نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجن پور کی خبریں

راجن پور سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبسرے اور تجزیے۔

راجن پور / حاجی پورشریف

( ملک خلیل الرحمن واسنی سے)

ڈپٹی کمشنر راجن پور جمیل احمد جمیل نے سیلابی علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو ہفتہ سے جاری بارشوں سے 27860 ایکٹر پر کاشت فصلیں متاثر ہوئیں۔

رود کوہیوں کے سیلابی پانی سے ابتک 1076 گھر بھی متاثر ہوئے ۔ سیلاب زدہ علاقوں کا آبیانہ،زرعی انکم ٹیکس سمیت سرکاری واجبات اور قرض معاف کرنے کی

سفارش ارسال کر دی گئی ہے۔راجنپور کے سیلاب زدہ علاقوں میں فیلڈ ٹیمیں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ راجنپور میں رود کوہیوں کے سیلاب زدہ علاقوں میں آٹھ سے زائد ریلیف کیمپس فنکشنل ہیں۔سیلاب زدہ علاقوں میں گیارہ ہزار متاثرین کو تین وقت کا کھانا دیا جارہا ہے۔مزید انہوں نے کہا کہ

چھوٹے بڑے 22ہزار مویشیوں کی ویکسی نیشن کی گئی۔سیلاب زدہ علاقوں میں آٹھ میڈیکل کیمپس فعال ہیں اور 2689 افراد کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی گئیں۔سیلابی پانی سے تین ہزار سے زائد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

مزید یہ کہ ضلع راجنپور کے سیلاب زدہ علاقوں کےلئے دو موبائل ہیلتھ ٹیمیں بھجوادیں۔کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے

کنٹرول روم 0604920029چوبیس گھنٹے کام کررہا ہے۔اس موقع پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندہ گان شریک تھے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حاجی پورشریف

ریسکیو 1122 راجن پور کے اہلکاروں نے انسانیت کی مثال قائم کردی
تین دن سے سیلابی پانی میں پھنسے گدھے کو ریسکیو کر کے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا.

تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز چک پتیات حاجی پورشریف روڈ پر

ریسکیو 1122 کے اہلکار سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں واٹر
ریسکیو آپریشن کر رہے تھے تو اُنھیں ایک گدھا نظر آیا جس کے چاروں اطراف پانی ہی پانی

تھا جس کی وجہ سے وہ کہیں سے
نِکل نہیں سکتا تھا۔ریسکیو اہلکاروں نے جن میں منصور احمد FDR
Saleem Sohrani FD RIrfan Haider LTV
شامل تھے

انسانیت کے جزبے کے تحت اس گدھے کے پاس گئے اسے بڑی مشکل سے کشتی میں بٹھایا اور اُسے
کنارے پر لا کر چارہ کھلایا پھر خشکی پر چھوڑ دیا۔

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

،، تجھےاے زندگی لاوں کہاں سے.۔۔۔…،،،. مجھ ناچیز سے عمر میں دوسال چھوٹا مگر نام،

کام، محنت اور جدوجہد کے حوالے سے بہت بڑا نام جو زندگی میں بھی تمام تر مشکلات، نامساعد حالات، اپنوں کی بے اعتنائی، غیروں کی ستم ظریفی اور دشنام طرازی کے باوجود ھمیشہ سرفراز رھا. جو زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلباء سے وابستہ رہا گورنمنٹ انٹر کالج جام پور اور پھر گورنمنٹ ڈگری کالج ڈیرہ غازیخان میں جمعیت کے نمایاں

رفقاء میں شامل رہنے والا ایڈوکیٹ محمد سرفراز نواز خان مستوئی جس نے دوران تعلیم ھی پاک آرمی میں بطور کلرک سپاھی اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور پھر محکمہ تعلیم میں پی ای ٹی کےطور پر ملازمت کرتا رھا اور گورنمنٹ ایلیمنٹری سکول مستوئی والا کے بچوں کو ہر سال شہری سکولوں کے بچوں کے برابر بوائز اسکاوٹس کی مشقوں

اور فائر کیمپس میں ٹریننگز دلانے میں نہایت لگن اور اخلاص کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا اسی دوران پنجاب یونیورسٹی لاھور سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے اچھے نمبروں میں گریجوایشن بھی کر لی. ایک نامور درویش صفت سادہ مزاج قانون دان کا بیٹا ھونے کے ناطے اور سکول کے دنوں میں اپنے والد ماجد محمد نواز خان مستوئی کے چیمبر آنے جانے

اور احاطہ کچہری میں کھیلنے کودنے کی یادیں تازہ کرنے اکثرو بیشتر کچہری چلا جایا کرتا تھا ایک دن ایک وکیل صاحب کے چیمبر میں کسی مسلے پر بات ھورھی تھی تو وہ بھی بول پڑا ایسی دلیل دی کہ سب لا جواب ھوگئے جس پر،، صاحب چیمبر وکیل صاحب،، دلیل کا جواب دینے کی بجائے غصے سے لال پیلے ھو گئے اور فرمایا،،،

توں چپ کر بہہ وکیل میں آں یا توں ایں،،، اور وہ یہ کہہ کر اُٹھ کھڑا ھوا کہ،،، اج دے بعد کچہری اوں ویلھے ولساں جہڑے ویلھے آپ وکیل بنڑ آوساں،،،، اور اس نے اپنے اس اعلان کو نہ صرف عملی جامہ پہنایا بلکہ 1996 ..میں احاطہ کچہری میں موجود اپنے

والد ماجد کے چیمبر کو آباد کر کے باقاعدہ پریکٹس کا آغاز کیا اپنی خاندانی تربیت اور والد ماجد کی پیروی کرتے ھوئے اپنے شعبہ سے ھمیشہ انصاف کیا نہ جھکا نہ بِکا.. بلکہ جام پور بار کی سیاست میں ایک انقلاب برپا کر دیا سردار امیر بخش خان مستوئی کی قیادت میں خالد حفیظ خان احمدانی، غلام مرتضے ا شاہجمالی، شاھد ریاض، شفقت اعوان، رانا لیاقت علی کے ھمراہ 70..سے 80 وکلاء کا ایک مضبوط ترین گروپ تشکیل دیا

جو اسکی زندگی تک بار کے الیکشنز میں مسلسل فتح یاب ھوتا رھا.ایک مرتبہ محمد یار خان جتوئی صدر بارمنتخب ھوئے (بعد ازاں انہیں پہلی مرتبہ ممبر پنجاب بار کونسل بنوانے میں دن رات ایک کر دیا

اور اپنے وکلاء دوستوں کے ذریعے ڈویژن بھر میں انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا ) ان کے ساتھ.بار ایسوسی ایشن کا جنرل سیکریٹری بنا پھر 2005..کے الیکشن میں خود صدارتی امیدوار تھا پولنگ مکمل ھو گئی. چئیرمین الیکشن بورڈ عبدالروف خان لُنڈ نے گنتی شروع کروائی تو ھارنے والا گروپ بیلٹ باکس اٹھا کر بھاگ

نکلا اور چشم فلک نے پہلی مرتبہ قانون دانوں کی لا قانونیت دیکھی لکڑی کے باکس کو توڑ پھوڑ کر آگ لگا دی گئی اور اسی چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ھونے والا نوجوان قانون دان مسکراتا بھی رھا

اور اپنے دوستوں کو صبر حوصلے کی تلقین بھی کرتا رھا.. قبل ازیں بھی اور صدر بار بننے کے بعد بھی بار اور وکلا کے حقوق کی جنگ لڑتا رھا اے سی آفس کے عقب میں دو، منزلہ وکلا چیمبرز،، موجودہ بار روم سے قبل والے بار روم کی توسیع وتزئین.. جسکی بنیاد ھمارے ھی والد محترم کے دور صدارت میں رکھی گئی تھی.. بار کینٹین احاطہ کچہری میں

پختہ روڈ چیمبرز کے درمیان سولنگ، بلدیہ کی جانب سے صفائی اور چھڑکاو کا انتظام وغیرہ اسکی ادارے سے لگن اور اپنے شعبہ سے اخلاص کامنہ بولتا ثبوت ھیں..

جام پور میں سب سے پہلے پبلک ماڈل سکول سر سید پبلک ماڈل سکول کا قیام جسکی سیاسی انتقامی بنیادوں پر قبضہ میں لیکر ایلیٹ کلاس کیلئیے DPS ..بنا دیا گیا ھے.. سردار غزالی رحیم خان پتافی کی سربراہی میں رجسٹرڈ سماجی تنظیم سر سید ویلفئیر سوسائٹی کو نہ صرف فعال کیا بلکہ پورے پنجاب میں اس تنظیم کو سوشل سیکیٹر کی نامور تنظیم بنا ڈالا جسکی کارکردگی کو نہ صرف پنجاب حکومت کے اعلی ا عہدیداروں نے سراہا بلکہ

اس وقت کی وزیر سماجی بہبود محترمہ شاہین عتیق الرحمان نے بذات خود جام پور آکر شاباش دی اسی تنظیم کے زیر اہتمام ایک بہترین اور سچے سوشل ورکر کے طور پر حیدریہ کالونی میں پل لُنڈی پتافی سوشل ویلفئیر کی بھوت بنگلہ بنی عمارت کی آباد کاری میں بھر پور کردار ادا کیا اس میں صحت کی سہولتوں کی مفت فراھمی، زچہ وبچہ کیلئیے

اپنی مد د آپ کے تحت طبی امداد بلکہ ایک منی ھسپتال جہاں الٹرا ساونڈ، ٹیسٹ لیبارٹری، آپریشن تھیٹر سمت تمام سہولتیں 24..گھنٹے فراھم تھیں… افسوس کے سینکڑوں، غریب عورتوں اور معصوم بچوں کو مفت طبی سہولیات اور ادویات فراھم کرنے والا یہ ادارہ بھی،،. علاقہ کے شنشہاہ وقت،،،،کی خوشنودی میں محکمہ سوشل ویلفئیر کے ابن الوقت خوشامدی رشوت خور افسروں نے حیلہ سازیاں کر کے بند کروا دیا.

جہاں ساڑھے آٹھ لاکھ روپے کی لاگت سے بحالی معذوراں کے آلات بھی موجود تھے. جہاں معذور لوگوں کو مفت علاج کی سہولت میسر تھی اسی عمارت میں غریب اور نادار بچیوں کیلئے دستکاری سنٹر بھی کھولا گیا لاکھوں روپے کا مالیتی فرنیچر وغیرہ بھی نجانے کدھر گیا

وہ سب کچھ مگر آج بھی بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے عمارت کی سالانہ مرمتی کا جو فنڈ منظور ہوتا ہے وہاں واضح طور پر میٹرنٹی ہوم لکھا ہوتا ہے ( واضح رہے کہ یہ عمارت بطور میٹرنٹی ہوم اور بلڈنگ دارالفلاح ” موجودہ منی صنعت زار ” جنرل ضیاء الحق کے دور میں وزیر سماجی بہبود محترمہ عفیفہ ممدوٹ صاحبہ کی سفارش اور گرانٹ سے بنی تھیں جنہیں بطور ڈسٹرکٹ سوشل ویلفئر آفیسر ہمارے مرحوم چچا محمد ریاض خان مستوئی

نے باقاعدہ سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کے نام منتقل کروایا تھا بجلی کا میٹر اور ٹیلی فونز کنکشنز بھی سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کے نام سے لگوانا اسی خاندان کے مرہون منت ہیں اور اسی بنیاد پر ہی محکمہ ان بلڈنگز کا قانونی مالک ہے )..۔۔… اسی سرفراز نواز مستوئی نے محلہ لال پروانہ میں سرکلر روڈ پر ایک اور تعلیمی ادارہ رحیم پبلک سکول قائم کیا

جو اسکا ذاتی تھا اور آج بھی ماشا اللہ لنڈی پتافی روڈ پر کامیابی سے چل رھا ھے.. … میونسپل پارک کی مشرقی جانب جیلانی باربی کیو والا روڈ بھی سرفراز نواز مستوئی کی کاوشوں کی مرھون منت ھے ورنہ یہ روڈ تو تھا ھی نہں اور اب بھی ماڈل بازاریعنی پرانی کمیٹی کے ساتھ جہاں موبائل کمپنی کا ٹاور کھڑا ھے پارک کی دیوار کا کچھ حصہ موجود ھے.

تمام گلیاں بمعہ بار بی کیو پلاٹ کا فرنٹ سب بند تھے اھل علاقہ اذیت میں تھے سرفراز خان ٹی ایم اے کا لیگل ایڈوائزر بھی تھا اس تنہا شخص نے دن رات بھاگ دوڑ کر کے یہ روڈ منظور کروایا

اور پارک کی دیوار جہاں لائیبریری ھے اس جانب کر دی گئی…….. پوری زندگی دوستیاں بنائیں تعلق نبھائے بد ترین دشمنوں کو بھی اپنے اخلاق اور کردار سے اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا آج اُسے ھم سے بچھڑے 17 برس ھو گئے.. 28 جولائی 2005.کو لاھور سے واپس آتے ھوئے غازی گھاٹ کے نزدیک روڈ ایکسیڈنٹ میں جہان فانی سے رخصت ھو گیا. انا للہ وانا الیہ راجعون .

پھر بھی جاتے جاتے پورے خاندان اور احباب کو حیرت میں ڈال گیا اسکی نماز جنازہ اور قل خوانی میں کچھ آھیں کچھ سسکیاں رقت آمیزمناظر مجھ جیسے کمزور دل انسان کو مزید اداس کر دیتے ہیں ھمیں تو پتہ بھی نہ تھا کہ

وہ کتنا بیوہ خواتین، یتیم بچوں کا ھمدرد اور غمگسار تھا نجانے کتنے لوگوں کیلیئیے روزگار کے ذرائع پیدا کر چکا تھا میرا کیونکہ حقیقی بھائی تھا جتنا بھی سچ یا تفصیلات لکھوں شاید نئی نسل اسے ایک افسانہ تصور کرے ‘اس لئیے اس دعا کے ساتھ اپنی یادوں کے

دریچے بند کرنا چاھوں گا کہ اے پاک پرور دگار ‘ خالق دو جہاں اپنے پیارے حبیب محمدعربی صلعم سرکارکے طفیل میرے بھائی کی بخشش فرما دے اسکے بچوں کی حفاظت فرما انکو سکھی صحت اور خوشحالی کے ساتھ سدا سلامت رکھ آمین..

ثم آمین ……. تمام احباب ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور تین دفعہ سورۃ اخلاص درود ابراھیمی کے ساتھ پڑھ کر سرفراز نواز خان کی مغفرت کیلئیے دعا فرمائیں شکریہ…..

خاکسار آفتاب نواز مستوئی 28 جولائی 2022

About The Author