رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام تو ضرور ہوگا‘مگر اس سے دنیا میں بسنے والے‘ باشعور اور سوچ سمجھ رکھنے والے انسانوں کے ذہن میں ہمارے بارے میں جو تصورات پیدا ہوئے ہیں اورجو ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنے بارے میں پھیلا رہے ہیں‘ وہ کچھ خوشگوار نہیں۔ وہ زمانے گئے جب معاشرے اور ریاستیں دیواریں اونچی کرکے اور حقائق پر قدغن لگا کر ”سب اچھا ہے‘‘ کا کامیابی سے پروپیگنڈا کرتی تھیں۔ تب بھی باہر اور اندر کی خبر رکھنے والے پتا کرہی لیتے تھے کہ کس کے ساتھ کیا بیتی؟ جمہوریت کا پانی کتنا گہرا ہے ؟ انسانی حقوق کی حفاظت کن ہاتھوں میں ہے اور وہ اپنا فرض کیسے نبھارہے ہیں ؟ غیر جمہوری سوچ جہاں کہیں جمہوریت کا سنہری لبادہ اوڑھتی اور انسان دوستی کے نام پر کوئی کھیل کھیلتی تو وقت کے ساتھ ساتھ پردہ چاک کرنے والے اپنا کام دکھاتے رہے۔
ہمارا قومی وجود دو ر ِجدید کی پیداوار ہے‘ اور جدید سماجی اور سیاسی تحریکوں کا مرہونِ منت ہے‘ جن کا بنیادی فلسفہ برابری‘ آزادی‘ بھائی چارہ‘ امن اور احترامِ آدمیت ہے۔ خود ہی سوچیں اگر آزادی اور برابری کے نظریات کو تسلیم نہ کیا جاتا تو ہم کیسے ایک آزاد ریاست کے طور پر اس خطے میں اپنی موجودہ حیثیت منوا سکتے تھے؟ ایک قوم‘ ایک ریاست دورِ جدید کے افکار کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ ملک بنانے اور آزادی حاصل کرنے والے اکابرین نے اس جذبے کے ساتھ جدوجہد کی‘ کچھ خوابوں کو آنکھوں میں سجا کر آگے بڑھتے رہنے کا راستہ اپنایا اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں نے لاکھوں کی تعداد میں قربانیاں دیں‘ گھر بار چھوڑا‘ نئی بستی کو بسانے کے لیے مہاجر بنے۔ مگر آہستہ آہستہ وہ آزادیاں‘ جو ہمارے وجود کا جواز تھیں‘ شام کے دھندلکے سایوں کی طرح غائب ہونا شروع ہوگئیں۔ اہلِ فکر اور اہلِ دانش سوچ میں پڑ گئے کہ کیا یہ وہی صبحِ بہار ہے جس کے انتظار میں بر صغیر کے طول و عرض سے قافلے نکلے تھے؟ تاریخ کہتی ہے کہ تقریباً دس لاکھ انسانوں کا خون بہا۔ انسانی خون اور لاشوں کو مذاہب کے خانوں میں تقسیم کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ سب اسی دھرتی کے بیٹے‘ ایک خدا کی زمین‘ ایک خدا کی مخلوق اور ایک انسانی رشتے میں بندھے تھے۔ آزادی اور برابری کو آپ کسی نظریے اور فلسفے کی بنیاد پر تقسیم نہیں کر سکتے۔ ہمارے قائد نے تو واضح اور واشگاف اور اپنے وجود کی طاقت سے کہیں زیادہ بلند آواز میں کہا تھا کہ ”اب آپ ایک ریاست کے شہری ہیں‘‘۔ کاش ہمارے حکمرانوں اور سیاسی لشکروں اور جتھوں کے ڈنڈا برداروں نے بھی شہریت کے فلسفے کے بارے میں کچھ پڑھا ہوتا۔ ہم خود تو اس قابل نہیں کہ اس بارے میں کچھ زیادہ کہہ سکیں‘ مگر اتنا ضرور پتا ہے کہ شہری ہونے کے لیے بنیادی انسانی حقوق ایسے ہی لازم ہیں جیسے زندگی کے لیے آکسیجن۔ آزادی اور احترامِ آدمیت‘ جن کی آج جمہوریت کے نام پر دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں‘ اگر عوام کے کسی حصے‘ طبقے‘ گروہ‘ افراد اور علاقے کے لوگوں کو میسر نہ ہوں تو دوسروں کے لیے بھی ان کی اہمیت اور چاشنی ختم ہوجاتی ہے۔ آج کل تو کچھ بھی چھپ نہیں سکتا۔ مشرق و مغرب کے فاصلے مٹ چکے۔ درحقیقت آمریت کو سائنس کے ہاتھوں کاری ضرب لگی ہے۔ فون‘ ٹیلی وژن‘ انٹر نیٹ کی بدولت پیغام‘ تصویریں اور وڈیوز اب سمندر کی موجوں کی طرح ریاست کے فرمانوں کے پابند نہیں۔ جو کچھ ہمارے ملک میں ایک عرصہ‘ بلکہ کئی عشروں سے لوٹ مار‘ قتل و غارت‘ انتہا پسندی‘ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی‘ عورتوں کے ساتھ ہمارے معاشرے اور ریاست کا سلوک روا رکھا گیا ہے‘ اس کی وجہ سے ہمارا نام قابلِ احترام فہرست میں نہیں رہا۔ اگر کہیں ہے تو بہت نیچے کسی افسوس ناک سطح پر۔
آج کے دور میں دعوے کام نہیں آتے‘ نہ لمبی تقریریں۔ جو کچھ آپ کرتے ہیں‘ وہ دنیا کے سامنے دیواریں پھلانگ کر آجاتا ہے۔ آپ کچھ کہتے ہیں کہ ہم کتنے اچھے ہیں‘ ہمارا فلسفۂ حیات کتنا اعلیٰ اور ہماری تاریخی روایات کتنی روشن ہیں‘ لیکن آج کی دنیا آج کے دن کے حوالے سے پرکھتی‘جانتی اور ہمارے یا کسی دوسرے ملک کے بارے میں رائے قائم کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے کئی کمالات دکھائے ہیں مگر اس کا اعتراف اور تعریف انسانی ترقی کی حد تک ہے‘مساوات کا سوچتے ہیں تو دل گھبرا جاتا ہے۔ اس نظام میں مارکیٹ کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی آپ دنیا کے کسی حصے میں ٹیلی وژن پر نظر ڈالیں تو اشتہار بازی ہو رہی ہوتی ہے۔ کیا نمائشی جلوے دکھائی دیتے ہیں۔ کیسے ڈبوں اور بوتلوں میں بند اشیا کے گن گائے جاتے ہیں۔ مقصد اچھا‘ بہتر اور مفید ثابت کرنا ہوتا ہے۔ دنیا کے ممالک کے درمیان بھی ایک مسابقت کا ماحول ہے جو عالمی منڈی میں دکھائی دیتا ہے۔ وطنِ عزیز کے بارے میں تو کبھی کہیں اشتہار نہیں دیکھا۔ بہت سے ملکوں کے بارے میں کیسے کیسے تفریحی مقامات‘ صاف ستھرے گائوں‘ بلند وبالا عمارتوں اور روشن شہروں کے بارے میں دکھایا جاتا ہے تاکہ دوسرے ممالک کے لوگ سیاحت کے لیے وہاں کا سفر کریں۔ ان کے ثقافتی رنگوں سے لطف اندوز ہوں اور ملک میں سرمایہ کاری کریں۔ جدید دنیا کی گاڑی اور اس کا معاشی پہیہ اچھی شہرت سے چلتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر کون یہاں کا سفر کرے گا۔ پھر ہم سرمایہ کاری کے لیے بھی منتیں کریں گے۔ کچھ سرمایہ ریاست کے بینک میں رکھوانے کے لیے کسی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانا ہوگا؛ چنانچہ ہم یہی کچھ کر رہے ہیں۔ مگر وہ مکروہ حرکات‘ جن کے ارتکاب سے ہم نے وطنِ عزیز کی شہرت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے‘ وہ بھی دھڑلے سے جاری ہیں۔ خود ہی سوچیں ہم اس گڑھے سے کیسے نکل پائیں گے؟
پرانی خبروں کو چھوڑیں‘ ہم دہراتے ہیں تو ہمارے دل کے پرانے زخم بھی برسات کے شگوفوں کی طرح ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔ آج کل کے سیاسی موسم میں عوامی لیگ اور برابری کا مقدمہ لڑنے والے مشرقی پاکستان کے لوگ پتا نہیں کیوں یاد آرہے ہیں۔ کوئی وجہ تو ہو گی‘ ہم آپ کو اب کیا بتائیں۔ اس وقت بھی یہاں کے جمہوریت پسند عوامی رہنما تھے جنہوں نے اکثریت کو اقتدار سے محروم رکھا تھا۔ نتیجہ کیا نکلا اور بدنام کون ہوا؟خون کے دھبے ابھی تک دھل نہیں سکے۔ چالبازیاں‘ خرید و فروخت کی منڈیاں‘ سیاسی وفاداریوں کا اچانک بدل جانا‘ آپ اس پر سونے کا پانی چڑھائیں‘ اندر کی کالی دھات چھپنے سے رہی۔ یہاں پر بولنے اور لکھنے کی آزادیاں تو ہیں مگر سب کیلئے نہیں۔ سیاسی کھیل پر تبصرے صرف لپٹے‘ ملفوف انداز میں کر بھی لیں تو خوف رہتا ہے۔ پولیس کی حوالگی میں کچھ صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی ساتھ جس سلوک کی داستانیں پڑھ اور سن رہے ہیں‘اس سے اصغر خان کا جملہ زبردست جھٹکے کے ساتھ ذہن کو بیدار کردیتا ہے: ”ہم نے تاریخ سے سبق سیکھا نہیں‘‘۔
عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم ہو چکا‘ غداری کے الزامات اس کے علاوہ ہیں‘مگر ان کی جماعت ملک کی سب سے بڑی زمینی‘ سیاسی اور تاریخی حقیقت ہے۔ آج کل دنیا میں بہت چرچا ہے‘ واقعات کا‘ شخصیات کا‘کچھ تصویروں‘ زخموں اور انصاف کے پیمانوں کا۔ نام‘عزت‘شہرت حکمرانوں کی ضرورت نہ ہوں‘ ہمارے قومی اور ریاستی وجود کیلئے لازم ہیں۔ اور دنیا کے ساتھ انسانی قدروں کے ساتھ جینے کیلئے بھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر