نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شام کی سلامتی اور ترکی کا کردار، دمشق ڈائری(4)|| نادر بلوچ

نادر عباس اسلام آباد میں ہم نیوز سے وابستہ ہیں ،نادر عباس وقتاًفوقتاً مختلف موضوعات پر قلم اٹھاتے رہتے ہیں، انکی تحریریں خاص طورپر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نادر بلوچ

Twitter:@BalochNadir5

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تحریر: نادر بلوچ

راقم نے دراالحکومت دمشق اور اس کے اطراف کے تاریخی و زیارتی مقامات کے وزٹ کیے ہیں، یوں کہیے کہ ایک ہفتہ مصروف ترین گزرا، لبنان اسرائیل بارڈر کے قریب حضرت ہابیل کی قبر ہو یا ہزاروں فٹ بلندی پر واقع مقام اربعین سب جگہوں پر گئے اور مشاہدہ کیا۔ مقام اربعین یعنی وہ مقام جہاں پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت خضر علیہ السلام سمیت چالیس انبیائے کرام کی ایک ہی مصلیٰ پر عبادت کرنا منسوب ہے۔ اس بلند ترین مقام سے دمشق شہر کا خوبصورت نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ دمشق کو دو حصوں میں بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک وہ جو چمکتا دمکتا دمشق ہے اور دوسرا وہ جو دہشتگردوں کی بھینٹ چڑھا ہے، جہاں تباہی ہی تباہی ہے، کثیر المنزلہ عمارتیں ملبے کا ڈھیر نظر آتی ہیں، مقام حضرت حجر بن عدی کا مزار مبارک بھی اسی مقام پر واقع ہے، خود حضرت حجر بن عدی کا مزار بھی دہشت گردوں سے محفوظ نہیں رہا اور گنبد مبارک کو نقصان پہنچایا گیا۔

وزٹ کے دوران دمشق یونیورسٹی بھی جانے کا اتفاق ہوا، یہاں کا ماحول اچھا خاصا لبرل ہے، طلبہ کو لباس کے معاملے میں کوئی روٹوک نہیں ہے، طلبہ ملکی حالات پر بات کرتے ہوئے اچھے خاصے محتاط دکھائی دیتے ہیں، لفظوں کے انتخاب میں اچھے خاصے سفارت کار نظر آتے ہیں، ایک طالب سے ملکی حالات بارے استفسار کیا تو جواب ملا کہ ہمارے ملک کے حالات خراب کرنے میں ہمارا اپنا بھی کردار ہے، بعد میں غیر ملکی ہاتھ دیکھ سکتے ہیں، آج اس کی قیمت بھی ہم ہی ادا کر رہے ہیں۔ جہاز میں سفر کے دوران ایک شامی سائنسدان سے ملاقات ہوئی، جو پاکستان کے ایک ہفتے کے وزٹ پر آرہے تھے، جن کا نام محمد المصری تھا، ان سے شام کے حالات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، محمد کے مطابق 2011ء تک ہمارے ملک پر کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں تھا، ہم اردن اور بیروت کو بجلی دیا کرتے تھے، آج نوبت یہ ہے کہ دارالحکومت دمشق میں چوبیس گھنٹوں میں فقط چند گھنٹوں کیلئے بجلی آتی ہے۔

محمد کا کہنا تھا کہ شام عالمی طاقتوں کیلئے ایک کیک کی حیثیت بن گیا ہے، ہر کوئی اپنا حصہ کاٹ کر کھانا چاہتا ہے، ترکی اپنا حصہ، روس اپنا حصہ، امریکا اپنا حصہ اور ایران اپنا حصہ لینے کا خواہش مند ہے۔ سب سے زیادہ جس نے ہمارے حالات خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہ ترکی ہے، جو آج بھی کردوں کو سپورٹ کر رہا ہے اور ہمارے تیل کو چوری کیا جا رہا ہے۔ میرے سوال پر محمد نے بتایا کہ ہمارے حالات خراب کرنے کا سب سے زیادہ بینفشری اسرائیل ہے۔ بقول محمد کے ترکی ہمارے تیس کلو میٹر کے ایریا میں اندر آچکا ہے، اب واپس جانے کا نام نہیں لے رہا، کردوں کو سپورٹ کر رہا ہے، تاکہ اپنے قبضے کو باقی رکھ سکے۔ روس کا اپنا مفاد ہے، ہمارا دفاع اب روس اور ایران کی مرہون منت ہے، اسرائیلی فضائیہ جب چاہے شام پر حملہ آور ہو جاتی ہے، ہماری داخلی سلامتی آپس کے اتحاد سے جڑی ہوئی ہے، مگر ادلب، حلب اور رقہ کے علاقے آج بھی شورش زدہ ہیں۔

دارالحکومت دمشق میں کسی بھی ہوٹل یا دکان پر جائیں تو آپ کو ہر جگہ پر بشار الاسد کی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی لوگ آج بھی بشار الاسد کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں، جنگ نے شام کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، جس کے باعث غربت، بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے، ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ اور کاروباری افراد ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں، یہی دو طبقے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتے ہیں۔ اپنے وزٹ کے دوران شام کی سب سے بڑی لائبریری اسد کا بھی وزٹ کیا، ہر موضوع پر ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں، طالب علم یہاں علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں، لائبریری سے چند قدموں کے ہی فاصلے پر کثیر المنزلہ سینما گھر ہے، جو خوبصورتی، نفاست اور معیار میں بہترین سینما ہے۔ یوں کہیے کہ تہران اور دمشق کے سینما گھروں میں فرق تلاش کرنا خاصہ مشکل ہوگا۔ دمشق جہاں سے تاریخ، ثقافت اور تہذیب نے جنم لیا، آج وہ دمشق امن کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اگر ترکی، ایران اور روس ایک پیج پر آجائیں تو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ خانہ جنگی کے شکار شامی لوگ بھی سکھ کا سانس لے سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نادر عباس اسلام آباد میں ہم نیوز سے وابستہ ہیں ،نادر عباس کو ٹوئٹر پر فالوکرنے کےلئے یہاں کلک کریں 

About The Author