نادر بلوچ
Twitter:@BalochNadir5
یقین مانیے میں گھر سے یہ عہد کرکے نکلا تھا کہ جو بھی دیکھوں گا، اسے بیان کروں گا، اس کو کیمرے کی آنکھ میں بند کروں گا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضے کی زیارت کرنے کے بعد اپنے گائیڈ سے کہا کہ مجھے قصر یزید لے چلو، مجھے اس قبرستان لے چلو، جہاں پر دیگر شخصیات بھی مدفن ہیں۔ سب کے روضے دیکھ لئے، سب کی قبریں مشاہدہ کر لیں، لیکن دو شخصیات کی قبریں یا آثار دکھائی نہیں دیئے، گائیڈ سے استفسار کیا کہ یزید ابن معاویہ اور اس کے والد کی قبریں کہاں پر ہیں۔؟ جواب ملا ڈھونڈتے ہیں، پورا قبرستان چھان مارا، مگر قبریں نہیں ملیں، دو مختلف جگہوں پر اموی خاندان اور اس سے جڑی شخصیات کی قبریں ملیں، مگر ان قبروں کو کور کرکے کمرے بنا دیئے گئے ہیں، ان کمروں پر بڑے آہنی دروازے لگا کر دو دو تالے لگا دیئے گئے ہیں۔
ایک کمرے میں یزید کے بعد حاکم بننے والے عبدالملک بن مروان اور اس کے بیٹے ولید بن عبدالملک اور کچھ نامعلوم افراد کی قبریں موجود ہیں، اس کمرے میں جھانک کر دیکھا تو چند مختلف جگہوں پر پتھر بکھرے پڑے تھے، جنہیں باقاعدہ قبروں کی شکل بھی نہیں دی گئی، اس کمرے میں موجود ان چند قبروں کو دیکھنے کیلئے بڑی دقت کرنا پڑتی ہے۔ پہلے آہنی گرل سے لٹکنا پڑا اور غور سے دیکھنا پڑا، اس کمرے سے چند ہی قدم پر ایک اور کمرہ موجود ہے، وہاں بھی صورتحال مختلف نہیں، آس پاس گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، لیکن اس کمرے پر دو آہنی دروازے اور دونوں پر بڑے تالے لگے ہوئے ہیں، آہنی دریوں اور دروازوں سے اندر کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے، اس کمرے کے داخلی دروازے پر کچھ ٹائلوں پر لکھا ہوا تھا، لیکن کسی نے پتھر مار مار کر نام کی پلیٹ کو توڑ دیا ہے، جبکہ اندر قبروں کی حالت یا کتنی قبریں موجود ہیں، نہیں دیکھ سکتے۔حالت یہ تھی میرے گائیڈ کو بھی پتہ نہیں تھا کہ یہ کن کی قبریں ہیں۔
خیر میرے اصرار پر میرا گائیڈ گوگل لوکیشن لگا کر چل پڑا کہ شائد ہم اموی حاکم حضرت امیر معاویہ کی قبر تک پہنچ جائیں، آٹھ کلومیٹر مسلسل چلتے رہے، مقامی لوگوں سے پوچھتے رہے، کئی گھنٹوں کے سفر اور شام کی تنگ اونچی نیچی گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک مقام پر پہنچے، مگر وہاں بھی ایک کمرہ ملا، جس پر تالہ لگا ہوا تھا، مگر اس جگہ پر صفائی کا اہتمام اچھا تھا، لیکن قبر یا جگہ حضرت معاویہ صغیر کی تھی، معاویہ صغیر یعنی یزید کا بیٹا جس نے فقط 40 دن حکومت سنبھالی اور کربلا میں ڈھائے جانے والے مظالم پر احتجاجاً اقتدار سے الگ ہوگیا تھا، یوں کہیے کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یزید کا بیٹا ہوتے ہوئے یہ محب اہل بیت تھا اور اسی وجہ سے اپنے والد کے اقدامات کو غلط کہا اور امام حسین ؑ کو حق پر کہا تھا۔
خیر جستجو کا عمل جاری ہے، مقامی افراد سے باپ یبٹے کی قبروں کے بارے مسلسل پوچھ رہے ہیں، لیکن میں اس جگہ پہنچ نہیں پا رہا، جبکہ آپ اہل بیت ؑ اطہار کی کسی بھی شخصیت کے بارے میں پوچھیں تو فٹ سے آپ کو متعلقہ جگہ کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے، جبکہ اموی خاندان سے متعلق کچھ نہیں بتایا جاتا اور لاعلمی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ خیر میں حیرت میں پڑ گیا ہوں کہ جس نے امت مسلمہ پر دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک حکومت کی، مگر آج اس کی قبر تک نہیں مل پا رہی اور لوگ اس حد تک لاتعلق ہوچکے ہیں۔ یہاں پر پاکستانی طالب علموں سے بھی حرم مطہر میں ملاقات ہوئی، استفسار پر انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ ساتھ طنز بھی کیا گیا کہ آپ کو کیوں ضرورت پڑ گئی وہاں جانے کی۔ خیر اس دلچسپ سفر کی مکمل الگ سے وڈیو بھی بنائی ہے، جو دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس سے پہلے اس انداز میں کسی نہیں بنائی ہوگی، باقی تفصیل اس میں آپ جان سکیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر