دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تنہائی۔۔۔||سجاد جہانیہ

پھر میں ان سے دور ہوگیا اور یہ سمجھا کہ میں نے آرام خرید لیا لیکن دراصل میرے حصے میں آنکھ، سر اور ماتھے کی ٹیسیں آئیں۔ آپ کو پتہ ہے ناکہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی سے انسان کس قدر ’’ مصروف‘‘ ہوگیا ہے۔

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سہہ پہر ڈھل گئی اور دن نے چوتھے پہر میں قدم دھر دیا تو میری آنکھوں، ماتھے اور سر میں تھکن کی ٹیسیں بہت بڑھ گئیں۔چنانچہ میں نے فون کو بیڈ پر اچھال دیا، نظر کی عینک اتار کر ہاتھوں سے آنکھوں کو سہلایا اور باہر لان میں آگیا۔ چارپائی پر چِت لیٹ کر آنکھیں موندلیں۔ سوچا کہ اب کچھ دیر یا تو آنکھیں بند رکھوں گا اور اگر کھولیں تو بس فطرت کو دیکھوں گا۔ نیچر کو نیچر کے حوالے کردوں گا، وہ جو ازل کے ساتھی ہیں۔دوپیروں پر چلنے والا ہومو سیپئن جب بھی پہلی دفعہ زمین کے سینے پر چلا ہوگا تو بصارت اس کے ساتھ ہی فعال ہوئی ہوگی۔فطرت کی عطاکردہ بصارت سے اُس نے فطرت کے مناظر ہی تو دیکھے ہوں گے۔درخت ، پھول، گھاس، پرندے، آسمان سبھی کچھ۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو شمالی دیوار کے ساتھ کھڑے دونوں درختوں اور ہماری چھت کی بائونڈری وال کے درمیان سے نیلا آسمان جھانک رہا تھا۔اس کی نیلاہٹ میں بے پانی کی سفید بدلیوں کی ہلکی دھند گھلی ہوئی تھی۔ میرے دائیں بائیں فطرت پھیلی ہوئی تھی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں فطرت کے پرانے لفظی مصوروں کی طرح درختوں، پودوں اور بیلوں کے نام لے لے کر منظر بیان کروں مگر اس میں دو قباحتیں ہیں۔ ایک تو درختوں کے نام انسان نے رکھے ہیں، سو یہ کلچر تو ہیں فطرت نہیں…دوسری قباحت یہ ہے کہ مجھے درختوں، پودوں کے نام آتے ہی نہیں۔ آم، ٹاہلی اور کیکر، ان تین درختوں کے علاوہ مجھے کسی کی پہچان نہیں۔ بہر حال، میں نے تاروں پر سوکھتے کپڑوں اور عمارت کی طرف سے دھیان ہٹایا تو مشرقی دیوار کی بیلیں اور اُن پر کھلے سرخ پھول تھے۔ فرش پر بچھی گھاس اور میرے اوپر درختوں کی شاخوں پر بیٹھتے، اڑتے پرندے جن میں چڑیاں تھیں اور وہ بلبلوں کا جوڑا بھی جو پڑوس میں خانۂ خدا کے وضوخانے پر کھڑے چھتنار پیڑمیں رہتا ہے… دور اوپر آسمان پر چیلیں تیرتی تھیں۔ دو چار پر مار کے وہ بلندی پر پہنچ جاتیں اور پھر طویل پر پھیلا کر ہوا کے دوش پر تیرنے لگتیں۔ان سے ذرا نیچے کوے یہاں سے وہاں اڑے پھرتے تھے۔شام ہوجانے کو تھی سو وہ واپسی کا قصد کرتے تھے۔ صدیوں سے یہ درخت یونہی کھڑے ہیں، ہزاروں برس سے یہ فضائیں ان پرندوں کا مسکن ہیں۔ نہ درختوں نے اپنی وضع بدلی اور نہ پرندوں نے اپنی خو۔چرند اور درند بھی اپنے قدیمی معمول کے اسیر ہیں۔ اللہ کی زمین پر چل پھر کے رزق تلاش کرتے ہیں اور کسی کھوہ میں، کسی غار میں پڑ کے سو رہتے ہیں۔ میںبھی کبھی ایسے ہی رہتا تھا۔ درختوں پر، پتھروں کے سائے میں، پہاڑ کے غاروں میں… پھر میں ان سے دور ہوگیا اور یہ سمجھا کہ میں نے آرام خرید لیا لیکن دراصل میرے حصے میں آنکھ، سر اور ماتھے کی ٹیسیں آئیں۔ آپ کو پتہ ہے ناکہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی سے انسان کس قدر ’’ مصروف‘‘ ہوگیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ شہروں میں بسنے والا انسان شاید ایک لمحہ بھی خالی نہیں بیٹھ سکتا۔خود کو دیکھتا ہوں تو کتاب، فون، ٹی وی میں ہر وقت گم۔ باتھ روم جاتے ہوئے بھی یہ موبائل ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ ایک مدت ہوگئی مجھے خود کو اپنے ساتھ وقت گزارے۔ اگلے روز ایک نوجوان کہہ رہا تھا کہ اب تو واٹر پروف فون آگئے ہیں۔ شاور کے نیچے کھڑے ہوکر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ تحریر اتوار کی شام ڈھل چکنے کے بعد لکھی جارہی ہے۔میں چھٹی کے دن کا معمول یاد کرتا ہوں تو صبح اٹھنے کے بعد سب سے پہلے فون دیکھا، پھر گھنٹہ بھر اخبارات دیکھے۔کچھ دیر کتاب پڑھی۔ ڈیڑھ گھنٹے کے لئے سوگیا۔اٹھ کے نیٹ فلیکس پر ایک فلم دیکھی۔واٹس ایپ پر دوستوں کے ساتھ چیٹ کی۔ فیس بک پر ایک پوسٹ چڑھائی۔ دوستوں کی پوسٹیں دیکھیں۔گھر کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کے ناشتہ کیا اور پھر سہہ پہر کے وقت لنچ، تب بھی سامنے ٹی وی چلتا رہا۔ ڈھلتی سہ پہر جب میری آنکھیں دکھنے لگیں، ماتھا بھاری ہو گیا او ر سر بوجھل تو میں نے سوچا میرے بچپن ، لڑکپن، جوانی میں جب یہ آلہ نہیں تھا تو میرا وقت کیسے گزرتا تھا؟ مجھے یاد آیا تب گھروں کے آنگن آباد تھے۔ آس پڑوس کے بچے کسی ایک آنگن میں مل کر کھیلا کرتے تھے۔ درختوں کی چھائوں میں منڈلیاں لگتیں۔انسان، انسانوں کے دکھ سکھ سناسنایا کرتے تھے۔اس شعر کی تفسیر: غم بانٹنے کی چیز نہیں پھر بھی دوستو اک دوسرے کے حال سے واقف رہا کرو میں نے سوچا ہم گھر کے لوگ اِک دوسرے سے بس ضرورت کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے موضوعات کہاں کھوگئے ہیں؟ انٹر نیٹ سے پہلے وہ کون سے ایشوز تھے جن پر لوگ اک دوجے سے باتیں کیا کرتے تھے؟ فون کو بیڈ پر اچھال کرباہر نکل آیا کہ گھر کے لوگوں سے گپ شپ کروں مگر وہ سب اپنے اپنے فون کی سکرین میں گُم تھے۔ ان کی آنکھیں، دماغ او ر ماتھا ابھی نہیں تھکے تھے…باہر لان میں چارپائی پر لیٹ گیا…برآمدے میں ہمارا بلو لیٹا ہوا تھا۔ پرندے اور درخت ہوا کھا رہے تھے۔ مغرب کو جھکا سورج مشرقی افق پر الوداعی نگاہیں ڈال رہا تھا۔ ہوا رسان سے بہہ رہی تھی… یکایک مسجد کے وضوخانے والے چھتنار پیڑ کی شاخوں سے کوئل بولی۔ یہ سب اپنے گردوپیش کا لطف اٹھا رہے تھے کیونکہ ان کے پاس جام ِ جہاں نما موجود نہیں۔ ان کو سکرین اور انٹرنیٹ کا شعور نہیں۔ ایک نظر پیڑوں پر اور منڈیر کے بیچ سے جھانکتے آسمان پر ڈالی اور سوچا ابھی سورج منہ چھپالے گا تو ایک ایک کر کے ستاروں کے چراغ روشن ہونے لگیں گے۔ ملکی وے کے ستارے اور وہ ہم سے پچیس لاکھ نوری برس دور اینڈرومیڈا کے ستارے۔ میں ان کودیکھ رہا ہوں گا تو ہوسکتا ہے کہ یک بہ یک فقط ساڑھے پانچ سو کلومیٹر دور اڑتے امریکی کمپنی سپیس ایکس کے ان سیٹلائٹس کی روشن قطار بھی دکھائی پڑجائے جو سٹارلنک پراجیکٹ کے تحت چھوڑے گئے ہیں۔ تین سے سات میٹر لمبے اور ڈیڑھ سے تین میٹر چوڑے بائیس سو سیٹلائیٹ فضا میں چھوڑے جاچکے ہیں۔ یہ ایک روشن ٹرین کی صورت آسمان میں تیرتے ہیں۔ کل بیالیس ہزار ایسے سیٹلائٹ زمین کے گرد چھوڑے جانے ہیں۔ یہ پراجیکٹ (سٹارلنک) مکمل ہوجائے گا تو زمین کے ایک ایک انچ پر انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہوگی۔ گویا آنیوالے دنوں میں پوری دنیا سے جڑا انسان شاید اپنی ذات میں مجھ سے بڑھ کر تنہا ہوگا۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author