حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوتین دن ادھر کراچی میں ممتاز بلوچ قوم پرست رہنما اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطا اللہ خان مینگل کی یاد میں منعقد ہونے والے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ’’طے کرنا ہوگا کہ ملک میں چند طبقوں یا آئین کو بالادستی حاصل ہے۔ مقررین نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت اور معیشت سے قبل سیاسی عمل میں مداخلت روکنے کے لئے چارٹر پر متحد ہونا ہوگا۔ یہ بھی کہا گیا کہ سیاسی مفاد پرستی سے جمہوریت کمزور ہورہی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ریاست پر عوام کے حق ملکیت مساوی حیثیت، بلاامتیاز انصاف، وسائل کی منصفانہ تقسیم، شہری و مذہبی آزادیوں کے حوالے سے ہمارے مختلف الخیال سیاستدان بڑی خوبصورت باتیں کرتے ہیں مگر عمل کی دنیا سے دور دور رہ کر، جمہوری نظام میں منتخب ایوانوں میں موجود عوامی نمائندے رائے دہندگان کو جوابدہ ہوتے ہیں لیکن سیاسی مفاد پرستی کا شکار عناصر کی وجہ سے اولاً تو حقیقی عوامی جمہوریت قائم نہیں ہوپائی
ثانیاً یہ کہ جس طبقاتی نظام سے بنام جمہوریت عوام کو بہلایا جاتا ہے اس میں بھی عوام کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر رواں مالی سال کے بجٹ کو ہی دیکھ لیجئے اس میں عام آدمی کو باوقار انداز میں زندہ رہنے کا حق دینے کے لئے کیا ہے اور بالادست اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے طبقات کے مفادات کے تحفظ کیلئے کیا کیا نہیں کیا گیا۔
ملک میں چند طبقوں کی سیاسی و معاشی بالادستی کیونکر قائم ہوپائی؟
سیاسی قیادت یہ سوال پوچھنے کی بجائے اس کا جواب رائے دہندگان کے سامنے رکھے۔ سیاسی عمل میں مداخلت کیوں ہوتی ہے اس کے لئے کاندھے کون پیش کرتے ہیں اور اس در اندازی پر سیاسی قیادت کا ہی ایک طبقہ یہ کیوں کہتا دیکھائی دیتا ہے کہ نظام اور ریاست کے تحفظ کے لئے کڑوی گولی نگلنا پڑی؟
مرحوم بزرگ سیاستدان کے تعزیتی ریفرنس میں بلاشبہ سیاسی قائدین نے بڑی اچھی اچھی باتیں کیں لیکن کیا وہ عوام کو یہ بتانا پسند کریں گے کہ ماضی میں سیاست میں ہوئی مداخلت کے وقت ان میں سے کون کون جمہوریت کے ساتھ کھڑا رہا اور کس کس نے دراندازوں کو محسن و نجات دہندہ قرار دیا۔
یقیناً یہ سوال بہت تلخ ہے۔ وجہ یہی ہے کہ فی الوقت ملک میں ایک بھی ایسی جماعت نہیں جس نے ماضی میں سیاست میں ہونے والی مداخلتوں میں سے کسی ایک کا خیرمقدم نہ کیا ہو۔ جنرل پرویز مشرف نے 12اکتویر 1999ء کو منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو اس اقدام کا خیرمقدم کرنے والوں میں گرائی گئی حکومت کے سیاسی مخالفین کے ساتھ دستور کی حاکمیت کو یقینی بنانے والے ادارے کے ذمہ داران بھی شامل تھے۔ اس پر ستم یہ کہ اس غیرقانونی اور توہین دستور کے مترادف اقدام کو نہ صرف قانونی جواز فراہم کیا گیا بلکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ظفر علی شاہ کیس میں ایک فوجی آمر کو دستور میں شخصی ترامیم کا اختیار پلیٹ میں رکھ کر پیش کردیا۔
پرویز مشرف کے غیرآئینی اقدام سے قبل بھی ملک میں تین بار جمہوری نظام پر شب خون مارا گیا ان تینوں غیرقانونی اقدامات کے وقت سیاستدانوں کی اکثریت کہاں کھڑی ہوئی مارشل لاء لگانے والوں کے ساتھ یا عوام کے حق حاکمیت کا تحفظ کا فرض ادا کرتی دیکھائی دی؟
اس امر پر دو آراء نہیں کہ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ حیران کن بات یہ ے کہ انتخابی مینجمنٹ کے فیض سے اقتدار حاصل کرنے والے اقتدار سے محرومی کے بعد جمہوریت کے علمبردار بن جاتے ہیں۔ اپنی اپنی ضرورتوں کے لئے یہاں ایک آدھ جماعت کے علاوہ سبھی نے ’’دراندازی‘‘ سے قائم ہونے والی
” جرنیلی جمہوریت ” کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کے حق میں دلائل بھی دیئے۔
بہرطور آج اگر یہ احساس دوچند ہو ہی گیا ہے کہ سیاسی عمل میں در اندازیوں سے عوامی جمہوریت کی راہ کھوٹی ہوئی ہے تو سب سے پہلے سیاستدانوں کو ماضی میں کسی بھی خلاف آئین اقدام کی حمایت کرنے پر عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔
اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ مداخلت تقریرورں اور بیانات سے نہیں روکی جاسکتی بلکہ ضروری ہے کہ ’’میثاق حاکمیت عوام‘‘ کیا جائے۔ سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ وہ مستقبل میں کسی بھی درانداز کی حمایت کریں گی نہ اس کے اقتدار میں حصہ وصول کریں گی۔
یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ ایک حکومت کی معاشی پالیسیوں کے تسلسل میں اگلی حکومت روڑے نہیں اٹکائے گی البتہ اگر یہ ثابت ہو کہ معاشی پالیسی کا فلاں نکتہ مملکت اور عوام کے مفادات کے منافی ہے تو پارلیمان اس میں تبدیلی کا حق رکھتی ہے۔
ملک میں چند طبقوں کی بالادستی صرف اقتدار کے ایوانوں تک ہی محدود نہیں دیگر شعبوں میں بھی بردارانِ نسبتی، بھانجوں اور دامادوں کو نوازنے کا رواج ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نوازشات و اقربا پروری کی بیماریاں لاعلاج مرض بنتی جارہی ہیں۔
ایک ایسے ملک میں جہاں ایک طرح کے تعلیمی ادارے حاکم اور دوسرے طرح کے تعلیمی ادارے محکوم تخلیق کرتے ہوں وہاں مکمل تطہیر کی ضرورت ہے یہ تطہیر کسی خونی انقلاب سے نہیں بلکہ دستور کی بالادستی سے ہی ممکن ہے۔
اس کے لئے نیچے سے اوپر تک میرٹ پر عمل کو لازمی قرار دینا ہوگا۔ وہ چند طبقات جو خود کو آئین سے بالادست سمجھتے ہیں انہیں جوابدہی سے آشنا کرانے کی ضرورت ہے۔
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ حاکم طبقات اور بعض اداروں کے بااختیار لوگ خود کو جوابدہی سے ماورا سمجھتے ہیں۔ پارلیمان ہی وہ واحد فورم ہے جو ان سب کو یہ باور کراسکتا ہے کہ افراد نہیں مملکت نظام اور عوام اہم ہیں۔ عوام حق رائے دہی سے جن منتخب نمائندوں کو اقتدار سازی کا حق دیتے ہیں وہ بھی جوابدہ ہیں۔
میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت یقیناً ہونے چاہئیں لیکن ان سے قبل سیاسی عمل میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نفرتوں کی آبیاری کا علاج بھی کیا جانا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اپنے دساطیر میں لکھ دیں کہ پارٹیاں بدلنے والوں کو نئی جماعت آئندہ پانچ سال تک کوئی تنظیمی عہدہ دے گی نہ انتخابی عمل میں شرکت کے لئے ٹکٹ۔
سیاسی عمل سے باہر کی کوئی قوت نظام کو تابع لانے کے لئے کوئی اقدام کرے گی تو سیاسی جماعتیں متحد ہوکر اس کی مزاحمت کریں گی نہ کہ ان میں سے کچھ آگے بڑھ کر نظام کو تابع کرنے والوں کی ساجھے دار بن جائیں گی۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ جمہوریت ہی اول ہے یہی آخر لیکن خود سیاسی رہنمائوں کو بھی دیکھنا سوچنا ہوگا کہ جمہوریت شکنی میں معاونت کرنے والوں کے لئے وہ اپنی جماعتوں کے دروازے کیوں کھولتے ہیں اور یہ بھی کہ کسی غیر جمہوری اقدام میں چاکری کیلئے پیش پیش رہنے والوں کو عوام پر مسلط کرنے کی ضرورت کیا ہے سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی کارکنوں کو آگے کیوں نہیں لاتیں ؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر