دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لولے لنگڑے انصاف کی کہانی….|| وجاہت مسعود

ہنسی اور سنجیدگی میں ایک قریبی رشتہ ہے۔ رعونت کے ان چوبی پتلوں کو چھوڑ کر جن کے روئے بے نور پر لوح مزار کی عبارت لکھی ہے، فہیم انسان کھل کے ہنستے ہیں کیونکہ ہنسنا انسان کی حقیقی بے مائیگی، ناگزیر حماقت اور لمحہ موجود کے احساس ذمہ داری کو تسلیم کرنا ہے۔ لنکن رات بھر اپنے کمرے میں ٹہلتا تھا۔ قوم کی تقدیر کے سوالات درپیش تھے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ہدایت اتری تو سب سے پہلا حکم آیا ’پڑھو‘۔ اس کے بہت بعد سورة القلم نازل ہوئی اور قسام ازل نے قلم کی قسم اٹھانے سے پہلے حروف مقطعات میں سے ایک حرف رکھ دیا۔ حروف مقطعات کا قطعی معنی معلوم کرنا فانی انسانوں کا منصب نہیں۔ آپ کا نیاز مند مذہبی علوم میں درک نہیں رکھتا اس لئے زمینی معاملات بیان کرتا ہے اور نازک موضوعات پر رائے زنی سے گریز کرتا ہے۔ آج کچھ ایسی ہی مشکل آن پڑی ہے کہ تحریر کا پتھر اٹھانے سے قبل ایسا حوالہ دینا لازم قرار پایا جس کی کوئی نظیر نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں عدالت حرف قانون، شواہد اور نظیر کے تین خطوط سے ترتیب پاتی ہے۔ پاکستان قائم ہوا تو نو آزاد مملکت کے باشندے بھی ان تین نکات کی بنیاد ہی پر انصاف کی توقع رکھتے تھے۔ ایک روز استاد محترم جنت مکانی آئی اے رحمان علم کی ارزانی پر آمادہ تھے۔ درویش نے سوال کیا کہ ہم انگریز سے آزادی کا مطالبہ کیوں کرتے تھے۔ فرمایا، ’انگریز سے ہمیں ایک شکایت تھی۔ جب ہم آپس میں جھگڑتے تھے تو انگریز کی عدالت ہمیں انصاف دیتی تھی۔ جب ہم بطور انسان فرنگی سرکار سے حق حکمرانی، معاشی حقوق، فیصلہ سازی میں شفاف شرکت اور سماجی مساوات مانگتے تھے تو ہمیں انصاف نہیں ملتا تھا‘۔ گویا آزادی کے لئے جدوجہد دراصل حتمی اور اعلیٰ ترین انصاف کی لڑائی تھی۔
ہمارے پہلے چیف جسٹس میاں عبدالرشید تھے جنہیں قائد اعظم سے حلف لینے کا اعزاز ملا۔ آزادی کے ابتدائی برسوں میں بہت سے طوفان اٹھے لیکن جون 1954 تک عدلیہ پر انگلی نہیں اٹھی۔ یہ شرمناک روایت چیف جسٹس محمد منیر کے حلف اٹھانے سے شروع ہوئی۔ 1960 میں ریٹائر ہونے کے بعد جسٹس منیر نے ماورائے عدالت دباﺅ کا اعتراف کر لیا تھا لیکن تب مئی 1955 میں دستور ساز اسمبلی کی تحلیل اور اکتوبر 1958 میں دستور کے ارتحال جیسے سانحات کو جواز بخشے مدت گزر چکی تھی۔ جسٹس حمود الرحمن نے یحییٰ خان کو تب غاصب قرار دیا جب آمر کے ہاتھوں ملک دولخت ہو چکا تھا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھٹو کے مقدمہ قتل میں دباﺅکا اقرار تب کیا جب قاتل اور مقتول کی ہڈیاں بھی مٹی ہو چکی تھیں۔ مارچ 1993 میں سپریم کورٹ نے جنرل اسلم بیگ کو سیف اللہ کیس میں توہین عدالت کا مجرم ٹھہرایا تو ’ملزم‘ کو سزا نہیں سنائی۔ ٹھیک 22 برس بعد اسلم بیگ نے اصغر خان کیس میں ایف آئی اے کو بیان دینے سے انکار کر دیا۔ حالیہ برسوں میں دانش کے خلعت یافتہ نورتن ہمیں چرچل کا قول سناتے رہے کہ اگر برطانوی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو قوم کو غنیم سے شکست کا اندیشہ نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ یہ اصحاب انصاف اور قومی سلامتی میں تعلق کی حرکیات بیان نہیں کرتے۔ یہ نہیں بتاتے کہ ہم نے قوم پر ماورائے دستور اجارے کے گٹھ جوڑ کے لئے ’اسٹیبلشمنٹ‘ کی جو غیر دستوری اصطلاح گھڑ رکھی ہے، عدلیہ اس کا حصہ رہی ہے۔ آئندہ موسم خزاں میں نئے انتخابات کی جو چپاتی بٹ رہی ہے، یہ انتخابات کی تمہید نہیں، ایک اور تعطل کی زیر لب بشارت ہے۔
اخباری کالم تو آپ کا دل بہلانے کا چٹکلا ہے، ’جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا‘۔ لکھنے والا مگر ایسا مرفوع القلم ہے کہ بھٹک کر تاریخ ندامت لکھنے نکل جاتا ہے۔ ایک سنجیدہ گزارش سن لیں پھر آپ کو ابراہام لنکن کے ’لولے لنگڑے انصاف‘ کا قصہ سنایا جائے گا۔ آج اوپن مارکیٹ میں ڈالر 245 روپے کا ہو گیا۔ اس سے ہماری معیشت، درآمدات اور بیرونی قرضوں پر اثرات آپ خود سمجھ لیں۔ درویش فقط یہ جانتا ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد کی ’ٹیلنٹ والی کابینہ‘ سے شعیب محمد، محبوب الحق، وی اے جعفری، معین قریشی اور پھر حالیہ برسوں میں شوکت عزیز، شوکت ترین، حفیظ پاشا اور حفیظ شیخ کی ٹیکنوکریٹ جگل بندی تک اگر غیر جمہوری بتان سنگی معیشت کی مانگ نہیں سنوار سکے تو آئندہ بھی ایسا نہیں ہو سکے گا۔ چرچل نے عدالت اور جنگ میں جو تعلق بیان کیا تھا، وہی رشتہ دستوری تسلسل اور معاشی استحکام میں بھی پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت دشمن طالع آزماﺅں کا ایک لشکر 15 برس سے بنگلہ دیش ماڈل کا خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ بھی کر دیکھیے۔ 40 ارب ڈالر کا زرمبادلہ رکھنے والے بنگلا دیش نے آئی ایم ایف سے ساڑھے چار ارب ڈالر مانگے ہیں۔ ہم تو ایک ارب سترہ کروڑ کے بھکاری ہیں۔ بھکاری کہنے پر آپ کی گالیاں تسلیم مگر جان لیجیے کہ عدلیہ میں خلیج واضح ہو گئی ہے۔ اٹک کے پل کی زنجیر اس سے زیادہ نازک ہے۔ اگر ہم نے معیشت اور دستور سے کھلواڑ جاری رکھی تو ہم ہنسنا بھی بھول جائیں گے۔
ہنسی اور سنجیدگی میں ایک قریبی رشتہ ہے۔ رعونت کے ان چوبی پتلوں کو چھوڑ کر جن کے روئے بے نور پر لوح مزار کی عبارت لکھی ہے، فہیم انسان کھل کے ہنستے ہیں کیونکہ ہنسنا انسان کی حقیقی بے مائیگی، ناگزیر حماقت اور لمحہ موجود کے احساس ذمہ داری کو تسلیم کرنا ہے۔ لنکن رات بھر اپنے کمرے میں ٹہلتا تھا۔ قوم کی تقدیر کے سوالات درپیش تھے۔ ایک روز کابینہ کے اجلاس میں اہلکار نے آرلینڈو کیلاگ (Orlando Kellog) کی آمد کی اطلاع دی۔ اسے کابینہ اجلاس میں مداخلت سے روک دیا گیا تھا۔ کیلاگ نے غصے میں کہا۔ لنکن سے کہو کہ تمہارا دوست کیلاگ تمہیں لولے لنگڑے انصاف (Stuttering Justice ) کی کہانی سنانے آیا ہے۔ لنکن نے فائل بند کرتے ہوئی کارروائی روک دی اور کہا، اب ہم کیلاگ سے لولے لنگڑے انصاف کی دلچسپ کہانی سنیں گے۔ سیکریٹری دفاع سٹینٹن (Stanton) پاﺅں پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ جیسے کچھ لوگ جوڈیشل کونسل کا اجلاس چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔ سٹینٹن اہم اور غیر اہم میں تمیز نہیں رکھتا تھا۔ لنکن شگفتہ طبعی اور سنجیدگی کا ادراک رکھتاتھا۔ بہت سے لوگ منصب اور انسانیت نیز اختیار اور انصاف میں فرق نہیں سمجھتے۔ ایسے بہت سے ایچ۔ 8 اسلام آباد میں آرمیدہ ہیں، خاک میں موتی رول رہی ہے چشم گہر آباد۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author