مئی 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ویران سڑک پہ سائیکل، تانگہ اور مردانگی!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

یقین کیجئے یہ کہانی گھڑی نہیں گئی بلکہ یہ تو بیتی عمر کے کچھ گل شدہ چراغوں کی بجھتی لو سے مستعار لی گئی ہے۔ یہ ستر کی دہائی کے وسط کا پنجاب ہے جہاں کے ایک شہر سیالکوٹ کے مضافاتی گاؤں میں اس بچی نے اپنے بچپن کا کچھ حصہ بسر کیا!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سائیکل کا ہینڈل ایک ہاتھ سے پکڑے سائیکل لہراتا، بلند آواز میں ماہیا گنگناتا پچیس چھبیس برس کا مرد، گرما کی سہ پہر، سنسان سڑک، تیز رفتاری سے دوڑتا تانگہ اور اس کی پچھلی نشست پہ بیٹھی تین خوفزدہ عورتیں اور ایک پانچ چھ برس کی ناسمجھ بچی!

سائیکل والا کبھی تانگے کے بالکل قریب آ جاتا اور کبھی کچھ پیچھے رہ جاتا۔ تینوں عورتیں آپس میں گہری سہلیاں تھیں اور گھر سے کچھ وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے نکلی تھیں۔ کہیں سے ٹھنڈی بوتل پینی تھی، کہیں سے گول گپے کھانے تھے اور کہیں سے اپنے لباس کے ہم رنگ پراندے خریدنے تھے۔ بچی ان میں سے ایک کے گھر مہمان کے طور پہ ٹھہری ہوئی تھی۔ نئی جگہیں دیکھنے کی شوقین تھی سو ضد کر بیٹھی کہ شوخ و شنگ ممانی کے ساتھ وہ بھی بازار جائے گی۔ ممانی تو فوراً راضی ہو گئیں لیکن بچی کی نانی نے کافی ردوکد کے بعد اجازت دیتے ہوئے بچی کا خاص خیال رکھنے کی ہدایات دیں۔ تینوں سہلیاں خوش گپیوں میں مصروف تانگے کی پچھلی نشست پہ بیٹھیں اور تانگہ بازار کی طرف روانہ ہو گیا جو پانچ چھ کلومیٹر دور تھا۔ بچی اپنی ممانی کی گود میں بیٹھی تھی جس نے اپنے دونوں بازو اس کے گرد حمائل کر رکھے تھے جیسے کوئی حفاظتی حصار باندھ رکھا ہو۔

تانگہ سرپٹ بھاگ رہا تھا۔ گھوڑے کے سموں سے پیدا ہونے والی نپی تلی آوازیں سر تال سے آہنگ محسوس ہوتیں تھیں، سڑک دور گم ہوتی چلی جاتی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف موسمی فصل کی بہار تھی اور کنارے پہ جھومتے درخت پیچھے کو بھاگتے نظر آتے تھے۔ گہرے نیلے آسمان پہ پر کھولے پرندوں کی ڈار نظر آتی تھی۔ تینوں سہیلیوں کی بات بے بات ہنسی فضا میں ارتعاش پیدا کرتی تھی اور شہرسے آنے والی بچی کو یہ سب محظوظ کرتا تھا۔

یکایک تینوں خاموش ہو گئیں جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ بچی کو ایسے لگا جیسے ممانی کا جسم کپکپایا ہو۔ اس نے حیرت سے منہ موڑ کے ممانی کی طرف دیکھا۔ ممانی کے چہرے سے خوف، پریشانی، شرم اور غصہ جھلک رہا تھا اور وہ نگاہیں نیچی کیے تانگے کے پائیدان کو گھورنے میں مصروف تھیں۔ بچی نے دونوں سہلیوں کی طرف دیکھا تو وہاں بھی کم وبیش یہی عالم تھا۔ بچی حیران ہوئی کہ ایسا کیا ہوا جس نے ان جیتی جاگتی عورتوں کو تین جامد مجسموں میں بدل دیا۔

بچی نے سڑک کی طرف نگاہ کی تو وہ سائیکل والا جو پہلے کچھ فاصلے پہ تھا، اب بالکل تانگے کے ساتھ ساتھ تھا۔ گیت گنگناتا، سائیکل کا ہینڈل کبھی پکڑ لیتا کبھی چھوڑ کر ہاتھ لہرانا شروع کر دیتا۔

دفعتاً بچی نے ممانی کی سہیلی کی بھنچی ہوئی آواز سنی، جو ممانی کو کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھیں،

“سنو، گڑیا کی آنکھیں ڈھانپ دو”

یہ سنتے ہی ممانی گویا کسی گہری نیند سے بیدار ہوئیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں بچی کی آنکھوں کی پہرے دار بن گئیں۔ بچی کسمسا کے بولی،

“ کچھ نظر نہیں آرہا، ہاتھ ہٹائیے”

“گڑیا، دیکھو دھوپ بہت ہے، آنکھوں میں چبھ رہی ہے نا”

“نہیں تو، اتنا مزا آرہا تھا دیکھنے میں” بچی نے ترنت جواب دیا۔

“اگر آنکھیں خراب ہو گئیں نا تو تمہاری نانی ناراض ہو جائیں گی اور پھر دوبارہ بازار آنے کی اجازت نہیں دیں گی” ممانی کی گھبرائی ہوئی آواز آئی،

تانگہ چلتا رہا، بچی کی آنکھیں پہ ہتھیلیوں کا پردہ رہا، تینوں عورتیں بے جان مورتیاں بنی بیٹھی رہیں۔ سائیکل کی آواز اور اپنی طرف متوجہ کرنے کی صدا فضا میں گڈ مڈ ہوتی رہی۔

کچھ دیر بعد بچی نے محسوس کیا کہ تانگے کی رفتار آہستہ ہو رہی ہے، بازار نزدیک آ رہا تھا۔ سڑک پہ کچھ اور ٹریفک کی آوازیں آنا بھی شروع ہو گئیں۔ سائیکل والے کی آواز بھی کہیں گم ہو چکی تھی۔

“شکر ہے منحوس دفع ہوا، بے غیرتی کی انتہا ہے” بچی کے کان میں ممانی کی آواز آئی

“میں تو تھر تھر کانپ رہی تھی کہ کسی گھر والے نے دیکھ لیا تو ہمارا گھر سے نکلنا ہی بند ہو جائے گا” ایک بولی

“بھلا کیا ملتا ہے ان مردوں کو اپنے آپ کو یوں سر عام ننگا کر کے” دوسری نے کہا،

“شش.. گڑیا سن رہی ہے” ممانی نے ٹوکا،

“بچی کی آنکھوں سے وہ لرزتی ہتھیلیاں ہٹا لی گئی تھیں۔ ہلکا اندھیرا، سائے جیسے ہیولے اور پھر ہولے ہولے وہی اجلا آسمان۔ اپنی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے ملتے ہوئے بچی نے ممانی سے سوال کیا، کیا ہوا تھا ؟

"کچھ نہیں گڑیا ، کچھ بھی نہیں! لیکن دیکھو ا پنی امی اور نانی کو کچھ نہیں بتانا ، ورنہ وہ تمہیں آئندہ ہمارے ساتھ نہیں آنے دیں گی”

بچی نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔

یقین کیجئے یہ کہانی گھڑی نہیں گئی بلکہ یہ تو بیتی عمر کے کچھ گل شدہ چراغوں کی بجھتی لو سے مستعار لی گئی ہے۔ یہ ستر کی دہائی کے وسط کا پنجاب ہے جہاں کے ایک شہر سیالکوٹ کے مضافاتی گاؤں میں اس بچی نے اپنے بچپن کا کچھ حصہ بسر کیا!

اس واقعے نے بچی کے متجسس ذہن کو بہت دن مضطرب رکھا اور وہ اس کھوج میں رہی کہ کیا ہوا تھا آخر؟

پھر گزرتے ماہ وسال نے کئی راز افشا کر دئیے اور اس لڑکی نے پدرسری معاشرے کی اس جہت کو دریافت کیا جہاں عورت کو جنسی طور پہ ہراساں کرنا مرد کی دل لگی ٹھہرتا ہے۔ جہاں عورت کو سر عام اپنے جنسی اعضا عریاں کر کے دکھانا مردانگی کا ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ ڈھٹائی اور بے حسی کسے کہتے ہیں ؟

دیکھا جائے تو اسی ذہنیت نے معاشرے میں وہ بیج بویا ہے جس کی فصل آج کاٹنی پڑ رہی ہے۔

آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے وہ بچی کون تھی؟

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: