مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گورنر راج نہیں گورننگ راج!||نعیم مسعود

آخر سر جی اینڈ کمپنی کو چوہدری صاحب سے زیادہ کون جانتا ہے؟ اہل علم کو یاد ہو گا کہ، بزدار حکومت کے الوداعی ایام میں چوہدری صاحب نے آصف علی زرداری کو یاروں کا یار جبکہ بلاول بھٹو کو ڈیسنٹ اور تربیت یافتہ قرار دیا تھا۔

نعیم مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو لوگ پرویز الٰہی کو عمران خان کے فرمانے کی بنیاد پر ڈاکو کہتے ہیں انہیں نظرثانی کرنا ہوگی، عمران خان نے جب 35 پنکچر کی بات کی تھی، تو الیکشن 2013 میں دھاندلی کے ثبوت فراہم نہ کر پانے کی پاداش میں انہوں نے عدالت میں کہہ دیا تھا کہ، وہ ایک سیاسی بیان تھا۔ اور عدالت نے مان بھی لیا تھا۔ پرویزالٰہی کو آصف علی زرداری نے کبھی اپنی حکومت میں ڈپٹی وزیر اعظم بھی بنایا تھا جب نون لیگ نے 2008 میں زرداری حکومت کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو جلد بحال نہ کرنے کی بنیاد پر چھوڑ دیا تھا، پنجاب میں پیپلز پارٹی کے سات وزراء شہباز حکومت کے ساتھ آخر تک روزانہ کی بنیاد پر بے عزت ہونے کے باوجود چپکے رہے تھے، اور آخر وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے 3 سال بعد اٹھا کر باہر پھینکنے کے انداز میں نکال باہر کیا۔

آصف علی زرداری کی وہ وزرا سلیکشن دیکھنے کے بعد میں زرداری فہم و فراست کا قائل ہونے کے باوجود پنجاب میں پیپلز پارٹی کے دوبارہ ابھرنے کو خواب میں بھی نہیں دیکھتا۔ گر اہل علم کو یاد ہو تو ان میں ایک راجہ ریاض بھی شامل تھے۔ ان ساتوں میں اس کے بعد اگر کوئی جیتا تو وہ راجہ ریاض ہی تھا وہ بھی 2013 میں ہارنے کے بعد 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتا، ورنہ آج تک کوئی کسی بھی ٹکٹ پر کہیں نہیں جیتا، نہ امکان ہے!

خیر، پرویز الٰہی کو ڈاکو کہنا صرف اس لئے ہی نامناسب نہیں کہ خان تو کہہ کر یو ٹرن لے لیتا ہے، اس لئے بھی نامناسب ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کو نون لیگ بھی وزارت اعلیٰ طشتری میں رکھ کر دینے کے لئے تیار تھی، مگر پرویز الٰہی نے نہ لی۔ شاید، سر جی نے کہہ دیا یا سمجھا دیا ہو گا کہ

” چوہدری صاحب! اگر آپ نون لیگ کے ہوئے تو یو ٹرن صرف خان ہی نہیں ہم بھی لے سکتے ہیں، جو ہم نے نون لیگ کے تناظر میں لینا ہے!“

آخر سر جی اینڈ کمپنی کو چوہدری صاحب سے زیادہ کون جانتا ہے؟ اہل علم کو یاد ہو گا کہ، بزدار حکومت کے الوداعی ایام میں چوہدری صاحب نے آصف علی زرداری کو یاروں کا یار جبکہ بلاول بھٹو کو ڈیسنٹ اور تربیت یافتہ قرار دیا تھا۔

فقیر کہتا ہے کیوں نا آہستہ آہستہ چلیں کہ، عشق کے امتحاں ابھی اور بھی ہیں، عمران خان نے کئیوں کو برا کہہ کر گلے لگانا اور کئیوں کو قربتوں کی فضاؤں سے دوری کی خزاؤں میں پھینکنا ہے، فتوے ابھی ہزار باقی ہیں اور یو ٹرن ابھی سینکڑوں رہتے ہیں سو خان کا کسی کو برا کہنا یا خان کا کسی کو بھلا کہنا پینتیس پنکچروں کی طرح ایک ”سیاسی بیان“ ہے، نہیں یقین آ رہا تو عدالت کا ریکارڈ نکلوا لیجیے۔ بڑے ادب سے گزارش ہے کہ، کسی کو ڈاکو و ہلاکو یا پیر فقیر کہنا ہو تو خود ہی جاگتے رہنا خان پر نہ رہنا۔

صدارتی نظام کی کہانی چلنی ہے تو کبھی پارلیمانی نظام کی، ریاست مدینہ سے چائنہ و ترکی تک سٹوریاں ابھی باقی ہیں، 18 ویں ترمیم کو بیسیوں بار ابھی برا کہنا ہے، خان کا کئیوں کو غدار کہنا ابھی باقی ہے، تو پھر کیا اب بھی وقت کے سنگ سنگ بدلتے پھرو گے جاناں؟ پس احتیاط کریں جس طرح خان نے کسی کو کہا تھا کہ چپڑاسی بھی نہ رکھوں بعد میں وزیر داخلہ رکھ لیا، اس لئے کس کس نقش قدم پر چلتے پھرو گے اور پاؤں چھالے کرو گے؟

ضد کی سیاست کے پیچھے ضدی ہو کر تو چلا جاسکتا ہے جمہوری ہو کر نہیں، جمہوری سفر میں گالی ہوتی ہے نہ گولی صرف انسانیت ہوتی ہے یا انسانی حقوق!

کڑوا سمجھئے یا میٹھا کہئے، یہ سچ ہے چوہدری پرویز الٰہی کو نون لیگ بھی طشتری میں رکھ کر وزارت اعلیٰ دے رہی تھی، مگر ’چاچا جی‘ سے این او سی نہ مل سکا پس آگے بڑھ کر چوہدری نے مینا نہ اٹھایا۔

جمع تفریق کے بعد فقیر شکر تو اس پر ادا کر رہا ہے عمران خان بھلے ہی سردار عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس کہتے رہے مگر 22 سالہ جدوجہد میں وہ کچھ نہ سمجھے جو 4 سالہ جہد میں سمجھ گئے اور عثمان بزدار والی توہم پرستی سے توبہ کر لی، پرویز الٰہی، کم از کم توہم پرستی کی پراڈکٹ نہیں، اور عدالتی پراڈکٹ کسی توہم پرستی کی مصنوعات سے ہزار درجہ بہتر ہے۔

پرویز الٰہی اظہار تشکر میں خود کفیل ہیں، تاریخ گواہ ہے انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو سو سال (یا پتہ نہیں ہزار سال) وردی میں دیکھنے / رکھنے کی تمنا کی تھی، اور اب وہ محسنین کو پچاس برس تک عزت مآب بھی رکھ سکتے ہیں۔ رہی بات چوہدری شجاعت حسین کی، تو وہ گھر کی بات ہے : ”رات گئی بات گئی اور مٹی پاؤ“ !

آصف علی زرداری، چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی اعصاب شکن صورتحال کو میاں نواز شریف و شہباز شریف کی نسبت زیادہ انجوائے کرتے ہیں تاہم مونس الٰہی تو اس وقت خان مخالف ہو گئے تھے جب انہیں ترسا ترسا کر وفاقی وزارت ملی۔ مجھے تو ”خدشہ“ ہے پرویز الٰہی چوہدری شجاعت حسین کے کہنے پر پیپلز پارٹی کے سیون اسٹارز کو کہیں وزارتوں کی آفر نہ کر دیں، ویسے بھی یہ ”جمعے جنج نال“ کے سوا ہیں ہی کیا؟

نہایت سنجیدہ بات یہ، دیکھنا ہے اب وزارتوں میں تعلیم والے، بلدیات، قانون، لیبر اور داخلہ والے کچھ کرتے ہیں یا ماضی کی طرح گل ہی کھلیں گے؟ تعلیم تو پرانے وزیر ہی کو ”درکار“ ہے سو دے دیں تاہم تعلیمی مشینری کامران ماضی رکھنے والے عمران مسعود کو بھی دی جا سکتی ہے۔ ہماری ’ہمدردیاں‘ حمزہ جی کے ساتھ جتنی بھی تھیں انہوں نے اور ان کی قلیل مدتی کابینہ نے مایوس ہی کیا تھا، اور ان کا مقدر قلیل البضاعت بھی رہا۔ کہیں یہ کابینہ اقل قلیل کا روگ نہ ہو جائے بہرحال پرویزالٰہی کا گورنس ٹریک برا نہیں، اب اللہ جانے ”تجربہ کار“ عثمان بزدار سے مشورہ لینے نہ بیٹھ جائیں، بزدار تو قرب و جوار ہی میں رہیں گے کہ کزن اور بھائیوں کے کرپٹ کاغذات کو کوریکٹ جو کرنا ہے۔

لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ، قاف لیگ کو اب کوہ قاف تک لے جانے کا پورا بندوبست پرویز الٰہی ضرور کریں گے، نوانی صاحب اور بھروانہ کے علاوہ بھکر اور جھنگ سے دیگر بھی لائیں گے، اور شاہ محمود قریشی کو راضی رکھ کر اور اس کے صاحبزادے کو وزارت دے کر ایک بڑا پی ٹی آئی دھڑا بھی خوش کریں گے، ویسے تو ترین اور علیم بھی کبھی قاف لیگی ہی تھے! خیر، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، دوسری جانب مرکز میں پروفیسر احسن اقبال، رانا تنویر حسین اور برجیس طاہر و ایاز صادق کے غصے ہی لال پیلے رنگ چھوڑ کر سبز نہیں ہو رہے، جو نون لیگ کے لئے اوپر ایک برا شگون ہے۔ چوہدری جعفر اقبال آف لالہ موسیٰ سی گجرات سے ابھرتی قیادت کو ابھار کر آبیاری چھوڑ دی لیکن نیچرل سلیکشن نے گجراتی پرویز الٰہی اور پیپلز پارٹی نے گجراتی قمر زمان کائرہ کی سینچائی اور سیرابی نہیں چھوڑی۔ نون لیگ یاد رکھے الیکشن بھی سر پر ہے اور اصلی کارکنان اور سچے اکابرین فراموش ہیں!

پنجاب کا دل 2018 سے ٹوٹے ٹوٹے ہے کیونکہ اس کی ترقیات و تعمیرات کو شہباز شریف نہ مل سکا جیسے مرکز کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہے کہ اس کی اصلاحات و تعمیرات کو ہنوز نواز شریف نہ مل سکا یہ تعمیراتی و اصلاحاتی وہ کمی اور حقیقت ہے جو نئی پنجاب حکومت کی چاپلوسی بھی گر کرنے بیٹھیں تو فراموش نہیں کی جا سکتی!

اور فقیر جانتا ہے چونکہ نون لیگ پرویز الٰہی کی صلاحیتوں سے آشنا ہے چنانچہ وہ کسی گورنر راج کے بجائے پرویز الٰہی کی گورنس کو مانیٹر کریں گے!

بشکریہ:روزنامہ جنگ

یہ بھی پڑھیے:

محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود

اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود

عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود

زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود

نعیم مسعود کے دیگر کالمز پڑھیے

%d bloggers like this: