گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریا او دریا پانڑیں تیڈے ڈونگے۔۔
ایس ایس جھلم کی یادیں ۔۔
تہذیب سے تمدن تک کا سفر 4
ملتان جانے کے لیے صبح چھ بجے ایس ایس جھلم بیٹھتے شام دریا خان پہنچتے اور وہاں سے ٹرین صبح ملتان پہنچاتی آجکل یہ سفر تین چار گھنٹے کا ہے۔
اس سفر کا دلچسپ پہلو SS Jhelum جھاز تھا جو دریا خان اور ڈیرہ کے درمیان دریاۓ سندھ کے بیس کلو میٹر فاصلے کو طے کرتے پورا دن لگا دیتا۔ اس جھاذ کے نچلے عرشے میں مال مویشی ساز وسامان اور کچھ لوگ ہوتے اور اوپر والے عرشے میں مسافر۔ کبھی کبھی اوپر والے عرشے میں بارات جا رہی ھوتی تھی تو گانے واے ڈھول والے اورجھومر ڈانس والے بھی اپنے فن سے محظوظ کرتے۔ جہاذ جب روانہ ہوتا تو ایک خلاصی سب سے آگے جہاز کی دیوار والی جگہ بیٹھتا اور ایک لمبی لکڑی سے دریا کی گہرائ کا ناپ کرتا اور جانو کپتان کو بتاتا۔۔۔چھ فُٹا۔سات فٹا۔آٹھ فٹا۔ آواز اتنی بلند ہوتی کہ سب کو سنائی دیتی اور چونکہ جہاز پانی کی ایک خاص گہرائ میں تیر سکتا تھا اگر پانی کم ہوتا تو رُک جاتا اور پھر گہرے پانی کی طرف موڑ دیا جاتا۔ جانو کپتان ایک تجربہ کار ڈرائیور تھا اور وہ دریاکی لہروں کے رُخ کو خوب جانتا تھا۔
جب جہاز دریا کے کنارے سے روانہ ھوتا تو ایک خاص قسم کا ہارن بجاتا جسے ہم کُوک کہتے تھے جو سارے شھر کو سنائ دیتا اور دل کو بھاتا تھا کہ اب جہاذ روانہ ہورہا ھے پیارے گلے مل رھے ہیں اور جدائی کا وقت شروع ہو گیا ۔بعض بچوں عورتوں کی آنکھیں نمناک ہوتی کیونکہ اُس زمانے میں جدائی کافی لمبی ہوتی تھی۔
کبھی کبھی جہاز دریا کے بیچ ریت میں پھنس جاتا تو خاص قسم کا SOS ہارن بجاتا۔پھر لانچیں اور خلاصی وہاں روانہ ہوتے اور جہاز کو نکال لیتے۔ کبھی یہ جہاز کئ دن پھنسا رہتا اور مسافر بھی وہیں رات گزارتے۔اوپر والے عرشے میں ایک کچن تھا جھاں دال روٹی بھی مل جاتی تھی۔اُس وقت بھوک میں وہ روٹی دال فائیو سٹار ہوٹل سے کم نہ تھی۔شام کو ہم دریا خان پہنچتے ۔ایس ایس جہلم کی مختصر تاریخ یہ ھے کہ پہلی جنگ عظیم میں یہ انگریزوں کے لئے یو کے میں ایک موبائیل ڈسپنسری کے طور پر استعمال ھو رہا تھا۔ زخمی فوجیوں کو لانے کے علاوہ علاج کا بھی انتظام جہاز کے اندر تھا۔ پھر جنگ کے خاتمے کے بعد پھرتے پھراتے یہ ہندوستان کے پنجاب صوبے کو ملا۔ کیونکہ یہاں انگریزوں کی حکومت تھی۔1935میں اس جہاز کو سرحد حکومت جو اب Kpk ھے نے پنجاب سے خرید لیا۔ یہ جہاز 150 فٹ لمبا اور 33 فٹ چوڑا تھا۔ 451 ٹن وزنی اس جہاز میں 960 ہارس پاور کا انجن تھا۔ یہ ساز و سامان کے ساتھ 500 مسافروں کو لے جاتا تھا اور گاڑیاں ۔جانور بھی اس کے سب سےنچلے عرشے میں آتے جاتے تھے۔
ایک دفعہ ایس ایس جھلم کو آگ بھی لگی تھی جب یہ خالی کھڑا تھا مگر پھرمرمت کر کے پینٹ کر دیا گیا۔ جب ڈیرہ دریا خان پل بن گیا تو یوں سمجھیں یہ جہاز ریٹائر ہو کے کنارے پر لنگر انداز ہو گیا۔ لوگ شام کو اس جہاز پر بیٹھتے اور ایک ہوٹل کی طرح چاۓ پیتے۔ ایس ایس جہلم ڈیرہ کی ثقافت کا حصہ تھا اور لوگوں کو اس سے بے حد پیار تھا۔ نہ جانے کیا ہوا کہ ایک رات آندھی اور بارش آئی تو ہمارا یہ Titanic پانی میں ڈوب گیا۔لیکن اس کا اوپر والا عرشہ نظر آ رہا تھا۔ ارباب اختیار کی کوئی مصلحت تھی کہ اسے نکالنے کی کوئ کوشش نہیں کی اور وہ ریت کے نیچے دفن ھو گیا۔ڈیرہ کا بھی کوئی ولی وارث نہ تھا جو کچھ کرتا بس ہمارے آنسو اسے آہستہ آہستہ ڈوبتا دیکھتے رھے۔ ہم کیسے لوگ ہیں کہ اپنی تاریخ۔اپنی ثقافت۔اور محبت کو اپنی آنکھوں سے ڈوبتے دیکھتے رھے اور ہاتھ بڑھا کر نکالنے کی کوشش تک نہیں کی۔
اب میری انتظامیہ سے درخواست ہے کہ ٹاون ہال میں نیے بننے والے میوزیم میں اینٹوں سیمنٹ سے ایس ایس جہلم کا ماڈل بنا کے اس کو ریسٹورینٹ کا درجہ دیں تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چل سکے کبھی اس قسم کا جہاز دریا میں چلا کرتا تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر