دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کربلا کی داستان کا ایک کردار زعفر جن!||حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’میں دریا کے سفر پہ تھا اور طوفان کے آثار تھے۔ ایک دم شدید اندھیرا چھا گیا اور پھر بس اتنا پتہ لگا کہ بڑی سی ایک لہر آئی ہے جو میری کشتی سے ٹکرا گئی۔

’میری آنکھ کسی کے رونے کی آواز سے کھلی۔ شاید بے ہوشی میں کسی تختے پہ پڑے ہوئے میں تیرتا رہا اور آخر اس جزیرے تک پہنچا۔ تھوڑی طاقت آئی تو رینگتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی، وہ آواز دور سے آ رہی تھی۔ آخر میں اس مقام تک پہنچ گیا جہاں سے رونے کی آواز آتی تھی۔ وہ بہت بڑے قدوقامت کا سیاہ فام ایک شخص تھا جس کے بال چہرے سے ہوتے ہوئے زمین تک بکھرے پڑے تھے اور وہ زار و قطار روتا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کے دیکھا تو وہ انگلی سے ریت پر یا حسین لکھتا تھا۔

’میں نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے اور یہاں کیوں رہتا ہے۔ کہنے لگا میں زعفر جن ہوں۔ جب میں نے حضرت کو شہید پایا تو اپنے عیال و اطفال کے ساتھ کوفہ سے شام تک اسیران کے ساتھ رہا لیکن کچھ نہ کر سکا، حکم نہیں تھا۔ وہاں جو کچھ میں نے دیکھا، اس غم میں سلطنت چھوڑ چکا ہوں اور اس جزیرے پہ قیام ہے۔ ہر شب جمعہ میری قوم یہاں آتی ہے اور ہم ایک مجلس بپا کرتے ہیں۔‘

کربلا میں زعفر جن کا قصہ ہم تک کئی حوالوں سے پہنچتا ہے۔ میر انیس، دبیر، میر مونس اور میرزا عشق کے مرثیے وہ عوامی ریفرنسز ہیں جن سے ہم تک یہ داستان آتی ہے جب کہ تاریخ روضہ الشہدا ~ حسین واعظ کاشفی، اسرار الشہادت ~ آقائے دربندی، منہج الشہادت ~ اخوند ملا جعفر استابادی سمیت سوانح زعفر جن ~ سید آغا مہدی لکھنوی میں بھی یہ قصہ تفصیل سے مذکور ہے۔

’سوانح زعفر جن‘ کے مطابق امام حسین دشمن فوج پر حملہ کرنے ہی لگے تھے کہ یکایک گرد بلند ہوئی اور ساتھ ہی عجیب شکل کا ایک مہیب آدمی سامنے آ گیا۔ جس کی سواری سر سے کمر تک گھوڑے کی طرح اور پاؤں شیر سے ملتے جلتے تھے۔ امام کو ادب سے سلام کیا۔ امام نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ جواب دیا کہ میں زعفر زاہد ہوں، شاہ مرداں کا ادنیٰ خادم ہوں، میری ساری فوج جنگل میں تیار کھڑی ہے، آپ کے والد نے جب بیرالالم میں فتح کے بعد جنات کو مسلمان کیا تو میرے باپ کو ان پر حکم ران بنایا تھا۔ ان کا نام راحیل جن تھا۔ باپ کی وفات کے بعد میں بادشاہ بنا ہوں۔ سب جن میری رعیت میں ہیں۔ حکم کریں کہ میں اپنی فوجیں لاؤں اور آپ کے دشمنوں کی روحیں کھینچ لوں۔

امام نے کہا تم جن ہو، یہ انسان ہیں، یہ تمہیں دیکھ نہیں سکیں گے اور تم انہیں دیکھ دیکھ کر قتل کرو گے۔ زعفر جن نے کہا کہ بدر میں بھی تو فرشتے دکھائی نہ دیتے تھے۔ امام بولے، وہ خدا کی رضا سے آئے تھے، تم میری محبت میں آئے ہو اور میرے معاملے میں خدا کی رضا یہی ہے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ گے اور میں اس جنگ میں نہ بچوں۔

زعفر جن نے انسانوں کے روپ میں آ کر لڑنے کی پیشکش بھی کی لیکن اس کی ایک نہ چلی۔

پھر زعفر جن نے کہا کہ اجازت دیجے اہل بیت کو حفاظت سے مدینہ پہنچا دوں۔ فرمایا، مقدر یہی ہے کہ میرے بعد یہ لوگ اسیر ہوں اور قید کی سختیاں اٹھائیں۔

’اے زعفر تو لوٹ جا کہ اب جو حال اس میدان جنگ میں ہو گا وہ تجھ سے دیکھا نہ جائے گا۔‘

کچھ روایات کہتی ہیں کہ زعفر جن وہاں رک گیا اور چپ چاپ سب کچھ دیکھتا رہا۔ جو داستان زیادہ مشہور ہوئی وہ یہ کہ زعفر جن واپس گیا تو اس کی والدہ نے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے اور کیسے واپس آتے ہو۔ تو اس نے سارا قصہ جب اپنی ماں کو سنایا تو ماں نے فوراً حکم دیا کہ جاؤ، دوڑو، امام کی مدد کرو جس طرح ممکن ہو، اور پھر زعفر جن بمع اہل و عیال واپس آیا لیکن اب شہادتیں ہو چکی تھیں اور پھر یہ بیان سامنے آتا ہے کہ ’جب میں نے حضرت کو شہید پایا تو اپنے عیال و اطفال کے ساتھ کوفہ سے شام تک اسیران کے ساتھ رہا لیکن کچھ نہ کر سکا، حکم نہیں تھا۔‘

سید آغا مہدی نے اپنی کتاب میں نیاز فتح پوری صاحب کے حوالے سے لکھا کہ 1935 میں ایک پولیس سپریٹینڈنٹ ایسے تھے جو کچھ خاص علوم جانتے تھے اور زعفر جن کو بلا کر واقعات کربلا سنتے تھے ان کے مطابق زعفر جن کہتا تھا کہ میں شہادت علی اکبر تک میدان کربلا میں موجود رہا۔

انٹرنیٹ پر موجود ایک ویب سائٹ کے مطابق زعفر جن 1930 تک زندہ رہا اور اب اس کا بیٹا شاہ کاظم جنوں کا حکم ران ہے۔ ایران میں ایک علاقہ ’جعفر جن‘ نام کا اب بھی موجود ہے۔

اس تحریر کو لکھتے وقت یہ بھی علم ہوا کہ جنوں کی زیادہ تر مجلسیں جمعرات کو ہوتی ہیں اور عاشورے کے دوران ضروری نہیں ہے کہ امام باڑے کی انسان انتظامیہ کو جنوں کی مجالس کا علم ہو، وہ انہیں بتائے بغیر بھی کر سکتے ہیں نیز یہ کہ امام باڑہ نواب آصف الدولہ میں جنوں کی ہفتہ وار مجلس ایک عرصے تک ہوتی رہی ہے۔

جنوں کی حقیقت کیا ہے، وہ موجود ہوتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں ہمارا مذہب ہمیں بہت کچھ بتاتا ہے اور سائنس میں بھی طویل بحثیں موجود ہیں۔ جو چیز مجھے سمجھ آتی ہے وہ اس پوری داستان میں سپر ہیرو کا ناکام لوٹنا ہے۔ یہ ایک انوکھی بات ہے۔ امیر حمزہ، رستم، راون ہرکولیس، سپرمین یا کوئی بھی کردار اگر کسی مہم میں شامل ہوتا ہے تو انجام تک اس کی جیت بہرحال دکھائی جاتی ہے۔ اگر وہ ہارتا ہے تو ایک بھرپور لڑائی کے بعد ہمیں اس کی ہار کا پتہ چلتا ہے۔

زعفر جن ایک ایسا کردار ہے جو باوجود جنوں کا سردار ہونے کے، بے بس ہے۔ امام کا حکم نہیں ہے، امام مشیت ایزدی کے آگے سر جھکا چکے ہیں اور جو ہونا ہے وہ اٹل ہے۔

اس قسم کا منظرنامہ جہاں انجام پہلے سے طے ہے وہاں زعفر جن کا کردار آخر کیا کر سکتا ہے؟ زعفر جن کی بے بسی کا بیان مرزا عشق کے مرثیے میں بس تھوڑا سا دیکھیے اور اجازت دیجیے۔

جزیرے پر جب وہ بندہ کشتی ٹوٹنے کے بعد پہنچا، زعفر جن کو روتے دیکھا، بات چیت کی، اسے پہچان لیا تو سوال کیا؛

برائے اذن وغا پاؤں پر گرے زعفر؟
کہو کہ کب گئے، کچھ ٹھہرے، کب پھرے زعفر؟

اب زعفر جن مجبور ہے مسافر کو پورا قصہ سنانے اور بتانے کے لیے کہ آخر وہ یہاں پڑا کیوں روتا ہے اور جب وقت تھا تو امام کی مدد کیوں نہیں کر سکا۔ جب یہاں تک پہنچا کہ امام نے اجازت نہیں دی لڑنے کی تو پھر کہتا ہے ؛

بیان حیدر صفدر نے جب یہ فرمایا
نظر میں ایک اندھیرا سا دفعتاً چھایا

پھرا حسین کی جانب قلق سے گھبرایا
ادب سے باندھ کے ہاتھوں کو میں یہ چلایا

اگر غلام نہ اس وقت کام آئے گا
ہنسیں گے لوگ جہاں میرا نام آئے گا

کہیں گے سب کہ امید اٹھ گئی بھلائی کی
بڑی حسین سے زعفر نے بے وفائی کی

ایک جن ہے، میدان کا پانسہ پلٹنے پہ قادر ہے۔ بس یہ سوچیں کہ ایک انکار کا حکم پورا کرنا اس کے لیے کیسا مشکل ہو گا؟

مرثیہ بہرحال ختم ہوتا ہے اور بحیثیت آخری کردار، امام زین العابدین، اب زعفر جن کو نصیحت کرتے ہیں۔
شریک حال ہوا اجر دے تجھے داور
ہمارے سر کی قسم جا بس اب یہاں نہ ٹھہر

جو ہو سکے تو یہی بات سب سے ہے بہتر
ہمیشہ روئیو بے کس حسین کو زعفر۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author