نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بڑھکیں، ایک خط اور ایک اہم مسئلہ ||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاست کا میدان ’’گرم‘‘ ہورہا ہے۔ جناب عمران نے ایک ہی ’’سانس‘‘ میں دو باتیں کہی ہیں ’’ہم ہفتے کو احتجاج کریں گے پوری تیاری سے آئیں گے، ہفتہ والے دن پورا زور لگانا‘‘ پھر کہا ’’احتجاج کی کال کا فیصلہ تب کروں گا جب سمجھوں گا ٹائیگرز تیار ہیں‘‘۔ وزیر داخلہ سے کہا ’’رانا ثناء اللہ اپنی فکرکرو اس بار چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی‘‘

رانا ثنا اللہ کہتے ہیں خان صاحب آپ نے تیاری پکڑنی ہے ہم مکمل تیار ہیں۔ تقریروں اور بیانات میں بڑھکوں کے اس کچے پکے مقابلہ کی حقیقت تب کھلے گی جب پی ٹی آئی احتجاجی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے 26 یا 27کلومیٹر پر پھیلی ’’وفاقی حکومت‘‘ کا محاصرہ کرے گی۔ محاصرے تک انتظار کیجئے۔

اُدھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی میں واپس جاکر کردار ادا کریں، عوام نے پانچ سال کے لئے انہیں منتخب کیا ہے۔ سپیکر کے کام میں مداخلت مشکل ہے۔

توہین عدالت والے کیس میں جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان بولے ’’خاتون جج کو دھمکی نہیں دی قانونی ایکشن کا کہا، مقدمہ چلا تو سنجیدگی کا احساس ہوا آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کروں گا۔ کہیں تو جاکر یقین دلائوں گا کہ میں نہ میری پارٹی آپ کو کوئی نقصان پہنچائے گی‘‘۔

فرد جرم کا معاملہ موخر کردیا گیا۔ عمران خان کو ایک بار اور ایک ہفتے کی مہلت دے دی گئی۔ وہ کہتے ہیں خاتون جج سے معذرت کرلیتا ہوں۔ یار لوگ کہہ رہے ہیں انہوں نے معافی مانگ لی۔ ان کے وکیل حامد خان کہتے ہیں ’’عمران خان نے معذرت کا اظہار کیا ہے یہ معافی نہیں ہے‘‘۔

توہین عدالت کے چند ماضی قریب کے مقدمات اور فیصلے ذہن میں لایئے ملکی سیاست کی قریبی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے، صاف سمجھ میں آجائے گا کیا کھیل چل رہا ہے اور لوگوں کو کیسے چکمہ دیا جارہا ہے۔ ویسے توہین عدالت کے ہی ایک معاملہ میں عمران خان نے چند برس قبل سپریم کورٹ میں معافی مانگی تھی۔ ان کے معافی نامے اور اس پر عدالتی حکم دونوں حاصل کرکے پڑھ لیجئے۔ اس میں وعدہ کیا گیا تھاکہ آئندہ محتاط انداز میں گفتگو کیا کروں گا۔

توہین عدالت کے ہی ایک معاملے میں پیپلزپارٹی کے چند رکارکن کئی برسوں سے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ خان والے معاملے میں ایک سے بڑھ کر ایک محب وطن ان کی مدد کے لئے موجود ہے۔ قانون کے دوہرے معیار پر برسوں تنقید کرنے والے کے لئے اگر مگر چونکہ چنانچہ سے راہ ہموار کی جارہی ہے۔

کیا اس لئے کہ لاہور کا ڈومیسائل ہے؟ میرا خیال ہے ایسی بات نہیں ہوگی لاہور کا ڈومیسائل تو شریف برادران کے پاس بھی ہے۔ کچھ "پردہ دار” سرگرم ہیں۔ بہتر ہوگا وہ استعفیٰ دیں سادہ کپڑوں میں سیاست کریں دوسروں کی طرح انہیں بھی آٹے دال کا بھائو پتہ چلے۔

مزید کیا لکھا جائے اس موضع پر سوائے اس کے کہ احتجاجی تحریک کا انتظار کیا جائے اس تحریک کا جب پی ٹی آئی کے ٹائیگرز اپنے قائد کے فرمان پر انقلاب کے لئے دیوانہ وار نکلیں گے۔ اپنے مطالبات اور پسندیدہ منزل و نظام کے لئے جدوجہد سیاسی جماعتوں کاحق ہے۔

دستور میں شہری سیاسی آزادیاں لکھی ہیں اور اظہار رائے کی آزادی بھی۔ اس پر بحث بالکل نہیں کہ اس ملک میں دستور پر کتنا عمل ہوتا ہے۔ کچھ چیزیں صرف حوالہ جات کے لئے ہوتی ہیں ان میں پاکستانی دستور بھی شامل ہے۔

ہم آگے بڑھتے ہیں ملک تجمل حسین کا ای میل کے ذریعے موصول خط ہے۔ بہاولپور سے ان کا تعلق ہے۔ لکھتے ہیں

’’شاہ صاحب، آپ کے کالموں کا برسوں سے قاری ہوں بعض موضوعات پر آپ یقیناً اچھا لکھتے ہیں اور ان پر معلومات بھی دوسروں کے مقابلہ میں آپ کے پاس زیادہ ہوتی ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے دیکھ اور پڑھ رہا ہوں کہ آپ صرف عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف ہی لکھ رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ کسی نے یہ ڈیوٹی آپ کے سپرد کردی ہے۔

کیا صرف تحریک انصاف اور عمران خان ہی غلط ہیں باقی جماعتیں اور لیڈر دودھ کے دھلے ہیں۔

مزید لکھتے ہیں اب تو مجھے یقین ہونے لگا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف آپ کے کالم کچھ مہربانیوں کے "عوض” ہیں آخر بندہ جس کانمک کھائے اس کا خیال بھی تو کرتا ہے۔

تحریک انصاف نے اس ملک کی سیاست میں بھونچال برپا کردیا ہے۔ جو لیڈر خود کو اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک سجھتے تھے ان کے جرائم کو عمران خان نے بے نقاب کیا یہ لیڈر اور ان کی جماعتیں سیاست کے میدان میں عمران کا کچھ نہیں بگاڑسکتیں اس لئے انہوں نے آپ جیسے لوگوں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ لگے رہیں عمران خان کے خلاف۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا

عوام اس کے ساتھ ہیں میری بات لکھ کے رکھ لیں آئندہ انتخابات میں ان سارے بڑوں کی ضمانتیں ضبط ہوجانی ہیں جو 30، 30سال اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ اوراب تڑپ رہے ہیں کہ عمران خان نے ان کی چوریوں کو بے نقاب کردیا ہے۔

یہ بھی لکھا ہے کہ خوف خدا سے کام لیں عوام کے جذبات اور آوازوں کو سنیں ملک ایک انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے جو بھی راستے میں آئے گا وہ خاک ہوجائے گا‘‘۔

ملک تجمل حسین کا ای میل کے ذریعے موصول ہوا پیغام (خط) آپ پڑھ چکے اپنے جذبات کے اظہار کا انہیں حق ہے۔ قاری اخبار خرید کر پڑھتا ہے وہ اخبار کی پالیسی یا اخبار میں شائع ہونے والی تحریروں پر رائے دینے کے لئے اتنا ہی آزاد ہے جتنی آزادی شائع تحریروں کے تحریر نویسوں کو حاصل ہے۔

عمران خان یقناً اس وقت ایک قوت ہیں مگر واحد قوت ہرگز نہیں۔ ملک صاحب کو عمران اور پی ٹی آئی پر میری تنقید دیکھائی دی انہوں نے اندازہ لگایا کہ مجھے کہیں سے حقِ خدمت ملتا ہے اسی لئے میں ان کے قائد کے خلاف لکھتا ہوں۔ ان (ملک) جیسے زندہ ولیوں کے دم سے ہی یہ ملک چل رہا ہے ورنہ نونیوں، پپلوں اور جرنیلوں نے تو ات اٹھارکھی تھی۔

بالفرض اگر میں مان لوں کہ عمران اور پی ٹی آئی کے خلاف لکھنے کا کہیں سے حق خدمت موصول ہوتا ہے تو کیا یہی اصول ان اینکروں، یوٹیوبروں اور کالم نگاروں پر صادق آئے گا جو عمران خان کو "واحد و آخری نجات دہندہ” بناکر پیش کررہے ہیں۔

یقیناً انہیں بھی کہیں سے کچھ موصول ہورہا ہوگا پیٹ انہیں بھی لگا ہے گھر داری، یوٹیلٹی بلز اور دوسری ضروریات بھی ہوں گی۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ عمران کے خلاف لکھنے والے کرائے کے سپاہی ہوں اور انکے حق میں لکھنے والے مجاہدین تحریک آزادی۔ جبکہ ان مجاہدین تحریک آزادی میں سے بعض کے پاس چند برس قبل ایک پرانی موٹرسائیکل ہوتی تھی کچھ ’’پیدل سوار‘‘ بھی تھے۔

بہرطور ملک صاحب کا خط من و عن شائع کردیا ہے کیونکہ انہوں نے لکھا تھا

"شاہ جی مجھے امید نہیں کہ آپ میرا خط کالم میں شائع کریں گے ان کے بقول کوئی بھی خودپسند شخص تنقید برداشت نہیں کرتا”۔

کالم کے آخری حصے میں ایک اہم مسئلہ پر بات کرلیتے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ حکومت نے پیراسیٹامول گولی بنانے والی کمپنیوں کو سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہماری دانست میں یہ فیصلہ غلط بلکہ صریحاً غلط ہے اسی فارمولے کے تحت بنی دیگر ادویات موجود ہیں اگر خام مال ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مہنگا ہوا ہے تو صرف پیراسیٹامول بنانے والی ادویہ ساز کمپنیاں متاثر نہیں ہوئیں بلکہ دیگر ادویہ ساز ادارے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ ادویہ ساز اداروں کو خام مال منگوانے پر رعایت دی جائے۔

ثانیاً یہ کہ سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑنے سے صورتحال خاصی خراب ہے۔ وبائی امراض سے نجات دلانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب کردی گئی ہیں یا پھر اگر مل رہی ہیں تو اصل قیمت سے زائد پر۔ یہی صورت روزمرہ ضرورت کی اشیاء کے حوالے سے ہے۔

ثالثاً یہ کہ موسم تبدیل ہورہا ہے، بدلتے ہوئے موسم میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو جن اشیاء کی فوری ضرورت ہوگی ان میں خیمے، کمبل، گرم چادریں، گرم کپڑے، سویٹر وغیرہ شامل ہیں، مناسب ہوگا کہ کسی بڑے المیے سے ان متاثرین کو محفوظ رکھنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author