حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کالم کے عنوان پر حیران نہ ہوں، اسلام آباد کا مطلب تھانہ کوہسار میں سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف محمد ایس شبیر المعروف ڈاکٹر شہباز گل کے خلاف درج ہوا غداری کا مقدمہ ہے اور سوات کا مطلب، کالعدم تحریک طالبان کی واپسی ،
جبکہ پکتیکا افغانستان کا صوبہ ہے جہاں گزشتہ سے پیوستہ روز کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر اور سانحہ اے ایس پی پشاور کے ماسٹر مائنڈوں میں سے ایک عبدالولی مہمند عرف عمرخالد خراسانی ٹی ٹی پی کے دو کمانڈروں حافظ دولت خان اورکزئی ، مفتی حسن سواتی اور اپنے داماد کے ہمراہ ایک حملہ میں مارے گئے۔
ٹی ٹی پی نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کردی ہے۔ یہ واقعہ صوبہ پکتیکا کے ایک ضلع میں اس وقت پیش آیا جب خراسانی تین ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی میں سفر کررہے تھے۔
ہم ان تینوں پر بات کرتے ہیں لیکن ساعت بھر کے لئے ذرا مسلم تاریخ کی دوسری صدی میں چلتے ہیں۔
یہ وہ صدی ہے جب ابو مسلم خراسانی کی قیادت میں مشہور زمانہ علوی تحریک خراسان سے اٹھی اور اس وقت کی مسلم دنیا میں پھیل گئی۔ تحریک چلانے والوں کا مرکزی نعرہ یا بیانیہ کربلا کا بدلہ لینا اور اموی خلافت کو ختم کرکے علوی خلافت قائم کرنا تھا۔
تحریک کامیاب ہوئی البتہ علوی خلافت کی جگہ عباسی خلافت کا پرچم بلند ہوا۔ معروف وجہ جو تاریخ میں درج ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ ابو مسلم خراسانی نے امام زین العابدینؑ کے پوتے امام جعفر صادقؑ سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ خلافت سنبھال لیجئے۔
کتب تاریخ کے مطابق امام جعفر صادقؑ نے مسند خلافت سنبھالنے سے انکار کردیا یوں خلافت سرکار دو عالم حضرت احمد مرسل محمد مصطفیؐ کے چچا حضرت عباسؓ کے خانوادے میں چلی گئی۔
عباسی خلافت میں علویوں اور فاطمیوں کے ساتھ کیا ہوا یہ ایک الگ موضوع ہے۔
مسلم تاریخ کا یہ قصہ ہم ایسے طالب علموں کو ہمیشہ اس وقت یاد آتا ہے جب مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان کا کوئی سیاسی رہنما خود کو حسینیؑ قرار دیتے ہوئے مخالفین کو یزید قرار دیتا ہے لیکن اسی رہنما کا دور اقتدار عباسی خلافت جیسا ہی ہوتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ علویوں یا حسینیتؑ کے پرچم برداروں کی مظلومیت کا وارث بن کر لوگوں کے جذبات سے کھیلنے والے زمانہ اقتدار میں وہ سارے کام کرتے ہیں جو حسینیتؑ کی ضد ہیں۔
چلیئے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں امریکی گرین کارڈ ہولڈر محمد ایس شبیر ( یہ نام امریکن گرین کارڈ پر اسی ترتیب سے لکھا ہے ) ، المعروف ڈاکٹر شہباز گل سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف ہیں دو دن ادھر انہوں نے ایک نیوز چینل پر ببپر دیا تقریباً پندرہ منٹ کے اس ببپر میں انہوں نے جو کہا اس پر تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور بات اندراج مقدمہ و گرفتاری تک جاپہنچی۔
صحافت کے شعبہ کے تقریباً سارے سینئر اس بات پے متفق ہیں کہ محمد ایس شبیر / شہباز گل _ نے جو ببپر دیا وہ ایک لکھی ہوئی تحریر کو پڑھنے جیسا تھا کیونکہ اپنے مزاج اور انداز کے برعکس انہوں نے تقریباً پندرہ منٹ ٹھہر ٹھہر سنبھل سنبھل اور چباچباکر ایک ایک جملہ ارشاد کیا۔
15منٹ کے اس ببپر میں دو باتیں اہم ہیں اور وہی گرفتاری اور اندراج مقدمہ کا باعث ہوئیں ’’اولاً یہ کہ نیچے لانس نائیک سے اوپر بریگیڈیئر تک کے افسران ہمارے (یعنی پی ٹی آئی کے ہم خیال ہیں ان کے خاندان بھی (لفظ فیملیاں تھا) اوپر والوں کی فیملیاں بھی ہماری ہم خیال ہیں۔ ثانیاً یہ کہ اگر کوئی حکم جاری ہوتا ہے تو اس پر عمل کرنے کی بجائے افسروں سے کہیں کہ ہم غیرقانونی حکم نہیں مانتے‘‘۔
باقی کا بیان بھی لیروکتیر ہے لیکن یہ دو جملے ٹیپ کے بند ہیں۔ اسی پر ردعمل آیا ہے۔ مقدمہ اسی ردعمل کا حصہ ہے۔
جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں اس سے کچھ دیر قبل پنجاب کے جوڈیشل وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کا ویڈیو بیان آیا ہے ان کاکہنا ہے کہ ’’شہباز گل‘‘ کے فوج مخالف بیان پر تحریک انصاف کو ان کے ساتھ نہیں کھڑا ہونا چاہیے اور یہ کہ میں نے یبان کے بعد شہباز گل کو فون پر ڈانٹا تھا کہ یہ تم نے یہ کیا غیرذمہ دارانہ باتیں کی ہیں ۔‘‘
یہاں ساعت بھر کے لئے ایک بار پھر رکئے۔ مجھ ایسے قلم مزدور کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ کے دستور سے ماورا کردار پر تنقید کبھی کفر شرک اور غداری نہیں رہی۔
ایک آدھ دن کے وقفے سے ان سطور میں اسٹیبلشمنٹ صاف لفظوں میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ماضی و حال کے بعض معاملات اور خواہشات کی بنیاد پر تنقید کرتا رہتا ہوں۔ اس تنقید کا حق مجھے بطور شہری آئین پاکستان نے دیا ہے اسی آئین نے جس نے فرد، ریاست، محکموں اور اداروں سب کی حدود طے کردی ہیں ۔
ان طے شدہ حدودآئین سے انحراف آئین کی بالادستی سے انکار ہے اس انکار پر تنقید کسی بھی طرح جرم نہیں۔
’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کے مجاہدین کی تربیت کرنے والوں نے ان کے ذہنوں میں راسخ کردیا تھا کہ جو لوگ دستور کی بالادستی کی بات کرتے ہیں وہ ملک دشمن فوج مخالف وغیرہ وغیرہ ہیں۔
شہباز گل کے 15منٹ کا ببپر میں تحمل سے عبارت تنقید کے سوا سب کچھ ہے۔
خاموش مجاہدوں کا بھگوڑا ترجمان ہو یا سوشل میڈیائی مجاہدین وہ اس پر جو بھی کہیں کہتے رہیں لیکن سادہ ترجمہ یہ ہے کہ ملٹری انسٹیبلشمنٹ نیوٹرل کیوں ہے۔
2018ء کی طرح ہماری سرپرستی کرے ہمیں واپس اقتدار میں لائے نہیں تو وہ میر جعفر ہے میر صادق، امریکی سازش کا حصہ ہے۔
نیچے والے اوپر والوں کے احکامات نہ مانیں۔
خان سمیت آدھی تحریک انصاف نے شہباز گل کی گرفتاری کو اغوا قرار دیا فواد چودھری نے تشدد کا الزام لگایا لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج نے بھانڈا پھوڑدیا۔
فی الوقت شہباز گل دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔
اب آیئے سوات کے علاقے مٹہ (یہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا آبائی علاقہ ہے) مٹہ کے پہاڑوں پر کالعدم ٹی ٹی پی کے مسلح جنگجو آکر براجمان ہوگئے ہیں۔
چند دن قبل انہوں نے حساس ادارے کے ایک افسر اور چند اہلکاروں کو ایک ڈی ایس پی سمیت اغوا کرلیا تھا۔ (ٹی ٹی پی نے مغویوں سے اپنی تفتیش کی ویڈیوز بھی جاری کیں) بعد ازاں جرگے اور طالبان میں مذاکرات کے بعد مغویوں کو جرگے کے حوالے کردیا گیا۔
اسی علاقے میں ایک فاریسٹ آفیسر کو طالبان نے پیغام بھیجا ہے کہ تم نے جنگلات کی 4کروڑ روپے کی لکڑی فروخت کی ہے اس کا 60فیصد طالبان کو بھجوادو کچھ اور لوگوں کو بھی ایسے پیغامات ملے ہیں۔
چند دن قبل پی ٹی آئی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے قافلے پر ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں نے حملہ کیا اس میں رکن اسمبلی کے بھائی اور بھانجے سمیت متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔ رکن اسمبلی اسلام آباد میں زیرعلاج ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ایک بھی ایسا معقول ہسپتال نہیں جہاں ان کا علاج ہوسکتا۔
بھتہ خوری کی پرچیوں کا اجراء پچھلے تقریباً 10ماہ سے جاری ہے دعویداروں کا موقف ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سمیت آدھی کابینہ بھتہ دے چکی ہے۔
طالبات سوات میں واپس کیسے آئے؟ ایک جواب تو وہ ہے جو سوات کے صحافیوں اور طالبان کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو کی صورت میں سامنے آیا یعنی ’’ہم معاہدہ کے تحت اس علاقے میں واپس آئے ہیں‘‘۔ معاہدہ کس کے ساتھ ہوا کس نے اجازت دی یہ اہم سوال ہے اس کا جواب کون دے گا؟
مختصراً یہ کہ خیبر پختونخوا کی شہری زندگی میں طالبان کی مداخلت بڑھ رہی ہے کچھ پشتون دوست کہہ رہے ہیں کہ ایک منصوبے کے تحت طالبان کو چھوٹ دی گئی ہے یہ موقف رکھنے والے پی ٹی آئی کی قیادت پر انگلیاں اٹھارہے ہیں۔
وضاحت پی ٹی آئی اور خصوصاً وزیراعلیٰ محمود خان کو ہی کرنی چاہیے۔
افغانستان کے پاکستان کے قریب صوبے پکتیکا (یہ صوبہ کالعدم ٹی ٹی پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے) کے ایک علاقے میں سابق جماعت الاحرار کے سربراہ اور ٹی ٹی پی کے کمانڈر عبدالولی مہمند عرف عمر خالد خراسانی اپنی گاڑی میں موجود ٹی ٹی پی کے دو کمانڈروں اور داماد سمیت ایک حملہ میں ہلاک ہوگئے۔ خراسانی اے پی ایس پشاور اور درگاہ حضرت شہباز قلندر کے علاوہ دہشت گردی کی درجنوں بڑی چھوٹی وارداتوں کے ماسٹر مائنڈوں میں شامل تھے۔
کابل میں ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکام سے ہونے والے حالیہ مذاکرات میں وہ ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن تھے اس پر 30لاکھ امریکی ڈالر کا انعام بھی تھا۔
خراسانی اور اس کے ساتھیوں بارے تفصیل آئندہ کالم میں عرض کروں گا۔
ابھی فقط اتنا ہی عرض کرسکتا ہوں کہ سوات میں طالبان کی واپسی، پکتیکا میں خراسانی وغیرہ کی ہلاکت، جمرود میں ایف سی کی چوکی پر حملہ اور کچھ دوسرے واقعات یہ بتارہے ہیں کہ معاملات گڑبڑ ہی نہیں بلکہ خاصے گڑبڑ ہیں۔
صوبائی اور وفاقی حکومت کو کسی تاخیر کے بغیر اس صورتحال کا نوٹس لینا ہوگا ورنہ خیبر پختونخوا ایک بار پھر پچھلی دہائی کے ان برسوں کے سے حالات سے دوچار ہوجائے گا جب طالبان بجلی کے کھمبوں پر مخالفین کو پھانسیاں دیتے تھے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر