حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیجئے نقل مکانی کا عمل مکمل ہوا، کرائے دار کی زندگی پر مالک مکان کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ قانون کرایہ داری الگ سے کندھ خنجر ہے اور پراپرٹی ڈیلرز چند ایک اچھے یقیناً ہوں گے یہی حال دوسرے شعبوں کا ہے۔ خود ہمارے شعبہ (صحافت) کا کیا حال ہے۔ جس کا جی کرتا ہے منہ پھاڑ کر کہہ دیتا ہے صحافی لفافے لیتے ہیں، لیتے ہوں گے یہاں کون سا بلھے شاہؒ اور شاہ لطیفؒ صحافت کرتے ہیں
اچھے برے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہوتے ہیں شعبہ صحافت اور دوسرے شعبوں میں بھی ہوں گے ۔
یہاں حال یہ ہے کہ (ن) لیگ پر تنقید کرو تو پھاڑ کھانے کو آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی پر تنقید کا مطلب یہ ہے کہ آپ ضیاء الحقی رجیم سے تعلق رکھتے ہیں خود پی پی پی چاہے تو بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی تقسیم کرنے والے اقبال حیدر کو قانون و پارلیمانی امور کا وزیر بنالے ۔
آج کل کائنات کی سب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت پی ٹی آئی سمجھی ہی کیا جارہی ہے بلکہ اس میں موجود سابق پپلوں کا بس نہیں چلتا وہ اپنے قائد کی طرح ہر اس شخص کو ’’دائرہ‘‘ سے خارج کردیں جو ان کا مخالف ہو۔
ویسے سبھی ایک جیسے ہیں کوئی فرق نہیں ان میں۔ چند برس ہوتے ہیں پی ٹی ایم پر دو تحریریں لکھنے کی غلطی کی تھی پی ٹی ایم کے حامیوں نے جو کہنا تھا سو کہا وہ اسلام آباد میں بیٹھا این جی او ز کا راتب خور ٹولے والے بھی زبان درازی پر اتر آیا ۔ بھلا ہو اسفند یار ولی خان اور افراسیاب خٹک کا جنہوں نے کہا ’’ایک شخص جو کل تک اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی وجہ سے تمہاری آنکھوں کا تارا تھا چند سوالات پر مبنی ایک کالم لکھنے سے اسٹیبلشمنٹ کا پٹھو کیسے ہوگیا‘‘۔
آجکل بھی یہی صورت ہے اسٹیبلشمنٹ کے عاق شدگان (جن کا خیال بلکہ دعویٰ ہے کہ ایک دھڑا اب بھی ان کے ساتھ ہے اور سابقین کے پاس ان کے علاوہ متبادل کوئی نہیں) کا خیال ہے کہ ان پر تنقید کا مطلب ہے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ہے۔
یعنی صرف اقتدار سے محرومی نے انہیں اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کی سند مہیا کردی حالانکہ ابھی چند دن قبل عمران خان کہہ رہے تھے مجھے تو ایجنسیوں نے بتایا فلاں چور ہے۔
ہم ایسے قلم مزدور تو برسوں سے کہہ لکھ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے بہت محنت کی اربوں روپے خرچ کئے اپنے علاوہ سب کو چور ڈاکو کہلوایا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے خوب پروپیگنڈہ کروایا۔
پھر ایک قیادت گھڑ کر میدان میں اتاری اس قیادت نے ہر شخص کو گالی دی۔ سب کو چور کہا اور جب خود پر ایسے الزامات لگے تو کہا گیا کہ یہ تو اسٹیبلشمنٹ کا پروپیگنڈہ ہے۔ ذاتی ایمانداری کا عالم ہے کہ ثاقب نثار کی معرفت اپنا غیرقانونی گھر ریگولرائز کروالیا باقی کابنی گالہ ویسے ہی ہے۔
خیر یہ ایک مثال ہے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں پر الزامات لگاتے اور انگلیاں اٹھاتے ہوئے ساعت بھر کے لئے اپنے معاملات کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے۔ 2018ء میں جب اسٹیبلشمنٹ الیکشن مینجمنٹ کے ذریعے اقتدار میں لائی اور اتحادی بھی فراہم کئے تو لالہ باجوہ کی باقی آرمی چیفس کے مقابلہ میں جمہوریت کے لئے خدمات گنواتے نہیں تھکتے تھے عمران خان۔
باتیں اور بھی ہیں کچھ مزید عرض کرنا تھا لیکن یہ سطور لکھنے کے دوران سندھ کے شہر نوشہرو فیروز سے ہمارے دوست زاہد راجپڑ کے ٹیلیفون نے دل گرفتہ کردیا
’’زاہد بتارہے تھے کہ سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور خصوصاً نوشہرہ فیروز میں متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں۔ منتخب ارکان اسمبلی دستیاب ہی نہیں تو وہ عوام کا خیال کیا کرتے۔ ڈپٹی کمشنر صاحبان صوبائی حکومت سے آنے والی امداد متاثرین کی بجائے جی ڈی اے کے رہنمائوں کو فراہم کررہے ہیں ان کے اس عمل پر احتجاج کرنے والوں کو جواب ملتا ہے ’’اوپر‘‘ سے یہی حکم ہے
یہ اوپر سے کون حکم دیتا ہے۔ کیا سندھ کی منتخب حکومت کے متوازی کوئی نظام بھی صوبے میں چلایا جارہا ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومت نے متاثرہ اضلاع میں امدادی کمیٹیاں کیوں نہیں بنائیں؟
اصولی طور پر کمیٹیاں بنائی جانی چاہئیں تھیں۔ جن اضلاع میں بلدیاتی نظام مکمل ہوچکا وہاں پارٹی اور بلدیاتی نمائندوں کی کمیٹیاں بناکر ہر ضلع میں ایک وزیر کو نگران بنادیا جاتا اور روزانہ کی بنیاد پر وزیراعلیٰ ہائوس کو رپورٹ بھجوانے کا نظام ہوتا تاکہ چیک اینڈ بیلنس بھی ہوتا اور امدادی کاموں میں مصروف لوگ دوردراز کے علاقوں میں موجود متاثرین تک پہنچ کر ان کی مدد کرتے۔
ایک ایسی حکومت جسے 2010ء کے سیلاب میں کام کرنے کا تجربہ تھا اس نے وفاقی وزارت موسمیات کے انتباہ کے بعد کیا انتظامات کئے اور سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی؟
دوسری بات وہی ہے جو بالائی سطور میں عرض کی۔ اگر کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر یا تعلقہ کا اے سی یہ کہتا ہے کہ ہمیں ’’اوپر سے حکم‘‘ ہے تو اس اوپر سے حکم کی وضاحت ہونی چاہیے کیونکہ کچھ لوگ اس ضمن میں رینجرز حکام کا اور کچھ دوسری شخصیات کا نام لے رہے ہیں۔ عمومی تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ ’’اُن‘‘ کا حکم ہے ہم مجبور ہیں یہ ’’اُن‘‘ کون ہے۔
اس سوال کا جواب وزیراعلیٰ سندھ کو دینا چاہئے اور انہیں ہی دیکھنا سمجھنا ہوگاکہ نوشہرو فیروز اور دوسرے متاثرہ علاقوں میں سیلاب متاثرہ خاندانوں کی اکثریت اب تک امداد سے محروم کیوں ہے۔
زاہد راجپڑ سمیت ہمارے سندھی دوستوں کا خیال ہے کہ سندھ کے سیلاب متاثرین کے مسائل اور اضلاع کی انتظامیہ کے ہتھکنڈوں پر اگر ہم اپنے کالم میں بات کریں گے تو یقیناً ان کی آواز بلاول بھٹو تک پہنچے گی۔ خدا کرے ان کی خوش گمانی قائم رہے ورنہ ہمیں تو ملتان اور لاہور میں پیپلزپارٹی کے ضلعی صدور تک الحمدللہ نہیں جانتے، اعلیٰ قیادت کیا جانتی ہوگی ، ویسے بھی کبھی کسی غلط فہمی میں نہیں رہا۔ مزدور آدمی ہوں حرف جوڑتا ہوں روزی روٹی کا بندوبست روزانہ کی بنیاد پر کرتا ہوں۔ یقین کیجئے کہ اگر کسی دن اس ساری محنت کا حق خدمت عرض کردوں تو آپ حیران ہوں گے اور صحافیوں کو لفافہ خور کہنے والے دانے بینے بھی ۔
چلیں ان کی بات چھوڑیں یہ الزام باز ہر جماعت نے پال پوس رکھے ہیں۔ ایک وقت تھا جب جماعت اسلامی پر تنقید سیدھا اشتراکیت کا چیلہ ہونا قرار پاتی تھی۔ حکومت کسی کی بھی ہو تنقید کرکے دیکھ لیجئے سیدھے ملک دشمن قرار دیئے جائیں گے۔ معاف کیجئے، چند حالیہ باتوں سے دل برداشتہ ہوں اس لئے کچھ سخت الفاظ کے ساتھ حال دل لکھ بیٹھا۔
ویسے مسلم لیگ (ن) کا سوشل میڈیا سیل اقتدار کے برسوں میں کن فنڈز سے چلتا تھا؟ کتنے پیسے انہوں نے اپنے دور حکومت میں مجھے بھجوائے۔ یہی سوال تحریک انصاف کے دوستوں سے بھی ہے کیا یہ قلم مزدور آپ کے میڈیا سیل کا ملازم تھا؟ کچھ رقم عنایت کی تو بتایئے۔ پیپلز پارٹی والوں نے کچھ مال پانی دیا ہے تو کرلیں حساب ہم حاضر ہیں
ویسے الزامات کا کیا ہے ایسا ہی ایک الزاماتی قصہ سن لیجئے، یار لوگ برسوں بلکہ عشروں تک مکتب امامیہ سے تعلق کی وجہ سے ہمیں ایرانی ایجنٹ قرار دیتے لکھتے رہے۔ ایک بار ہم نے یوم القدس پر کچھ سوالات اٹھاتے ہوئے پوچھا ہم پاکستانیوں کی اسرائیل سے براہ راست لڑائی کیا ہے۔ کیوں ہر سال القدس ریلیوں پر کروڑوں روپے پھونکے جاتے ہیں ان پیسوں سے مستحقین کی مدد کے لئے چھوٹے صنعتی ادارے اور تعلیمی ادارے کیوں نہیں بنائے جاتے؟
یہ سوال کیا لکھے قیامت برپا ہوگئی بیس تیس برسوں سے ذاتی شناسائی رکھنے والوں نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر ہمیں اور ہمارے ایک دوست ملک قمر عباس اعوان کو اسرائیلی ایجنٹ قرار دے دیا۔
اس پر ہم نے ملک قمر سے ہنستے ہئے کہا یار ان انقلابیوں سے پچھلے 35سال کے وہ پیسے تو لے دو جب کچھ لوگ ہمیں ایرانی تنخواہ دار ایجنٹ قرار دیتے تھے۔
اب بھی یہ عرض ہے بھیا اگر کسی کے پاس (ن) لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ سے لفافہ وصول کرنے کا ثبوت ہے تو سامنے لائے ہم ہر سزا بھگتنے کو تیار ہیں اس سے زیادہ کیا عرض کروں۔
ایک دو باتیں ذہن میں ہی لکھوں تو میرے وہ دوست ناراض ہوتے ہیں جن کا خیال ہے کہ خدا کے بعد پاکستان کا سہارا عمران خان ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ