حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی گزشتہ روز تاحکم ثانی بند کردی گئی۔ یونیورسٹی کی بندش سے طلباء و طالبات کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوں گی ( طلبا کے ایک گروپ کا موقف کچھ اور ہے یونیورسٹی بند کیئے جانے پر اور وہ وی سی پر سنگین الزامات لگارہے ہیں اس بارے آئندہ کالم میں عرض کروں گا )
لیکن نوبت یونیورسٹی کی غیرمعینہ مدت تک کے لئے بندش تک کیوں پہنچی؟ یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔ اس سوال کے جواب میں سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈاپور کہتے ہیں:
’’میں شہر والوں کی جنگ لڑرہا ہوں، یونیورسٹی میں کرپشن اور اقرباء پروری کی بھرمار ہے، وائس چانسلر، زرعی یونیورسٹی کے فعال ہونے کے راستے میں حائل ہے”
گنڈا پور اس سے آگے بھی کچھ کہتے ہیں بلکہ ان کا ایک واٹس ایپ میسج سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس آڈیو کی زیرزبر بھی سننے والوں کے دانتوں کو "پسینہ چھوڑادیتی ہے‘‘۔ مناسب ہوتا وہ تحمل کے ساتھ اپنا موقف عوام کے سامنے رکھتے۔
معاملہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ہزاروں سابق اور حاضر طلباء و طالبات کی مادر علمی کا ہے۔ بدقسمتی ہی کہہ لیجئے کہ علی امین گنڈاپور عام زندگی میں بھی جو زبان استعمال کرتے ہیں اس طرح کی پھول جھڑتی گفتگو تانگہ سٹینڈ کا ٹھیکیدار بھی نہیں کرتا اسے بھی یہ احساس دامن گیر رہتاہے کہ تانگوں میں خواتین بھی بیٹھی ہوئی ہوں گی۔
گومل یونیورسٹی کی حالیہ بندش بظاہر وائس چانسلر سے گنڈاپور کے جھگڑے اور گنڈاپور کی جانب سے انہیں دی گئی دھمکیوں کا نتیجہ ہے۔ یونیورسٹی کے وی سی ڈاکٹر افتخار احمد نے علی امین گنڈاپور کے خلاف دھمکیاں دینے اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر اندراج مقدمہ کی درخواست دے دی ہے۔
ہم چند برس پیچھے چلتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے اپنے تیسرے دور اقتدار کے آخری دنوں ( 2017 ) میں ڈی آئی خان میں زرعی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ زرعی یونیورسٹی بہت پہلے بن جانی چاہیے تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس وقت وفاقی و پنجاب اور بلوچستان میں تھی خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت اور پرویز خٹک وزیراعلیٰ تھے۔ تب اس منصوبے کے راستے میں سیاسی بعد کی وجہ سے روڑے اٹکائے گئے۔
علی امین گنڈاپور نے پرویز خٹک کے ساتھ مل کر پہلے تو کوشش کی کہ زرعی یونیورسٹی نہ بننے دی جائے اس میں ناکام رہے تو پی ٹی آئی کی حکومت (وفاق میں) آنے پر ایک منصوبے کے تحت گومل یونیورسٹی کے اثاثے، اراضی اور دیگرز کی تقسیم کے ذریعے زرعی یونیورٹسی بنانے کا اعلان کروادیا۔ جامعہ گومل کا یونیورسٹی ایکٹ اور سنڈیکیٹ اس بٹوارے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے۔ قانونی طور پر یونیورسٹی کا موقف مضبوط تھا
ویسے بھی گومل یونیورسٹی کے لئے اراضی نواب اللہ نواز خان سدوزئی نے اس وقت عطیہ کی تھی جب 1970ء کی دہائی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈیرہ اسماعیل خان میں گومل یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
یونیورسٹی کے اثاثوں کی تقسیم کا کوئی عمل بھی ان تینوں نکات سے متصادم ہے ۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک بات اور قارئین کے علم میں لانا ضروری ہے کہ سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے یونیورسٹی کے عقب کے علاقے جھوک کھلڑ میں 3ہزار کنال اراضی 87ہزار روپے کنال کے عوض خرید کر ہائوسنگ کالونی بنائی ہے۔ اپنی وزارت اور طاقت کے زور پر انہوں نے گومل یونیورسٹی انتظامیہ پر دبائو ڈالا کہ وہ ان کی جھوک کھلڑ میں واقع کالونی کیلئے راستہ دیں۔
یہ راستہ مل جاتا تو یہی کالونی کی مرکزی شاہراہ ہوتا۔ اس کا فوری دوسرا فائدہ یہ ہوتا کہ 87ہزار روپے کنال میں خریدی گئی زمین کے پلاٹوں کی قیمت فوری طورپر 10لاکھ روپے کنال اور اس سے بڑھ جاتی۔
یونیورسٹی انتظامیہ اور وی سی اس معاملے میں آڑے آئے موقف یہ تھا کہ یونیورسٹی کی حدود میں سے شاہراہ عام نہیں گزاری جاسکتی۔
مکرر عرض ہے کہ اس پر دو آراء نہیں کہ زرعی یونیورسٹی جامعہ گومل کا بٹوارہ کرکے نہیں الگ مقام پر فوری طور پر بننی چاہئے مگر غور طلب سوال یہ ہے کہ زرعی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان 2017ء میں ہوا آج 2022ء کا ماہ ستمبر ہے۔ پچھلے ساڑھے 9سال سے اور یونیورسٹی کے قیام کے اعلان کے وقت سے 5سال سے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ صوبائی حکومت گومل یونیورسٹی کے اثاثے تقسیم کرکے زرعی یونیورسٹی بنانے پر کیوں بضد ہے؟
صوبائی حکومت خود فنڈز اور اراضی فراہم کیوں نہیں کرتی؟ ان دونوں سوالوں کا مختصر جواب یہ ہے کہ یہی واحد صورت ہے جھوک کھلڑ میں واقع علی امین گنڈاپور کی ہائوسنگ کالونی کے پلاٹوں کے نرخ بڑھانے کی کیونکہ اگر اثاثوں کی تقسیم سے زرعی یونیورسٹی بنتی ہے تو گنڈاپور کو اپنی کالونی کے لئے زرعی یونیورسٹی کی حدود سے مین راستہ مل جائے گا اور وہ کم و بیش 3ارب روپے کا فوری منافع کمالیں گے۔ اثاثوں کی تقسیم کے ظاہری تنازع پر سابق گورنر شاہ فرمان ، علی امین گنڈاپور کے ساتھ کھڑے رہے۔ اس کا ثبوت وہ خط ہے جو ماضی میں وی سی ڈاکٹر افتخار کو وی سی کے منصب سے "جبری طور پر ہٹائے جانے کے وقت بھجواتے وقت گورنر آفس سے لکھا گیا۔ کیا ایک صوبے کے گورنر اور ان کے دفتر کو یہ علم نہیں تھا کہ ایک استاد سے خط و کتابت کیسے کی جاتی ہے؟
یونیورسٹی انتظامیہ کہتی ہے گومل یونیورسٹی کے معاملات کو ابتر بنانے کے لئے علی امین گنڈاپور نے اپنی وزارت کے زور پر غیرمقامی سابق طلباء کے ایک گروپ کی سرپرستی کی اس گروپ نے ہاسٹلز کے کمروں پر قبضے کے علاوہ یونیورسٹی میں غنڈہ گردی کو رواج دیا۔ ایک الزام یہ بھی لگا جارہا ہے کہ:
جن دنوں ڈاکٹر افتخار احمد جبری پر ہٹوائے گئے تھے اس عرصہ میں علی امین گنڈاپور اور ان کے بھائی نے یونیورسٹی انتظامیہ کو ہر طرح سے دبائو میں لانے کے لئے تمام اخلاقی حدود پامال کیں۔
غیرمقامی سابق طلباء اور ان طلباء کی ’’آڑ‘‘ میں چند جرائم پیشہ افراد کو یونیورسٹی نے جب بھی ہاسٹلوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی اور اس کے لئے ڈی آئی خان انتظامیہ کا تعاون چاہا تو علی امین گنڈا پور اور صوبائی حکومت نے ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ کو باقاعدہ منع کیا کہ یونیورسٹی سے تعاون نہ کیا جائے۔
حالیہ تنازع، یونیورسٹی کی بندش اور چند دیگر امور پر گومل یونیورسٹی کا باضابطہ موقف یہ ہے:
’’گومل یونیورسٹی میں سیاسی و بیرونی مداخلت نے ڈیرہ اسماعیل خان کے طلبا اور ان کے والدین کو شدید پریشانی سے دوچار کررکھا ہے۔ یونیورسٹی ایک طرف جہاں صوبے کی دیگر جامعات کی طرح مالی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملازمین کو ماہ اگست کی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوسکی وہیں سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور اور ان کے سیاسی حامیوں نے ہنگاموں کو ہوا دی جس سے یونیورسٹی کی املاک کو نقصان پہنچا۔ یونیورسٹی کے تحریری موقف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر قانون کی پاسداری کو یقینی بنایا جاتا تو غنڈہ گردی کرنے والوں کی گوشمالی کے ساتھ ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوتی لیکن ان بیرونی عناصر کو چونکہ علی امین گنڈاپور اور ان کی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے اس لئے اصلاح احوال ممکن نہیں‘‘۔
مندرجہ بالا سطور میں یونیورسٹی کا موقف قارئین کے سامنے رکھا ہے۔ کالم کی ابتدائی سطور میں سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے موقف کا وہ حصہ لکھ دیا جو "حدِ ادب” میں تھا۔ اس سارے معاملے میں چند باتیں اہم ہیں۔
اولاً یہ کہ صوبائی حکومت یونیورسٹی ایکٹ، گومل یونیورسٹی کے لئے عطیہ کی جانے والی اراضی کے قوانین اور یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کے فیصلوں کو کیسے بلڈوز کرسکتی ہے۔
ثانیاً یہ کہ علی امین گنڈاپور نے جھوک کھلڑ میں نجی ہائوسنگ کالونی کے لئے اراضی خریدتے وقت اپنی کالونی کے لئے متبادل مرکزی راستے کے لئے کوشش کیوں نہیں کی وہ اس پر بضد کیوں ہیں کہ یونیورسٹی انہیں اپنی حدود سے مین راستہ دے اس کے لئے وہ یونیورسٹی حدود سے 40+40 فٹ کی ڈبل سڑک گزارنا چاہتے ہیں یعنی مجموعی طور پر 100فٹ چوڑا راستہ۔ یونیورسٹی کیسے اور کس قانون کے تحت اپنی حدود سے شاہراہ عام گزارنے کی اجازت دے؟
ثالثاً اس سارے معاملے میں خیبر پختونخوا کے سابق گورنر شاہ فرمان، سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور موجودہ صوبائی حکومت نے قوانین کی بجائے علی امین گنڈاپور کی خواہشات اور ضروریات کو ہی کیوں مدنظر رکھا ہوا ہے ؟
حرفِ آخر یہ ہے کہ زرعی یونیورسٹی بننی چاہیے لیکن گومل یونیورسٹی کے اثاثوں اور یونیورسٹی کے لئے وقف اراضی کے قانون کو پامال کرکے نہیں۔ صوبائی حکومت اراضی اور فنڈز فراہم کرے تاکہ یہ معاملہ حل ہو سکے
پسِ نوشت
جامعہ گومل کی مختلف الخیال طلبا تنظیموں نے بھی اس تحریر نویس کو ایک مشرکہ خط بھجوایا ہے طلبا اور وی سی تنازع اور مسائل ان پر آئندہ کالم میں عرض کروں گا.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ