فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بجا کہ کسی بھی مشکل میں انسان، انسان کے کام آتا ہے مگر یہ کیا کہ فلاحی سرگرمی کی سیاسی تشہیر کی جاۓ اور کسی بھی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے بعد انتخابات میں اپنی فلاحی سرگرمی کو جواز بنا کر اس ضرورت مند کے سیاسی فیصلے کو اپنے قابو میں لے لیا جاۓ۔بد قسمتی ہے کہ ہمارے تونسہ میں ایسے لوگ اب انتخابات کی جانب آ رہے ہیں جو مختلف تنظیموں سے چندہ اور امداد موصول کرنے اور بانٹنے کے بعد انتخابات کے میدان میں اتر کر اپنی امداد کے بدلے ووٹ پانے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔
ان امدادی تقسیم کنندگان کی زمین جائیداد تو بکتی کسی نے نہیں دیکھی اور نہ ہی کسی نے انکے کاروبار میں گھاٹے کی نشاندہی کی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ امداد اپنی جیب سے دیے جا رہے ہیں یا پھر کسی اور سےامداد لے کر اپنے تقسیم کنندہ کی ذمہ داری کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اس ضمن میں ہمارے ہاں دو قسم کے رانگ نمبرز کی بھرمار نظر آتی ہے۔
ایک وہ جو کسی اور سے لی گئ امداد کےتقسیم کار ہیں۔
دوسرے وہ جو اپنی زکوات اور عشرکے بل بوتے پر ووٹ کے خواہشمند ہیں۔
احباب!
ووٹ ایک سیاسی عمل ہے جبکہ امداد اور زکوات کے مقدس فریضے کا سیاسی استمال نہ صرف سیاسی اعتبار سے غلط ہے بلکہ مذہبی اعتبار سے بھی اسکی کوئ دلیل نہیں۔اس مذہب کے پیروکار جنہیں یہ بتایا گیا ہے کہ امداد یوں کرو کہ ایک ہاتھ کی بات دوسرے ہاتھ تک نہ جاۓ وہاں لسٹیں بنا کر امداد دی جاۓ اور پھر ووٹ طلبی کا اظہار کیا جاۓ تو سوچئیے نتائج کیا ہوں گے؟
یہ چلن معاشرے کی تباہی کا کارن ہو گا کہ یہ چلن افراد کو بھیک پر پلنے کی ترغیب جیسا عمل ہے۔یہ عمل کسی فرد کو کچھ وقت کے لیے تو فائدہ پہنچا سکتا ہے مگر اسکا اختتام ڈبل شاہ کے اختتام سے مختلف ہو، یہ مشکل دکھتا ہے۔
ایسے رانگ نمبرز سے پرہیز کیجئیے، یہ آپکا اخلاقی و سیاسی فریضہ ہے کیونکہ صحت مند معاشرہ اس چلن کا اہل نہیں ہو سکتا کہ اس چلن کا اختتام نا اہلوں کی بڑھوتری کے کہیں منتحج نہیں ہونے لگا اور پہلے مرحلے میں تقسیم کنندگان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں نظر آ رہا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں یہاں وہ نسل پیدا ہو چلے گی جسکا روزگار یہ ہو گا کہ وہ بیروزگار ہیں۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی