نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا پاکستانی قوم ایک ہجوم ہے ؟ ۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا پاکستانی قوم ایک ہجوم ہے ؟
جی نہیں ۔۔۔ پاکستانی عوام ایک خود دار اور غیرت مند قوم ہیں جن کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
سب سے زیادہ خیرات اور صدقات یہی قوم کرتی ہے اور ملک میں درجنوں فلاحی ادارے عوام کے اربوں روپے سے چل رہے ہیں۔ اس قوم کے پاس قیام پاکستان کے وقت پیپر پن بھی نہیں تھے اور ببول کے کانٹے جمع کر کے پیپر پن کے طور پر لگاتے رہے اور پھر یہ قوم اللہ کی مدد سے دنیا کی ساتویں نیوکلر پاور بن گئ۔ اس قوم نے دنیا کے سب سے زیادہ 40 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دے کر خدمت کی۔ پاکستانی کا دل بہت بڑا ہے اور یہ انسانیت کی قدر کرنا جانتا ہے۔ طوفانوں سے کھیلنا اور آندھیوں سے ٹکرانا اس قوم کا مشغلہ ہے۔
میری زندگی کا زیادہ وقت پردیس کاٹتے گزر گیا جسے اردو اور سرائیکی میں پردیسی کہتے ہیں۔ پاکستان میں جگہ جگہ جو مہمان نوازی کی روایات اور محبت دیکھی وہ غیر ممالک میں نہ مل سکی۔ہاں البتہ مکہ اور مدینہ میں مہمانداری کی روایات عروج پر ملیں اور وہاں رہنے والے لوگ چاہے وہاں کے لوکل ہوں یا باہر کے مہمانداری کے امین ہیں۔پرانی بات ہے ضلع شانگلہ کے ایک گاٶں الپوری میں وزیراعظم پاکستان نے خطاب کرنا تھا۔میں پشاور سے اس تقریب کی کوریج کے لیے گیا اور جلسہ مغرب کی نماز کے ساتھ ختم ہوا۔ میں بہت تھکا ہوا تھا اور سوچا مینگورہ جا کر کسی اچھے ہوٹل قیام کرونگا اور دوسرے دن واپس پشاور چلا جاونگا۔ سخت سردی میں رات کو الپوری سے روانہ تو ہو گیا لیکن جسم میں درد اور بخار کی کیفیت تھی۔جب دس بارہ میل پہاڑوں میں سفر کیا تو چکر آنے لگے۔وہاں اچانک ہماری گاڑی رکی جو ایک فارسٹ چیک پوسٹ تھی میں نے موقع غنیمت سمجھا اور گاڑی سے اتر گیا۔بالکل ویران جگہ تھی میں نے فارسٹ گارڈ کو بتایا کہ میں آرام کرنا چاہتا ہوں کوئ جگہ دے دیں۔ وہ مجھے اپنے کمرے میں
لے گیا آگ گرم کی اور مجھے چاۓ پلائی تو میرے ہوش ٹھکانے آے۔ بہر حال رات کے دس بج چکے تھے کھانا تو میں کھا چکا تھا اب اس چھوٹے سے کمرے میں دو چارپائی اور دو گارڈز کے بستر تھے اور سردی بھی شدید تھی ۔ گارڈ نے کہا اوپر پہاڑ پر دو تین گھر ہیں میں آپ کے لیے بستر لاتا ہوں اور کچھ دیر بعد وہ بستر لے آیا ۔ جب اس نے بستر کھولا اور چارپائی پر بچھایا تو یہ بالکل نیا دلھن کا چمکیلی رضائی اور گدے اور نئی چادر والا بستر تھا جو ہمارے دیہاتوں میں شادی پر بیٹیوں کو دئے جاتے ہیں۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا تو اس نے بتایا اوپر دو غریب خاندان رہتے ہیں۔ ایک لڑکے کی شادی تھی اور ابھی تھوڑی دیر پہلے دلھن لاۓ تھے۔ میں نے جب بستر اور مہمان کا بتایا تو غربت کی وجہ سے ان کے پاس مناسب بستر نہیں تھا۔ دلھا دلھن نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم نے تو ساری زندگی اسی بستر پر گزارنی ہے مہمان تو کل چلا جاۓ گا نیا دلھن والا بستر دے دیا اور خود پرانے بستر پر سو گیے۔ ادھر وہ فارسٹ گارڈ خود زمین پر اپنا بستر بچھا کے سو گیا اور مجھے نیا بستر اور چارپائی دے دی۔اب مجھے اپنا بخار اور درد تو بھول گیا مگر مہمانداری اور انسانی ہمدردی کی یہ عجیب فلم دماغ پر گھومنے لگی۔ دیر تک نیند نہ آئی اور کروٹیں بدلتا رہا۔جیسے تیسے رات کٹ گئی مگر آج تک اس غریب جوڑے کی عظمت کا احساس میرے دل میں آج بھی روشن ہے جس کو کبھی دیکھا بھی نہیں۔ پاکستان کے دیہاتوں میں آپ کو ایسی داستانیں بہت ملتی ہیں کیونکہ وہاں ہوٹل وغیرہ نہیں ہوتے اور گاٶں کے غریب لوگ خود مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں۔

About The Author