عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک بہت سے دوست جو قانون کی زبان نہیں سمجھتے بہت سے کنفیوژن کا شکار ہیں۔ کہ سپریم کورٹ میں کیا سوال اٹھائے جائیں گے اور کیا سوال اٹھایا گیا ہے۔
میں اس پورے پروسیس کو آسان فہم زبان میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
پاکستان کا آئین جیسا کہ جمہوری پارلیمانی آئین ہے۔
آئین کے اندر حکومت میں تبدیلی کا ایک طریقہ کار دیا گیا ہے ۔
اس کے مطابق حکومت یا وزیراعظم کو ہر وقت قومی اسمبلی میں اور وزیر اعلی کو ہر وقت صوبائی اسمبلی میں اپنی اکثریت کی حمایت کو قائم اور برقرار رکھنا ہے۔
اس بات کو کچھ اس طرح سمجھ لیں کہ یہ حکومت کسی ایک بادشاہ یا ایک فرد کی نہیں ہوتی یہ قومی یا صوبائی اسمبلی میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے جس کے دیئے گئے اختیارات کو کابینہ اور وزیر اعظم یا وزیر اعلی نمائندہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔
پاکستان کے آئین کے مطابق وزیراعظم یا حکومت جونہی ارکان اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو دے گی تو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اسے فارغ کیا جا سکتا ہے۔
اگر عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے اور منظور کرنے کا حق ارکان اسمبلی سے چھین لیا جائے تو یہ آئین پارلیمانی جمہوری آئین نہیں کہلائے گا ۔
عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوتے ہی سابق وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس بھیجا اور اس میں کچھ سوالات رکھے گئے۔
سپریم کورٹ کے پاس کئی طرح کی جیورسڈکشن یا اختیار سماعت ہوتا ہے۔ وہ ہمارے سول یا فوجداری عدالتی نظام کی اعلیٰ ترین عدالت اپیل بھی ہے۔
سپریم کورٹ بہت سے قانونی اور آئینی معاملات کو دیکھتی ہے یہ ایک الگ طرح کی جیورسڈکشن ہے۔
سپریم کورٹ رٹ کے ذریعے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ بھی کرتی ہے ۔
سپریم کورٹ کی ایک جیورسڈکشن میں اختیار سماعت کو مشاورتی جیورسڈکشن کہتے ہیں۔ اس میں حکومت کسی بھی قانون میں ابہام کے بارے میں سپریم کورٹ کے مشاورت طلب کرتی ہے، سپریم کورٹ جو رائے دیتی ہے وہ قانون نہیں ہوتی بلکہ اس کے مطابق معاملہ پارلیمان میں پیش کر کے اسے قانون بنایا جاتا ہے ۔
اس مقدمہ میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدم اعتماد کی صورت کسی بھی رکن اسمبلی پر ڈیفیکشن کلاز کے تحت اپنی پارٹی کی لیڈر شپ کے خلاف ووٹ دینے پر اسے محض ڈی سیٹ کیا جائے گا۔ حکومت چاہتی تھی کہ اس لفظ ڈی سیٹ کو تا عمر نا اہلی میں تبدیل کردیا جائے اس رائے پر سپریم کورٹ نے اختلاف کا اظہار کیا ۔
تاہم سپریم کورٹ نے ایک عجیب سی رائے دی کہ جو لوگ پارٹی لیڈر شپ کے خلاف ووٹ دیں ان کا ووٹ عدم اعتماد کی تحریک میں گنا نہیں جانا چاہیے۔
اس رائے سے سپریم کورٹ نے پاکستان کے آئین کو پارلیمانی جمہوری آئین سے یک جماعتی آمریت اور بادشاہت میں تبدیل کر دیا ۔ لیکن یہ بات سپریم کورٹ کے فیصلہ میں بھی لکھی گئی کہ یہ محض ایک رائے ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ پارلیمان اس سمت میں قانون سازی کرے۔
اب یہ پارلیمان کی اکثریت کی مرضی تھی کہ وہ اس بات کو قبول کرتے یا اس بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے یہ محض کچھ ججوں کی خواہش تھی یہ قانون ہرگز نہیں تھا۔
تاہم اس واقعہ میں سب سے عجیب قصہ اس وقت رونما ہوا جب لاہور ہائی کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے اس رائے کو قانون مانتے ہوئے حمزہ شہباز شریف کے الیکشن کو void گویا کہ ہوا ہی نہیں قرار دے دیا۔
یقینی طور پر موجودہ قانون کے تحت ڈیفیکشن کلاز کے تحت 25 ڈیفیکٹڈ ارکان کو ڈی سیٹ کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار تھا ۔ لیکن ایسا کوئی اختیار لاہور ہائی کورٹ لاہور کے پاس موجود نہیں تھا کہ وہ حمزہ شہباز کے منتخب ہونے کے عمل کو غیر موثر قرار دے دیتے۔
یہ ایک متعصبانہ خلاف آئین خلاف قانون غلط فیصلہ تھا۔
اس کے خلاف پہلے سے اپیل دائر کی گئی ہوئی ہے۔ جس کی سماعت تاحال شروع نہیں ہوسکی ہے ۔
اب موجودہ وزیر اعلی پنجاب کے الیکشن میں دوست محمد مزاری نے فاضل سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی اس رائے کو قانون مانتے ہوئے جو فیصلہ لاہور ہائیکورٹ لاہورنے صادر فرمایا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے تحت مسلم لیگ قاف کے ارکان اسمبلی کے ڈالے گئے ووٹوں کو گنتی سے باہر نکال دیا ہے ۔ یہ بات واضح طور پر سمجھنے کی ہے کہ دوست محمد مزاری نے کوئی رولنگ نہیں دی ۔ کوئی قانون نہیں بنایا ۔کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔
بلکہ دوست محمد مزاری نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے تحت جس فیصلہ میں حمزہ شہباز شریف کا پہلا وزیر اعلی کا انتخاب خلاف قانون قرار دیا گیا تھا ،اسی فیصلہ پر محض عمل کیا ہے ۔
اب سپریم کورٹ ایکٹیو ہو کر سامنے آ گئی اور اس نے دوست محمد مزاری سے یہ سوال پوچھا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کچھ ایسا نہیں کہا جس پر آپ مسلم لیگ قاف کے ووٹوں کی گنتی کو ڈالے گئے ووٹوں میں سے نکال دیں ۔ یقینی طور پر سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کا یہ سوال درست ہے ۔
لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ فاضل جج صاحبان جو کھلی عدالت میں فرماتے ہیں کہ وہ اخبار پڑھتے ہیں، ٹی وی چینلز پر پروگرام دیکھتے ہیں اور سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں ۔ انہیں آج تک اس امر کی بابت معلوم ہی نہیں ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی میں اکثریت کے منتخب شدہ وزیر اعلی کو غیر منتخب قرار دے کر دوبارہ انتخاب کا حکم دیا ہے ۔
اب کل کے روز سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کو عجیب سی کنفیوژن کا سامنا کرنا ہوگا۔ مسلم لیگ نواز اور حکومتی اتحاد کے وکیل سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان سے اصرار کریں گے کہ موجودہ انتخاب پر سوال اٹھانے سے پہلے سابقہ انتخاب کو غیر قانونی قرار دینے یا ہوا ہی نہیں قرار دینے والے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کا پہلے فیصلہ کیا جائے تا کہ سپریم کورٹ کے سامنے دو متصادم صورتحال بیک وقت فیصلہ کرنے کے لیے موجود نہ ہوں ۔
سپریم کورٹ کے پہلے فیصلہ کے مطابق حمزہ شہباز شریف کا انتخاب جائز تھا، وہ منتخب ہونے کے بعد ڈیفیکٹ کرنے والے ارکان اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے اور دوبارہ الیکشن میں جانے کا حکم درست ہے لیکن حمزہ شہباز شریف کو یہ حکم دینا کہ وہ بطور وزیر اعلی دوبارہ منتخب ہوں یہ حکم اپنا کوئی قانونی جواز نہیں رکھتا ۔ منتخب شدہ وزیراعلی کو ہٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے اور اس میں گنتی میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اس حکومت کو ختم کیا جائے ۔ لاہور ہائیکورٹ کے حمزہ شہباز شریف کو دوبارہ الیکشن میں جانے کا حکم دینے کے فیصلے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے۔
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر