دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ننھِی بچی کی چیخ: نہ کر چاچا نہ کر!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

مجھے تب پتہ چلا جب میرے شوہر نے مجھے کہا کہ گڑیا کو دیکھ لو، اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ میں نے دیکھا تو مجھے سمجھ آ گئی کہ وہ چاچے کے کمرے میں خون میں لت پت کیوں پڑی تھی؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خون میں لت پت جسم، ڈوبتی نبض، کراہتی آواز، آنکھوں میں آنسو، امی امی پکارتی چھ سالہ بچی!
”ڈاکٹر جلدی آئیے، بچی کی حالت نازک ہے، خون تیزی سے خارج ہو رہا ہے“
اس طرح کی کال آئے تو وقت اتنا ہی ہوتا ہے کہ پاؤں میں جوتا پہنو اور بھاگو۔

بچی کی حالت نازک تھی اور ٹانگوں کے بیچ اس قدر خون بہہ رہا تھا کہ معائنہ کرنا مشکل۔
”بچی کو آپریشن تھیٹر منتقل کیجیے، خون کی تین چار بوتلیں“
آخر بچی کو ہوا کیا؟ ہم نے بچی کے گرد کھڑی دو عورتوں اور ایک مرد سے پوچھا۔

”وہ جی سائیکل چلا رہی تھی گلی میں، گر گئی۔ دیکھا تو خون بہہ رہا تھا۔ شاید سائیکل کا ہینڈل لگ گیا کہیں“

عمر رسیدہ عورت تیزی سے بولی۔
”آپ کون؟“ ہم نے پوچھا۔
”جی میں دادی۔“
جواں عمر عورت کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ منہ پر آنسوؤں کی لکیریں نمایاں تھیں۔
”ڈاکٹر صاحب میری بچی ٹھیک ہو جائے گی نا؟“ اس نے ملتجیانہ لہجے میں پوچھا۔
”خدا سے امید رکھیں“ ہم نے کہا۔
مرد بالکل خاموش تھا۔

بچی کو بے ہوش کیا جا چکا تھا۔ دونوں طرف ننھے ننھے ہاتھوں میں خون کی نالیاں بچی کو زندگی کی طرف کھینچ رہی تھی۔

خون کسی پر نالے کی طرح ویجائنا سے بہہ رہا تھا۔
”یہ چوٹ اور سائیکل کے ہینڈل سے؟ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے“ ہم بڑبڑائے۔
”سسٹر، یہ اوزار بچی کی ویجائنا کے اندر نہیں جا سکتے۔ مجھے چھوٹے اوزار دیجیے“
”جی ڈاکٹر“

ویجائنا کے باہر والا کٹا پھٹاحصہ سوج چکا تھا۔ خون کے بہاؤ کو صاف کرتے کرتے ویجائنا کے اندر اوزار داخل کیے۔ ویجائنا کی گہرائی میں ایک لمبا گہرا شگاف جیسا زخم نظر آیا جس کی تہہ سے خون ابل رہا تھا۔

” سائیکل کا ہینڈل اتنی گہرائی میں کیسے جا پہنچا؟“ ہم نے سوچا۔
” ڈاکٹر، یہ کچھ فشی فشی ہے“ ہماری اسسٹنٹ بولی۔
”کچھ نہیں، سارا فشی ہے“ نرس جس کی عمر آپریشن تھیٹر میں گزری تھی، بولی۔

” آپ دونوں صحیح کہتی ہیں، میرا بھی یہی خیال ہے، لیکن فش نہیں مگر مچھ“ ہماری آواز بھرا گئی۔ چھ سالہ بیٹی چھم سے آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ یا اللہ یہ تو میری بیٹی کی ہم عمر ہے۔ کیا میری بچی بھی۔ نہیں، نہیں، نہیں۔

اور کہیں قریب سے شوہر کی بات کان میں گونجی، بچی کو کبھی کسی بہن بھائی کے گھر نہیں چھوڑنا۔

ہم نے آنسو پی لیے، بچی کی جان بچانا تھی۔ سب سے چھوٹی سوئی اور پتلے دھاگہ سے چھ سالہ بچی کی ویجائنا کو اس گہرائی میں جس مشکل سے ہم نے سیا، وہ بس ہم ہی جانتے ہیں۔ جہاں سے ٹانکہ بھرتے، اکھڑ جاتا، سوجن بھرے عضلات دھاگہ کیسے پکڑتے۔

خیر یہ ایک جنگ تھی جو ہم نے لڑی۔ سلائی ختم کرنے کے بعد بھی کچھ نہ کچھ خون رس رہا تھا۔ اس کو ایک سپونج سے پیک کر دیا۔ اب ویجائنا کے باہر سلائی کرنا تھی، پیشاب والی جگہ بھی متاثر تھی۔

آپریشن ختم ہوا۔ ہم نے سسٹر سے کہا کہ بچی کی ماں کو آپریشن تھیٹر کے اندر بنے ڈاکٹروں کے کمرے میں لے کر آئے۔

ڈری سہمی، سسکیاں بھرتی، چوبیس پچیس سالہ ماں ہمارے سامنے بیٹھی تھی۔

”وہ جی اس کا شوہر اور ساس اسے اندر آنے نہیں دے رہے تھے۔ بضد تھے کہ وہ بھی ساتھ آئیں گے۔ میں نے کہا کہ نہیں صرف ماں جائے گی“

نرس کہانی سنا رہی تھی۔
”کیا نام ہے تمہارا“ ہم نے بچی کی ماں سے پوچھا۔
”شگفتہ جی“ وہ ڈری ڈری آواز میں بولی۔
”شگفتہ، کیا ہوا تھا بچی کو؟“
”جی وہ۔ سائیکل، سائیکل سے گر گئی تھی“
”دیکھو شگفتہ میں جان چکی ہوں کہ سائیکل محض بہانہ ہے، اصل بات بتاؤ“
”ایسا ہی ہوا ہے جی، قسم لے لیجیے“ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

” دیکھو، تم نہیں بتاؤ گی تو میں ابھی پولیس کو بلا لیتی ہوں“ ہم نے سختی سے کہا۔
سسکیاں چیخوں میں بدل گئیں۔

”ڈاکٹر اسے بچا لو میری معصوم بچی، میری بیٹی۔ ڈاکٹر اسے بچا لو، وہ کہتے ہیں کہ زبان کھولی تو طلاق دے کر نکال دیں گے۔ میں کہاں جاؤں گی؟“
”کون نکال دے گا؟ کون کہتا ہے؟“ ہم نے پوچھا۔

”میری ساس اور شوہر۔ کہتے ہیں جوان خون ہے، غلطی کر بیٹھا۔ اب کیا اسے جیل کرواؤ گی؟“ وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولی۔

”کون؟ کس نے غلطی کی؟“
”میرا دیور، اس کا چاچا“
وہ ابھی بھی زارو قطار رو رہی تھی

”چاچا۔ مطلب یہ کہ سگا چاچا۔“
ہم نے ہکلاتے ہوئے کہا
”جی سگا چاچا“
”کتنی عمر ہے اس کی؟“

”اٹھارہ سال“
”اور یہ سب کیسے ہوا؟“

” میں تو سارا دن باورچی خانہ نبٹاتی ہوں۔ یہ صحن میں کھیل رہی تھی۔ وہ اسے اپنے ساتھ چھت پہ بنے کمرے میں لے گیا۔ جب بچی کی حالت خراب ہوئی تو اپنی ماں کو پکارنے لگا۔

مجھے تب پتہ چلا جب میرے شوہر نے مجھے کہا کہ گڑیا کو دیکھ لو، اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ میں نے دیکھا تو مجھے سمجھ آ گئی کہ وہ چاچے کے کمرے میں خون میں لت پت کیوں پڑی تھی؟

دادی اور چاچے کی تو مرضی ہی نہیں تھی کہ بچی کو ہسپتال لے کر جائیں۔ دادی کہہ رہی تھی، دائی بلاتی ہوں، ٹھیک کر دے گی۔ میں اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر گڑگڑائی، خدا کے لیے بچی مر جائے گی، اسے ہسپتال لے چلو۔ باپ کا دل نرم پڑ گیا لیکن مجھ سے ماں بیٹے نے وعدہ لیا کہ میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔ اگر بتایا تو مجھے بچے چھین کر طلاق دے دی جائے گی۔

ساس بار بار میرے شوہر کو کہہ رہی ہے کہ بچہ ہے غلطی ہو گئی۔ تمہارا چھوٹا بھائی ہے، تم اس کے باپ کی جگہ ہو، تمہیں ہی اس کا بھی خیال رکھنا ہے۔ پھر خاندان کی عزت کو بھی بٹہ تو نہیں لگا سکتے نا۔ بچی ٹھیک ہو کر بھول بھال جائے گی۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔

اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟ اگر آپ کے کہنے پہ تھانہ کچہری کرتی ہوں تو طلاق مل جائے گی۔ بچے اگر حاصل کر بھی لوں تو لے کر کہاں جاؤں گی۔ ماں باپ خود بھائیوں کے محتاج ہیں ”

اس کی آہ و بکا رکنے میں نہیں آ رہی تھی۔
ہمارے پاس کچھ سوال تھے جن کے جواب ہمیں ڈھونڈنا تھے۔
اگر باپ ہسپتال لے کر نہ آتا تو؟

اگر یہ بچی کسی دیہاتی علاقے میں ہوتی تو؟ کون سا ہسپتال؟ کون سا آپریشن تھیٹر اور کون سی گائناکالوجسٹ؟

کیا خاندان کی عزت بچی کی تکلیف اور نقصان سے بڑی تھی؟
کیا باپ کو بیٹی سے زیادہ بھائی پیارا تھا؟
کیا بیٹی اس واقعے کو بھول پائے گی؟
اگر بچی کے باپ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟
سوچیے!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author