو آپ کے چونچلے ہیں اور بھڑکتا ہوا غصہ دونوں بتاتے ہیں نچلا بیٹھ کر نوکری نہیں کرو گے پھڈے جاری رہیں گے اسی لئے میں نے تمہارے سرپرست اعلیٰ سید محسن نقوی کو ٹیلیفون کرکے کہہ دیا ہے کہ اس کی شادی سوچ سمجھ کر کروائیں اور ضروری ہے کہ دلہن بھی برسرروزگار ہو۔ تب اس کی زندگی کی گاڑی چلتی رہے گی۔
کیا زمانہ تھا، احساس سے بھرے لوگ مستقبل میں جھانک کر دیکھنے والے دوسروں کے بچوں کو اپنی اولاد پر ترجیح دینے والے شفیق لوگ۔
ان دنوں دفتر میں مشہور تھا کہ میں صرف فلیٹ کے کرائے جتنے پیسے چھوڑتا ہوں باقی ساری تنخواہ ایڈوانس میں لے لیتا ہوں۔ یہ کچھ غلط بھی نہیں تھا کتابیں رسالے خریدنے، دوست نوازی اور دیگر ضرورتیں اسی طرح پوری ہوتی تھیں ہمیں کون سا ورثے میں مربعے ملے تھے ورثے میں تو بس ایک نسب ہی ملا باقی رہے نام اللہ کا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر