رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں حکومتیں بنتی بگڑتی اور وقت سے پہلے گرتی رہیں۔ حزب ِاختلاف میں شامل جماعتیں بلاتخصیص ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہوئے کسی طور مسندِ اقتدار پر جا بیٹھتیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت اسی کھیل کا نام تھا۔ کرسیوں کی لڑائی سے ہماری جان صرف غیر جمہوری حکومتوں کے دوران ہی چھوٹی۔ اب بھی وہی تماشا ہے جو ہمارے ہاں سدا سے نام نہاد جمہوریت کا چلن رہا ہے۔ اس میں بہتر ی آ سکتی تھی‘ اگر غالب سیاسی گھرانوں کی سرپرستی نہ کی جاتی تو ہماری سیاست میں فطری توازن پیدا ہوجاتا۔ لوگوں کو ہر بر سرِقتدار جماعت کی حکمرانی کو پرکھنے کا موقع مل جاتا اور کوئی بھی چند برسوں تک خزانوں پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد ماتھے پر مظلومیت کا لیبل لگا کر سیاسی میدان میں دند ناتا نہ پھرتا۔ ہر دو کو بار بار موقع اس لیے دیا گیا کہ جمہوریت کا بھرم رہے۔ کسی سیاسی طوفان کا سامنا نہ کرنا پڑے اور پس پردہ رہ کر مہروں کو آگے پیچھے کرنے کا سلسلہ جاری رہے۔ کئی وجوہات میں سے یہ ایک بڑی وجہ رہی ہے کہ ریاستی اقتدار مکمل طور پر کسی بھی منتخب حکومت کے سپرد نہ کیا گیا۔ بہت تاویلیں آپ سنتے رہتے ہیں مگر میرے نزدیک سیاست جس رنگ میں بھی ہواور اس کا محور اور مرکز کہیں بھی ہو‘ افراد کے مفادات کے تابع رہتی ہے۔ جمہوریت‘ نمائندگی اور اداروں کی خود مختاری اور ملکی حالات کو سنبھالنے میں کلیدی کردار صرف اور صرف جواز کے طور پر پیش کیے جاتے رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں ویسے تو کئی چھوٹے بڑے ‘ علاقائی ‘ قومی اور مذہبی سیاسی دھڑوں نے سیاسی منڈی لگائی ہوتی ہے مگر طاقت کا اصل سرچشمہ ہماری تاریخ میں چار آمرانہ حکومتیں رہی ہیں۔ جو سیاسی گھرانے ہمیں آج اکثر دکھائی دیتے ہیں‘ وہ انہی میں سے کسی کے مرہونِ منت ہیں۔ ضرورت دونوں جانب سے رہتی ہے ‘ غیر جمہوری حکمرانوں کو سیاسی سند اورجمہوری اداروں کو اپنے مقاصد کے تابع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو سماجی اور سیاسی حیثیت کے حامل گروہوں ‘ افراد اور جماعتوں کو اتحادی بنایا گیا۔ دوسری جانب ہمارے جاگیرداروں کی اقتدار کے مراکز تک رسائی نہ ہو تو مال و دولت ہونے کے باوجود بندۂ لاچار دکھائی دیتے ہیں ‘ عام لوگ بھی ان کے دروازوں اور ڈیروں کا رخ نہیں کرتے جب تک کہ کسی کی اقتدار تک رسائی نہ ہو۔ اقتدار میں رہنا وڈیروں کی سیاسی ضرورت بن چکی ہے۔ میرامطلب یہ ہرگز نہیں کہ سو فیصد لوگ ایسے ہی ہیں‘ اشارہ صرف اکثریت کے رویوں کی جانب ہے۔ فوجی حکومت ہو یا کسی موروثی خاندانی سیاسی جماعت کی ‘ جگہ بن سکنے کی گنجائش نظر آئے تو سیاسی کشتیوں کو جلا کر میدان میں کود پڑنا ہمارے ہاں کوئی بری بات نہیں۔ ذرا نظر دوڑا کر دیکھ لیں ‘ کوئی ایسا چھوٹا‘ بڑا سیاست دان دکھائی دیتا ہے جس نے اپنے آقا اور سیاسی جماعتیں نہ بدلی ہوں ؟ اگر کوئی یہ دلیل دے کہ یہ ترقی اور جمہوریت کے لیے ہوتا رہا ہے تو ہم اورتو کچھ نہیں کرسکتے بس کانوں میں روئی ٹھونس لیں گے۔
ہماری سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دو تین دھڑے جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ‘ غالب رہے ہیں۔ تقریباً نصف صدی سے تین دھڑے میدان میں ہیں۔ اقتدار میں باریاں ‘ باہمی تعاون ‘ تصادم ‘ کشمکش اور سرپرستیوں کا کھیل انہی کے درمیان ہوتا رہا۔ اس سیاسی تکون میں بہتوں کا ایسا بھلا ہوا کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوگئے۔ اگر ملک کے زوال ‘معیشت اور معاشرے کی زبوں حالی اور عدم استحکام کا جائزہ لیں تو اس کے تسلسل کا ذمہ دار ان کے سوا اور کون ہوسکتا ہے جو اقتدار میں رہے ہیں۔ یہ سراسر دانشورانہ ناانصافی ہے کہ انقلابی مزاحمت ‘ شاعری ‘ ادب اور سماجی تحریکوں میں صرف ایک فریق کے خلاف رہی ‘ باقی کو جمہوریت اور عوام کا نمائندہ قرار دے کر ان کی لوٹ کھسوٹ ‘ موروثی سیاست اور معیشت کو تباہ کرنے کی ذمہ داری سے صرفِ نظر کیا گیا۔ مانتا ہوں کہ بری جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے مگریہاں مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اس میں ہر نوع کی برائی نے گہری جڑیں پکڑ لیں جس سے کافی نقصان ہوا۔کسی سرکاری دفتر ‘ عدالت اور محکمہ سے آپ کا واسطہ پڑے تو بات سمجھ میں آجائے گی۔
اب ہم آتے ہیں عمران خان کی سیاست ‘ بیانیے اور تقریباً پچیس سالہ جدوجہد کی طرف۔ شروع سے لے کر آج تک اُن کی تقریریں اور بیانات دیکھ لیں‘ وہ صرف دو تین باتیں کہتے رہے ہیں جوبہت سادہ مگر بنیادی ہیں اور یہی دو خصوصیات ہیں جو سیاسی بیانیوں میں گہرائی اور دوام کا رنگ بھرتی ہیں۔ تکرار اس بات کی ہے کہ نواب شاہ اور رائیونڈ والے ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں۔ وہ اوپر گئے ہیں اور ملک نیچے۔ ہر جگہ اُنہوں نے اپنے بندے لگا کر نظام کو اتنا مفلوج کردیا ہے کہ ان کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوپاتا۔ اپنی بدعنوانی معاف کرانے کی غرض سے پرویز مشرف سے بیرونی طاقتوں کے ذریعے معاہدہ کرتے ہوئے این آر او لے لیا گیا۔ اب اس کا مفہوم اتنا عام ہوچکا کہ ہمیں یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس کی حقیقت صرف بدعنوانی اورایک جماعت کے دیگر جرائم تھے۔ اقتدار ان دوخاندانوں کے درمیان نفع بخش کھیل بنا رہا‘ باریاں لگی رہیں۔ کسی نئے لیڈر یا جماعت میں سکت نہ تھی کہ اُن کے سامنے کھڑی ہوسکے۔ اُنہوں نے ظلم کا نظام قائم کیے رکھا کہ بڑا تو قانون کے پنجے سے نکل جاتا لیکن کمزور پکڑا جاتا۔ ملک آگے کبھی نہیں بڑھ سکتاجب تک قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی اور طاقتور احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں ہوتا۔ ہم انصاف کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جو وسیع تر معنوں میں فلاحی ریاست کے حوالے سے غریبوں کو سہارا مہیا کرتا ہے۔ اس بیانیے کی اثر پذیری ہی ہے کہ کہ عوام کی توجہ کا رُخ اُن کی کرپشن اور موروثی بادشاہتوں کے خلاف ہوچکا ہے جو جمہوریت ‘ جمہوریت کا کھیل رچائے ہوئے تھے۔ خان کی مزاحمت بظاہر سیاسی نظر آتی ہے مگر اس کی تہہ میں معاشی انصاف ‘ جوابدہ نمائندہ حکومت اور ذمہ دار حکمرانی کا فلسفہ کارفرما ہے۔ یہ بیانیہ اور عوامی مقبولیت تحریک انصاف کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے درجے پر لے آئی ہے۔ یہ اعتراض ضرور بنتا ہے کہ خان صاحب نے بھی سیاسی دھڑوں کے ساتھ سمجھوتا کیا تھا تاکہ اسمبلیوں میں اقتدار کے لیے ضروری اعدادوشمار پورے کیے جا سکیں لیکن عدم استحکام‘ معافی چاہتا ہوں‘ عدم اعتماد ‘کی تحریک کی کامیابی کے بعد بات بہت آگے نکل چکی۔ اب جس انداز سے اُنہوں نے اپنے سیاسی مکالمے کا آغاز کیا ہے لگتا ہے کہ رکھ رکھائو کے عشروں سے بندھے ہوئے روایتی سیاستدان کے بیانیے کا تیزو تند ریلا بہا کرلے گیا ہے۔ اب تیرہ سے زائد سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ایک نے سیاست کا توازن مضبوطی سے اپنے حق میں کرلیا ہے اور ان تیرہ کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں ‘ سوائے ا ن کے پیروکاروں کے۔ دوسری جانب خان اس وقت وہ بظاہر ناقابلِ شکست دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی انہیں جائز طریقوں سے نہیں روک سکتا۔ مزاحمت میں استقامت ‘ بیانیے کی سادگی اور سچائی اور عوام خاص طور پر نوجوانوں کے اعتماد نے تبدیلی کوممکن اور یقینی بنا دیا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر