حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیجئے صاحب، مہربان قدر دان بھائی جان، عزیزو بچو اور پیارو، رجیم چینج میں شریک ممالک کی جانب سے مزید کاروبار کے لئے وعدہ کے مطابق ساڑھے سات ارب ڈالر کی رقم افغان ٹریڈ کے کنٹینرز کے ذریعے گزشتہ شب عین اس وقت جب رات کا دو بجا تھا اٹک پل کے اِس پار عالمی طاقتوں کے نمائندے کی جانب سے ” پنج مقامی پیاروں ” کے نمائندے کے حوالے کردی گئی نمبرون، ٹو اور تھری کے پراسرار تعاقب اور جاسوسی آلات سے بچتے کھچتے بالآخر رقم تخت لہور میں محفوظ مقامات پر رکھ دی گئی ہے۔
پنج پیاروں کے ایجنٹ زیرو زیرو سیون پنجاب اسمبلی کے چار اور ، دو سے تین کلو میٹر کے علاقوں میں جال ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
ایک ایجنٹ کچھ شوقین مزاج ہے یہ آواری ہوٹل سے اگلے چوک میں الٹی سمت کی سروس روڈ پر اپنی گاڑی میں کسی نئے گلوکار عنایت اللہ عیسیٰ خیلوی کا تازہ گانا لگاکر بیٹھا سر دھن رہا ہے۔ اس گانے کے بول ہیں ’’جے ڈالر ویخاواں فیر تیرا موڈ بنے گا‘‘۔
پتہ نہیں یہ ایجنٹ قسم کے لوگ شوقین مزاج کیوں ہوتے ہیں کچھ دیر قبل فقیر راحموں نے ایک ایجنٹ کو رنگے ہاتھوں الفلاح بلڈنگ کے باہر گلے میں ڈالروں کا ہار ڈالے بے سُری آواز میں گانا گاتے پکڑا ہے۔
دسو کم بخت گانا کیا گارہا تھا ’’میں ڈالر یورو ونڈاں آج قیدی کرلیا ممبر نوں‘‘۔
ایک اور ایجنٹ کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ پریس کلب میں چند بیروزگار صحافیوں کو گھیر کر بیٹھا ایک روزنامہ نکالنے اور ایک عالمی ٹائپ چینل کھولنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔
اس سے فوری طور پر ڈالر واپس لے کر معطل کرنا پڑا بھلا یہ اخبار اور چینل نکالنا بھی کوئی کام ہے۔
ہم تو مقدمے میں وکیل کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ دو اچھے وکیلوں کی فیس سے کم خرچے پر جب
"سارا سامان بمعہ تحریر ” مل جاتا ہے تو پیشیوں پر دھکے کھانے کی ضرورت کیا ہے۔
آواری ہوٹل سے آگے ایک اور ہوٹل ہے اس کے باہر پورے سات ایجنٹ مٹر گشت کرتے ہوئے دیکھائی دیئے ان میں سے دو تین پکے سگریٹوں کے سوٹے اڑارہے تھے۔
ایک جگہ جمع کرکے انہیں سمجھایا ’’دھواں ہی دھواں ہے زندگی‘‘ نہیں گانا بلکہ ڈھولک کی ہلکی ہلکی تھاپ پر ’’چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘ گانا ہے
اس مشورے کے بعد لمبی ناک اور بھینگی آنکھ والے ایک گھیرو (ایجنٹ) نے کہا شاہ جی، گلشن دے کاروبار دا سانوں کی ’’فیدہ‘‘۔ ہمارے ہمراہ موجود فقیر راحموں شاکٹ ہوگئے بولے مامے توں کی گانا وے ’’رقص ڈالر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘۔
کہنے لگا نہ فقیر سائیں قسم ہے سید داتا علی ہجویریؒ کی میں تو ایک نیا گانا لکھ کر لایا ہوں اجازت ہو تو عرض کروں؟
فقیر راحموں نے ہماری طرف دیکھنے کے بعد اپنی کھوپڑی شریف کو اقرار کے انداز میں زحمت جنبش دی۔ اس نے گانا اپنی بغیر سلنسر والی آواز سے ’’سماں‘‘ باندھتے ہوئے گانا شروع کیا
’’ہم تم ایک ہوٹل میں بند ہوں اور بیگ میں سے ڈالر گم ہوجائیں‘‘۔ فقیر راحموں نے جلدی میں آگے بڑھ کر اس کی گلوکاری پر دو ہتھڑے رسید کئے اور بیگ میں سے ڈالر نکال کر گننے بیٹھ گیا۔ مجھے اسے کہنا پڑا اللہ آلیا، سکیورٹی بہت ہے کہیں ڈالروں کے ساتھ پھڑے گئے تو لالے جوبائیڈن کو جب تک گرفتاری کا پتہ چلے گا اس وقت تک ہماری ’’وافر‘‘ خدمت ہوچکی ہوگی۔
فقیر سیانا بندہ ہے جھٹ سے ڈالروں کی گڈیاں بیگ میں ڈالتے ہوئے اونچے سروں میں گانے لگا ’’چل چلئے دنیا دی اس نکرے جتھے اسمبلی دا اجلاس ہووے‘‘۔
اس کے کاندھے ہلاکر سمجھایا قبلہ فقیر راحموں سرکار ہم عالمی طاقتوں کے خفیہ ایجنٹ ہیں گرلز کالجز کے باہر بھونڈی کرنے والے مجنوں ہرگز نہیں۔
اس پر ارشاد ہوا یار شاہ جی کیوں نہ براہ راست پائوڈین سے ہڈی جوڑنے والے عظیم سائنسدان سے ہی براہ راست پوچھ لیا جائے کہ یار چودھری وزیراعلیٰ کے الیکشن سے دستبردار ہونے کہا کیا لو گے؟
اس اچھوتے خیال نے جونہی سماعتوں پر دستک دی بارش کے باوجود پسینہ آگیا۔
ارے ہاں یہ تو میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ پچھلی شب جب ہم ’’مشن ڈالر لگائو ممبر اٹھائو‘‘ پر نکلے تو ہلکی ہلکی بونداباندی ہورہی تھی۔
خبردار جو کسی نے باندی کو ’’باندھی‘‘ سمجھا۔ خیر جو سمجھے وہ اپنے رسک پر۔
ہم ابھی نہر سے مال روڈ کی طرف مڑے ہی تھے کہ موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ سیٹلائٹ کے ذریعے فوراً ایف بی آئی کے سربراہ کو گھمبیر صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے گیارہ برساتیاں اور دو گرم کوٹ بھیجنے کے لئے کہا۔
واشنگٹن میں ایف بی آئی کے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے اس کوڑھ مغز نے حیرانی کے ساتھ کہا
’’مسٹر شاہ ویل گیارہ برساتی نوپرابلم آئی ویل ارینج چھیتی چھیتی۔ وٹ دا پرابلم یو ڈیمانڈ گرم کوٹ ایمی جیٹلی ؟ مائی پاکستانی فرینڈ جسٹ ٹولڈ می اتھے گرمی بوہت ہائے ‘‘
یقین کریں پورے پندرہ منٹ لگے سپریم طاقت کے خفیہ ادارے کے سربراہ کو یہ سمجھانے کے لئے کہ میں اور فقیر راحموں پکے سچے خاندانی ملتانی ہیں بارش کے ساتھ اگر ہلکی ہلکی ہوا بھی چل پڑے تو ہمیں سردی لگنا شروع ہوجاتی ہے اس لئے گیارہ برساتیوں کے ساتھ دو گرم کوٹ فوراً نہ ملے تو سمجھو ساڑھے سات ارب ڈالر کی رقم برباد ہی ہوئی سمجھو پھر
یہ سن کر وہ بوکھلا گیا کہنے لگا ’’یس یس مسٹر شاہ آئی انڈر سٹینڈ یو آر پرابلم رئیلٹی آئی انڈر سٹینڈ‘‘۔
بس پھر کیا تھا اگلے پانچ منٹ میں ایک خلائی طشتری نما چیز مال روڈ پر نہر والے پل کے اوپر نمودار ہوئی میں نے اور فقیر راحموں نے موبائل کی ٹارچیں جلاکر اسے اپنی موجودگی کا بتایا۔ طشتری سے ایک بڑا سارا پیکٹ ہماری طرف پھینک دیا گیا۔
فقیر راحموں نے بھاگ کر پیکٹ تھاما اور میری طرف بڑھتے ہوئے بڑبڑایا ’’کم بخت اتنے کنجوس ہیں کہ شاپر بھی ڈبل نہیں کرواسکے‘‘۔
ہم دونوں نے فوری طور پر پہلے گرم کوٹ پہنے اوپر برساتیاں چڑھائیں اور باقی 9عدد برساتیاں لے کر اپنے ایجنٹوں کو تلاش کرکے انہیں پہنائیں۔ اس دوران ایک ایجنٹ سے برساتی پہنتے ہوئے کہا، مرشد لنڈے کی جس دکان سے مرے ہوئے انگریزوں والی یہ برساتیاں خریدی تھیں پوچھ ہی لینا تھا ان کے پاس ’’ہیڈ‘‘ بھی ہوں گے۔
میرے ابا جی فرمایا کرتے تھے بارش اور دھوپ میں انگریز ’’ہیڈ‘‘ ضرور پہنتا ہے۔
جی تو چاہا کہ اس کے ابا جی کے فرمائے ہوئے پروہی عرض کیا جائے جو قبلہ خادم حسین مرحوم کہا کرتے تھے پھر سوچا اگر بندہ بات کو سمجھ گیا تو کہیں مشن ہی خطرے میں نہ پڑجائے۔ اس لئے چپ سادھ لی۔
کہانی کو مختصر کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ہمارے ایجنٹوں کی کوششوں سے 10ممبروں نے غائب ہوجانے کا وعدہ کیا ہے
ایک ممبر 20کروڑ ڈالر لیتے ہوئے کہنے لگا شاہ جی تسیں 20کروڑ دے رہے ہو زرداری تو 50کروڑ دے رہا ہے۔
اس کے سر پر ہلکی ہلکی چپیڑیں مار کر سمجھانا پڑا۔
پیارے ممبر جی ، زرداری 50کروڑ روپے دے رہا ہے ہم 20کروڑ ڈالر ایک ڈالر آج 226 روپے کا ہے اب حساب لگائو 20کروڑ ڈالروں کے کتنے روپے بنیں گے۔
اس مرحلہ پر ایک ستم یہ ہوا کہ ایک ڈالر 226 روپے کا ہوتا ہے، سن کر وہ ممبر بیہوش ہوگیا۔
دسو بھلا یہ بھی کوئی بیہوش ہونے والی بات تھی؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر