دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

احوالِ زندگی کچھ اور سنائیں ہم||حیدر جاوید سید

چند دن بعد توفیق میاں کی کوششوں سے ہی سائٹ ایریا میں ایک فلمی سٹوڈیو کے پہلو میں واقع نیشنل پائپ فیکٹری میں مشین ہیلپر کی ملازمت مل گئی۔ اس فیکٹری کے جس سیکشن میں کام پر لگا وہاں ایک برما مشین کے سامنے لگ بھگ 6سے 8فٹ لمبا پائپ پکڑ کر کھڑاہونا پڑتا تھا مشین آپریٹر اس پائپ پر نشان زدہ مقامات پر برمے سے سوراخ کرتا تھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپا اماں ( سیدہ فیروزہ خاتون نقوی رح خداوند انہیں اپنی نعمتوں سے نوازے) نے لے پاک بیٹے کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ روٹی رکھنے کے لئے استعمال ہونے والی چار چنگیروں کو بڑی مہارت سے کاٹ کر ایک شاندار چھابہ بنادیا۔ چھابے کے دونوں طرف سفید ململ کے کپڑے کو ایک بیلٹ کی صورت دی۔

ایک دن سکول سے واپسی پر تیار چھابے میں بھنے ہوئے کالے چن اور میٹھی پھلیاں رکھی تھیں۔ سپہر کے بعد آپا اماں نے چھابے کا بیلٹ والا حصہ گلے میں ڈال کر دونوں بازو اس کے اندر سے نکال دیئے۔ کہنے لگیں راجی بیٹا جب گردن تھک جائے تو چھابے کو دونوں ہاتھوں پر اٹھالینا ہاتھ تھکیں تو چھابے کو اسی پوزیشن میں کرلینا جیسے میں نے پہنایا ہے۔

ان کی ہدایت کے ساتھ گھر سے نکلا۔ محلے کی دوسری گلی میں پہنچ کر خوانچہ فروش نے جو پہلی آواز لگائی وہ آج بھی یاد ہے۔ بجائے اس کے کہ چنے پھلیاں خریدلو کی آواز لگاتا منہ سے بے ساختہ نکلا

’’آلو بالو شے ونیڈیندی گھن ونجوں‘‘۔

یہ صدا تقریباً ہر ملتانی نے اپنے بچپن کے معصوم دنوں میں ایک سے زائد بار سنی اور آواز کی سمت پر دوڑ بھی لگائی ہوگی۔ اپنے منہ سے نکلی پہلی صدا پر خود بھی حیران ہوا۔ شکر ہے وہاں کسی کو سرائیکی نہیں آتی تھی اور غالباً آواز بھی کراری نہیں تھی۔

بہرحال عصر سے مغرب کے درمیان گھوم پھر اور آوازیں لگاکر تین روپے بارہ آنے کمائے نصف سے کچھ کم سامانِ فروخت بھی بچ گیا۔ آپا اماں کی ہدایت تھی جونہی مغرب کی اذان کان میں پڑے سیدھا گھر کا راستہ لوں۔ کسی اجنبی سے بات نہیں کرنی نہ زیادہ دور جانا ہے۔

تین روپے بارہ آنے کماکر 9سال کا محنت کش بچہ گھر پہنچا تو آپا اماں منتظر ملیں۔ جلدی سے انہوں نے خوانچہ گلے سے اتارا، ماتھے پر بوسا دیا اور گردن سہلانے لگیں۔

اس وقت ان کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی اتری ہوئی تھی۔ آج 55سال بعد یہ سطور لکھتے ہوئے آپا اماں کا شفیق و کریم چہرہ اور نم آلود آنکھیں صاف دیکھائی دے رہی ہیں۔

لگ بھگ دو اڑھائی برس تک خوانچہ فروشی کا سلسلہ چلتا رہا پھر ایک دن حکم صادر ہوا، راجی میاں آپ نے اپنی ضد اور شوق پورا کرلیا اور محنت کا امتحان بھی پاس کرلیا اب کل سے چھابہ لے کر نہیں جائو گے بلکہ ہماری جگہ لائبریری پر بیٹھو گے ۔

لیجئے اگلے دن سے ہم لائبریری پر بیٹھ گئے پہلے دن تو اکثر گاہک کتاب واپس کرنے یا لینے سے پہلے یہی دریافت کرتے رہے، ارے صاحبزادے آج آپ ہیں خیریت ، سیدہ آپا کہاں ہیں۔

میں ان کی خدمت میں عرض کرتا، جی وہ بالکل خیریت سے ہیں اب شام کے وقت لائبریری پر میں ہی بیٹھا کروں گا۔ جواب سن کر کچھ لوگ مسکرادیتے کچھ کہتے ماں بن کر تربیت کا حق نبھارہی ہیں سیدہ آپا۔

ایک دو نے یہ بھی کہا صاحبزادے خوش قسمت ہو بہت ترقی کرو گے۔

آپا اماں دنیا سرائے سے رخصت ہوچکی تھیں شہر وہی تھا کراچی۔ جنرل ضیاء کا عہد ستم تھا نصیر حسین میمن کا ہفت روزہ جدوجہد مارشل لاء کے عتاب کی زد میں تھا۔ ڈر کے مارے کوئی اخبار جریدہ نوکری دینے کو تیار نہیں تھا۔ رہنے کا ٹھکانہ تو تھا لیکن پیٹ کا دوزخ روٹی مانگتا۔

اس عہد ستم کے کچھ دن تو ایسے بھی تھے کہ تندور سے دو گرما گرم روٹیاں لی جاتیں اور ٹھکانے پر پہنچ کر ان روٹیوں پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے کر نمک اور سرخ مرچ ڈال کر دونوں روٹیوں کو چوپڑی روٹیوں کی طرح ایک دوسرے پر رکھ کر چوپڑا جاتا اور پھر رول بناکر پانی کے ساتھ کھالیا جاتا۔ ایک دن جب مہارت کے ساتھ اپنا مرچ پراٹھا تیار کررہا تھا تو غالباً بھوک کی شدت سے کمرے کا دروازہ بند کرنا بھول گیا تبھی ایک پڑوسی (محلے والے انہیں توفیق میاں کہتے تھے) نے دیکھ لیا۔

کچھ دیر بعد ان کے چھوٹے بھائی ارشد علی چائے کاایک پیالہ لے کر آئے اور کہنے لگے بھائی صاحب نے بھجوایا ہے کہہ رہے تھے مرچوں سے تلخی ہورہی ہوگی چائے پی لیجئے۔

توفیق میاں کے گھر سے آنے والا وہ چائے کا پیالہ جن حالات میں نصیب ہوا وہ ایک ایسی نعمت ثابت ہوا کہ میں چاہوں تو آپ کو لفظوں میں سمجھا نہیں سکتا۔

اسی دن شام سے پہلے توفیق میاں کے بھائی نے ایک بار پھر دروازے پر دستک دی اور بولے بھائی صاحب اور ابا جی آپ کو یاد کررہے ہیں۔

کمرہ بند کرکے اس کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ ارشد کے گھر میں داخل ہوتے ہی بیٹھک کا دروازہ کھلا اور توفیق میاں نے کہا ادھر آجایئے صاحبزادے۔

آگے بڑھ کر سلام عرض کیا اور بیٹھک میں موجود ان کے والد محترم (بھول نہیں پایا تو ظفر علی ان بزرگوار کا نام تھا) کو سلام و آداب پیش کیا۔

کچھ حال احوال کے بعد بزرگ بولے صاحبزادے ہمیں توفیق میاں نے بتایا کہ آپ روٹی پر نمک اور مرچ ڈال کر چوپڑ رہے تھے اور پھر پانی کے ساتھ انہیں کھایا۔ جی، میں نے کہا۔

خیریت ہوٹل سے سالن کیوں نہیں لیا۔ عرض کیا اتنے پیسے نہیں ہیں جتنے پیسے میرے پاس ہیں ان میں ا سی طرح دن میں صرف ایک وقت دو روٹی کھاسکتا ہوں۔

میری بات سن کر غضنفر علی صاحب بولے، مگر صاحبزادے آپ توکسی رسالے میں نوکری کرتے ہیں ناں پڑھنے کے علاوہ۔ جی حضور وہ رسالہ حکومت نے بند کردیا ہے۔

ہاں بند تو کرنا ہی تھا فوجی حکومت نے وہ رسالہ، توفیق میاں کو دو تین بار آپ نے ہی دیا تھا اپنا رسالہ وہ ہم نے بھی دیکھا خالص سیاسی اور سرخوں کا پرچہ ہے۔

ان کی بات سن کر میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ ظفر علی صاحب بولے دیکھو صاحبزادے جب تک نوکری نہیں ملتی ناشتہ اور کھانا آپ کو ہمارے گھر سے جائے گا۔

کچھ کہنے کے لگے منہ کھولا ہی تھا کہ انہوں نے کہا صاحبزادے آپ ہمارے ارشد علی کے ہم عمر ہو، ہمیں پتہ نہ چلتا تو اور بات تھی اب جبکہ ہمیں پتہ چل چکا کہ آپ ہفتہ دس دن بھر سے ایک وقت کھانا کھاتے ہو اور وہ بھی روٹی پر سرخ مرچ و نمک لگاکر تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آنکھیں بند کرلی جائیں۔

عرض کیا حضور میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔ جواب میں بولے صاحبزادے بچے بڑوں پر بوجھ نہیں ہوتے۔ کوشش ہم نے بہت کی کہ ان کی نہ مانی جائے

پھر اچانک بیٹھک میں ارشد علی کی والدہ محترمہ داخل ہوئیں۔ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں دیکھو صاحبزادے ہماری دو بہنیں ملتان میں بیاہی ہوئی ہیں اس رشتے سے آپ ہمیں عزیز ہو پھر خدا اور رسول پاکؐ کو بھی ہر مسلمان نے منہ دیکھانا ہے بروز قیامت تب حق ہمسائیگی ادا نہ کرنے پر ہم کیا جواب دیں گے ۔ ہتھیار ڈالتے ہی بنی یوں ہفتے دس دن سے نمک مرچ والی چوپڑی روٹیوں سے شکم سیر ہونے سے نجات مل گئی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ ارشد علی کی والدہ محترمہ نے مجھے تھوڑا سا گڑ بھی دیا تھا کہنے لگیں اس میں کچھ صبح نہار منہ کھالیا کرو تاکہ کچی سرخ مرچوں کا تریاق ہوسکے۔

چند دن بعد توفیق میاں کی کوششوں سے ہی سائٹ ایریا میں ایک فلمی سٹوڈیو کے پہلو میں واقع نیشنل پائپ فیکٹری میں مشین ہیلپر کی ملازمت مل گئی۔ اس فیکٹری کے جس سیکشن میں کام پر لگا وہاں ایک برما مشین کے سامنے لگ بھگ 6سے 8فٹ لمبا پائپ پکڑ کر کھڑاہونا پڑتا تھا مشین آپریٹر اس پائپ پر نشان زدہ مقامات پر برمے سے سوراخ کرتا تھا۔

ایک گھنٹہ کے بعد پندرہ منٹ آرام کے لئے ملتے تھے کیونکہ برمے سے سوراخ کرنے کے عمل میں پائپ گرم ہوجاتا تھا۔

ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کپڑے کے باوجود تپش اتنی شدید ہوتی کہ کبھی کپڑا ہاتھ سے گرجاتا تو پل بھر میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ دوپہر تین بجے سے شام آٹھ بجے تک کی اس ملازمت کے 10روپے روزانہ ملتے تھے یعنی دو روپے فی گھنٹہ۔

شکر ہے کریم و کریمینؐ اور تربیت کرنے والوں کا کہ تقریباً سوا دو ماہ یا کچھ کم زیادہ اس پائپ فیکٹری کی مزدوری نے لمحہ بھر کے لئے آزردہ نہیں ہونے دیا۔

پائپ فیکٹری کی مزدوری سے چھٹی کیسے ہوئی یہ کہانی پھر سہی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author