حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ فقیر راحموں بھی اچھا خاصا دھڑے باز بلکہ پھڈے باز بندہ ہے۔ آجکل پتہ نہیں کیوں پبلشروں کے پیچھے ہاتھ دھوکر بھاگا پھرتا ہے۔
دو روز ادھر ہم نے پوچھا بھی یا فقیر راحموں ہوا کیا کچھ بتائو تو۔ بولا، شاہ جی، میں نے ایک کتاب لکھی ہے ’’نیلی برسات‘‘۔ بڑی شاندار کتاب ہے۔ دلچسپ قصے اور ’’تاڑیخی‘‘ واقعات ہیں۔
ارے تاریخی واقعات تو سنا پڑھا تھا یہ ’’تاڑیخی‘‘ کیا ہوتاہے؟ فرمانے لگے یار شاہ تم تو نرے گھامڑ ہو اتہ پتہ کچھ ہے نہیں اور بڑے کالم نگار بنے پھرتے ہو۔
پڑھتا کون ہے تمہیں، یہ فیس بک پر چند جیالے اور بس۔ تمہیں معلوم ہے جن اخباروں میں تمہارا کالم چھپتا ہے ان اخبارات کے خریدار کتنے تنگ ہیں تجھ سے، ابھی کل ہی مجھے دو تین بندے کہہ رہے تھے کہ فقیر راحموں صاحب یار آپ کتنے اچھے آدمی ہیں آپ کے ساتھ رہ کر بھی شاہ جی کچھ سیکھ نہیں پائے۔
ہم نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا وہ آپ کی کتاب ’’نیلی برسات‘‘ ہے کس موضوع پر؟
بولے کچھ خاندانی واقعات ہیں، کچھ تاڑیخی اور سیاسی قصے ہیں کچھ دھانسو صحافیوں کی وارداتوں کی داستانیں ہیں۔ شاہ جی میں مسودہ جس بھی پبلشر کے پاس لے کر جاتا ہوں وہ تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے کے بعد کہتا ہے فقیر سائیں ہم کتاب بالکل شائع کرنے کے لئے تیار ہیں بس آپ 200کتابیں نصف قیمت پر خرید لیجئے گا۔
اب بتائو شاہ جی اگر نصف قیمت پر اس سے میں نے 200کتابیں خریدنی ہیں تو پھر کتاب ، دوستوں کا منت ترلا کرکے خود نہ چھپوالوں۔
مجھے کہنا پڑا یہ آخری بات درست ہے دوستوں کا منت ترلہ کرلو کتاب ہم سب مل کر بیچ لیں گے۔ فقیر نے قہقہ لگایا اور بولا میں سادہ آدمی ہوں لیکن گاودی ہرگز نہیں کہ تمہاری باتوں میں آجائوں۔ تمہیں کتابیں دینے کا مطلب ہوگاکہ میں اپنے پیسوں پر فاتحہ پڑھ لوں،
وہ کیوں؟ جواب ملا ، شاہ تم نے تمباکو نوشی کرنی ہے اور کچھ بچ رہا تو کتابیں خرید لوں گے۔ بس جونہی مجھے اچھا پبلشر ملا میری کتاب شائع ہوتے ہی دھماکے ہوں گے۔ دھانسو صحافی، سیاستدان کچھ کچھ مولوی اور بہت سارے لوگ مجھے اور کتاب کو تلاش کرتے پھریں گے تم خود سوچوں اس شوروغل میں کتاب کی کتنی مشہوری ہوگی۔
اچھا کسی دن کتاب کا مسودہ مجھے دینا پڑھنے کے لئے میں نے فقیر راحموں سے کہا۔ وہ ہنسا اور بولا واہ بڑے گھاگ ہو مسودہ تمہیں دے دوں اور پھر تم دنیا سے کہتے پھرو کہ فقیر راحموں کی کتاب کے مسودہ کی نوک پلک میں نے سنواری ہے ۔ چلو یار میں تمہارے سامنے بیٹھ کر پڑھ لوں گا۔ جواب ملا، مجھے تو بخش ہی دو تمہاری دوستی میں مجھے لوگوں کی پہلے ہی بڑی باتیں سننا پڑتی ہیں۔
صرف تمہاری وجہ سے میری حب الوطنی مشکوک رہتی ہے۔اس لمحے موضوع بدلتے ہوئے ہم نے دریافت کیا یار فقیر سنا ہے کل تم اپنے ایک دوست رانا شرافت علی ناصر کے ہمراہ ریڈنگز بکس گئے تھے۔
سنائو کوئی کتاب شتاب بھی خریدی کہ گھوم پھر کر واپس آگئے۔
ریڈنگز والوں سے ہی بات کرلیتے اپنی کتاب کی اشاعت کے لئے وہ پیسے بھی سنا ہے اچھے دیتے ہیں۔ میری بات ختم ہوئی تو اس نے کہا، یہ تمہیں کس نے بتایا کہ میں ریڈنگز پر گیا تھا؟
بتانا کس نے تھا تم نے فیس بک پر خود لکھا کہ ریڈنگز جارہے ہو اور وی وی آئی پی پروٹوکول ملنا چاہیے۔ اب بتائو گئے تھے کہ نہیں؟
ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے فقیر کہنے لگا یار شاہ کسی کو بتانا مت، میں گیا تھا ریڈنگز پر لیکن انہوں نے ملک کے معروف اینٹی اسٹیبلشمنٹ صحافی، کالم نگار، دانشور، تجزیہ کار پیر سید فقیر راحموں بخاری المعروف ڈن ہل والی سرکار کو پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔
ہیں یہ کیا ظلم ہوا رانا صاحب نے بھی تمہارا تعارف نہیں کروایا ریڈنگز والوں سے؟
یار میں نے انہیں بولنے ہی نہیں دیا جونہی ہم ریڈنگز کی ڈی ایچ اے والی برانچ پر پہنچے گاڑی سے اتر کر گرائونڈ فلور میں داخل ہوئے تو کائوٹنر پر کھڑے خزانچی سے میں نے براہ راست اپنا تعارف کرواتے ہوئے پوچھا، آپ کی دکان پر خالی خولی صحافی کو کوئی ڈسکائونٹ ملتا ہے یا جس صحافی کے ساتھ گرل فرینڈ ہو اسے رعایت دیتے ہیں۔
خزانچی نے میری بات سن کر حیرت سے کہا لگتا ہے آپ غلط جگہ آگئے ہیں۔ مجھے غصہ تو بہت آیا اس کی بات پر ایک تو مجھے پہچانا نہیں اوپر سے کہہ رہا تھا لگتاہے آپ غلط جگہ آگئے ہیں۔ خیر میں نے صبر کا کڑوا گھونٹ بھرتے ہوئے اسے بتایا کہ
’’ہم پیر سید فقیر راحموں بخاری المعروف ڈن ہل والی سرکار ہیں۔ کتابوں کے عاشق صادق اور ملک کے معروف صحافی کالم نگار اڑھائی درجن کتابوں کے مصنف و مرتب متعدد اردو و انگریزی اخبارات اور ایک ایجنسی کے سابق ایڈیٹر آپ کی دکان کی شہرت سن کر جوہر ٹائون سے تشریف لائے ہیں ” ۔
پتہ نہیں اس تعارف میں ایسی کیا بات تھی وہ دیدے پھاڑ پھاڑ کر ہمیں حیرانی سے تکنے لگا۔ اس کی حیرانی نے تپایا تو بہت لیکن کیا کرتا رانا صاحب ساتھ تھے کوئی رپھڑ پڑجاتا تو وہ شریف آدمی کیا سوچتا اس لئے میں نے رانا صاحب سے کہا آپ کتابیں دیکھیں میں بات کرکے آتا ہوں۔
جونہی رانا صاحب کتابوں کی طرف بڑھے میں نے اس نکی نکی داڑھی والے خزانچی سے تحمل کے ساتھ پوچھا، میاں کیا واقعی آپ نے ہمیں نہیں پہچانا؟ وہ بولا جی نہیں سر یہاں روزانہ سینکڑوں لوگ آتے ہیں کچھ کتابیں خریدتے ہیں کچھ اوراق الٹتے دیکھتے ہیں آدمی کس کس کا چہرہ یاد رکھ سکتا ہے۔
شاہ جی میرا پارہ ایک دم ہائی ہوا جی چاہا کہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی سٹک اسے دے ماروں پھر اس کے ظاہری حلیئے نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ ظاہری وضع قطع میرے ہی جیسی ہے مولائی ہی نہ ہو۔ اگر ہوا تو اپنی ہی برادری کا بندہ پھٹر ہوجائے گا۔
عین اسی لمحے یہ خیال بھی آیا کہ اس طرح کا حلیہ جماعتیوں کا بھی ہوتا ہے۔
خیر میں نے ایک اور کڑوا گھونٹ بھرا اور اس سے کہا نوجوان، ہم نے اپنا نام تو آپ کو بتاہی دیا ہے ہم سیدھے سادھے پیر نہیں بلکہ اس ملک کے مشہور صحافی ہیں سوشل میڈیا پر 25ہزار لوگ ہمیں فالو کرتے ہیں۔
شاہ جی تمہیں پتہ ہے اس نے جواب میں کیا کہا؟
کیا کہا، ہم نے پوچھا۔
فقیر راحموں نے مرحوم ذاکر سید ریاض حسین موچھ کے پُردرد لہجے میں کہا، شاہ جی اس نے جواب دیا سر میں فیس بک ہی استعمال نہیں کرتا۔
اب تم بتائو ملک کی ایک بڑی بک شاپ کا خزانچی اگر فیس بک استعمال نہیں کرتا تو اسے کیسے پتہ چلے گا کہ ملک میں مشہور لوگ کون کون سے ہیں۔
ویسے شاہ جی یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ سارا دن سیٹھوں کے لئے نوٹ جمع کرتے رہنے والے خزانچی کو اتنی تنخواہ ہی نہ ملتی ہو کہ وہ ایک اچھا سا موبائل لے سکے۔ آج کل مہنگائی بھی تو بہت ہے پھر 12/14 گھنٹے کی خزانچی گیری میں بندہ ذہنی طور پر تھک ہار بھی تو جاتا ہے۔ اس پر میں نے یار فقیر وہ تو بہت اچھی تنخواہیں دیتے ہیں
خیر شاہ جی میں نے بڑے صبروتحمل ہے ساتھ اس سے دوبارہ پوچھا۔ نوجوان، صحافیوں کو کتابوں میں خریداری پر کتنی رعایت دیتے ہو اور کیا یہ رعایت سنگل صحافی کے لئے ہے یا گرل فرینڈ والے صحافی کے لئے؟
خزانچی نے اب مجھے ایسے دیکھا جیسے میں کوئی ادھ مغزا ہوں۔
پھر اس نے کائونٹر کے دوسری جانب کتابوں کے پاس کھڑے ایک نوجوان کو اشارے سے بلایا اس سے سرگوشی میں کچھ کہا۔ وہ نوجوان تیزی سے جاکر رانا صاحب کو بلالایا۔
تب خزانچی نے ان سے کہا سر میں معذرت خواہ ہوں مجھے آپ کے اس دوست کی باتیں سمجھ میں نہیں آرہیں براہ کرم آپ انہیں سمجھادیں کہ ہمارے ہاں فروخت کی جانے والی کتب پہلے ہی رعایتی قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں، مزید رعایت کے لئے مالکان یا منیجر صاحب سے کہلوانا پڑتا ہے۔ سر مجھے گرل فرینڈ والی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
اب غصے کو قابو میں رکھنا مشکل ہوگیا تھا میں نے سرد لہجے اور اونچی آواز میں کہا سنو صوفی (صوفی اس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی کی وجہ سے کہا) تمہارا رویہ درست نہیں ہے تم نے ملک اور سوشل میڈیا کی معروف ہستی کو وی وی آئی پی پروٹوکول دیا نہ آئو بھگت کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ کتابوں پر کتنی رعایت ہے۔
شاہ جی پتہ ہے اس نے جواب میں کیا کہا،
کیا کہا، میں نے پوچھا۔ فقیر راحموں نے مسکین سی صورت بناکر کہا، شاہ جی وہ کہہ رہا تھا ’’سر یہاں ہر شخص اپنی ذات میں بڑا آدمی ہی ہوتا ہے جب تک وہ بولے نا‘‘۔
شاہ جی اب میری ہمت جواب دے گئی اور ہم دوسری منزل پر بنے کیفے کی طرف جانے کے لئے لفٹ کی سمت بڑھ گئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر