رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم پرانے وقتوں کے لوگ ہیں۔ اچھے زمانوں میں اچھی سیاست اور سیاست دانوں کو دیکھا ہے۔ ان کے جلسوں میں تقریریں سنیں‘ جلسوں میں جھنڈے بھی اٹھائے ‘ اور جب اُن کے بیانات اخباروں کے پہلے اور آخری صفحے کی زنیت بنتے تو ہم غور سے پڑھتے ۔ بات ذاتیات کی نہیں ‘ سیاست‘ نظریات‘ طرزِ حکمرانی ‘ قانون‘ آئین اور جمہوریت کی کرتے تھے ۔ ایسی ویسی گفتگوبھرے مجمع میں ہوبھی جاتی تو معمولی حوالہ یا حاشیے میں تبصرے سے زیادہ کچھ نہ ہوتا۔ یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ سب فرشتے تھے ‘ مگر اکثریت اعلیٰ کردار اور اخلاقی قدروں کی پاسداری کرتی تھی ۔ ہر دور اور ہر معاشرے میں ہر نوع کے لوگ ہر شعبے میں ہوتے ہیں۔ اچھے بھی ‘ برے بھی۔ بات معاشرے میں توازن کی ہے کہ غالب اور واضح برتری کن کرداروں کو حاصل ہے ۔ معاشرہ بگڑ جائے تو پھر کسی طبقے ‘ دھڑے اور پیشے تک گندگی محدود نہیں رہتی ‘ ہر طرف پھیل جاتی ہے ۔ ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ناامید تو نہیں ہوں مگر جونہی چاردیواری ‘ اپنے غریب خانے اور جامعہ کی حدود سے نکل کر عام معاشرے میںلوگوں سے کسی بھی حوالے سے واسطہ پڑتا ہے توبہت کچھ دیکھ ‘ سن اور محسوس کرکے دل گھبرا سا جاتا ہے ۔ اخلاقی پستی کھانے پینے کی عام جگہوں سے لے کر بازاروں میں تجارت کرنے والوں تک ہر جگہ اپنے واضح نشان رکھتی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں کسی باہر کے دشمن کی ضرورت نہیں ۔ تاجر پاکستانی ساخت کی اشیا رکھتے ہی نہیں ۔ اگر کوئی چیز دکھائیں گے تو کہیں گے کہ یہ دیسی ہے ‘ اس کی ذمہ داری نہیں ۔ زیادہ چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ درآمد شدہ اشیا کی فروخت میں منافع کی شرح زیادہ ہے ۔ اور پھر ہمارے ہاں عام رویہ یہی ہے کہ ہمیں باہر کی بنی ہوئی چیز چاہیے۔ ہم جیسے دیسی لوگ کئی بازاروں کے چکر لگاتے ہیں کہ دیکھیں یہاں کی بنی ہوئی ضرورت کی اشیا کہیں سے مل جائیں ۔ یہ صرف ایک مثال ہے ‘ وگرنہ دیگر شعبوں میں بھی یہی حالات آپ کے سامنے ہیں ۔
دوسری بات جو معاشرتی رویوں کے حوالے سے ا ہم اور ضروری ہے ‘ وہ یہ کہ حکمران طبقے کا اخلاقی معیار کیسا ہے۔ وہ لوگ جو ہماری اسمبلیوں کے اراکین ہیں ‘ اور اس طرح صحافت کے میدان میں ‘یا تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں ‘ یا سرمایہ دار‘ صنعت کار حلقوں سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد ہیں ان کی زندگی اور طرزِ عمل کیا ہے ؟ معاشرے میں عام لوگوں کا رہن سہن ‘ سوچ کے زاویے اوراخلاقی معیار اعلیٰ طبقے کے لوگوں سے متاثر ہوتا ہے ۔ انگریزی زبان کا لفظ ہے ”رول ماڈل‘‘۔ وہ کون سے لوگ ہیں ؟ہمارے فن کار‘ شعرا‘ ادیب ‘ کھلاڑی اور دانشور اس زمرے میں آتے ہیں‘ مگر سب سے زیادہ بااثر وہ لوگ ہیں جن کے پاس حکومت اور ریاست کی طاقت ہو‘ یا زیادہ دولت ہو۔ ہمارے ملک میں تو ان دنوں طاقتوں کو الگ کرنا اب ممکن نہیں رہا ۔ حکومت اور ریاست کے اقتدار میں کہیں حصہ ہے تو بہت کچھ پکے ہوئے پھل کی طرح جھولی میں خود ہی آکر گر جاتا ہے ۔ بلکہ یوں کہیے کہ پھلداری بہت مہارت سے کی جاتی ہے۔ اب تو تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ دو تین کا نام لیں تو لگتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں۔ چونکہ اب قومی خزانے سے جھولیاں ‘ بلکہ بوریاں بھرنا عیب کی بات نہیں بلکہ فخر سے سینہ تان کر اور کھلے میدانوں میں یہ دھندا ہوتا ہے ‘ اس لیے مشاہیر کی فہرست بناتے وقت سب کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ بہت کچھ ہم دیکھتے رہے ہیں‘ بلکہ میڈیا کے اس دور میں اب عوام ہر گائوں ‘ شہر اور ہر کونے میں دیکھ رہے ہیں۔ ہم بے بس عام لوگ کچھ نہیں کرپاتے ۔ بڑے بڑے اداروںمیں ان کی حمایت‘ نوکرشاہی ان کے تابع ‘ ابلا غِ عام میں ان کے کھلاڑی اور محاسبہ کرنے والوں کے ہاتھ بندھے ہوئے۔ ہم پہلی ریاست نہیں جہاں حکمرانوں کی بدکرداری نے سیاسی ‘سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کی جزیات کو مفلوج کررکھا ہے ۔
بروز جمعہ‘ 22 جولائی کی شام جو ہم نے پنجاب اسمبلی کی کارروائی کے دوران دیکھا‘ سنا اورجو بعد میں بیانات اور تبصرے نگاہ سے گزرے تو کوئی حیرت نہ ہوئی۔ یہ تو تقریباً چوالیس سال سے تواتر سے ہورہا ہے ۔ گٹھ جوڑ ‘ محاذ آرائی‘ چھانگا مانگا‘ اور اب سندھ ہائوس اور گجرات سے کوئی نئی خبر نہیں آئی۔کس دور میں یہ ڈرامے بازیاں نہیں ہوئیں ؟ جب تک سیاسی ڈرامہ جاری ہے ‘ اور صرف تین چار مخصوص کردار چھائے رہیں گے تو یہی کچھ ہوگاجو آپ نے دیکھا ہے‘ ا ور ہم تو خیر ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔ زمانہ بدل گیا‘ اس عرصے میں چین غریب ترین ممالک کی صف سے نکل کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔ بنگلہ دیش‘ جسے ہمارے مغرور سیاست دان کسی کھاتے میں شمار نہیں کرتے تھے ‘ وہ ہمیں قومی زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے چھوڑ گیا۔ خلیجی ریاستوں کا معیارِ زندگی‘ طرزِ حکمرانی اور معیشت کے چرچے ساری دنیا میں ہیں۔ ہماری جمہوریت کا پہلا دور ایوب خان کے بعد کا یا دوسرا دور‘ جب دوخاندان ایک دوسرے کے مدمقابل آئے ‘ ہم من حیث القوم و ملک نیچے کی طرف دھکیل دیے گئے۔ اور یہ اور ان کے دوست‘ عزیز‘ خاندان اور بریف کیس اٹھانے والے سیاسی کارندے اوپر کی طرف پرواز کرتے رہے ۔ ہمارے حکمران دنیا کے امیرافراد کی صف میں کھڑے ہیں ‘ اور ہم غریب‘ پسماندہ‘ بھکاری اور دیوالیہ ہونے والے ممالک کے فہرست میں پہلے نمبر وں پر آگئے ہیں۔ کوئی تو جواب دے کہ حکمرانی تو ا ن کے پاس تھی۔ پرویز مشرف بھی آئے تو اسمبلیوں میں ‘ کابینہ میں اور سیاسی جماعتوں میں جو اس وقت بڑے رہنما بنے ہوئے ہیں‘ کیا وہ ان کے ساتھ نہیں تھے ؟ اور اُنہوں نے بڑی بڑی بڑھکوں کے بعد صلح صفائی کرکے اپنی گرتی ہوئی طاقت کو کچھ دوام دینا چاہا تو یاد ہے کہ ہمارے ایک محترم کے لیے بہت بھاری پتھر ثابت ہوئے تھے ۔
حیرت کدے میں اگر چوالیس سال گزر جائیں اور آپ صرف ایک ہی سیاسی ڈرامہ اوروہی دو تین کردار دیکھتے رہیں تو حیرت ضرور ہوتی ہے ‘ مگر اس کا اثر زائل ہوجاتا ہے ۔ لیکن کھلی دھاندلی کا گجرات کی اعلیٰ قائدانہ صلاحیت اور قومی بے بسی کا نظارہ جو تین روز قبل دیکھنے میں آیا ‘ تو حیرانی ایک نئے جوش کے ساتھ حملہ آور ہوئی ۔ سوچا نہ تھا کہ اتنے واضح مینڈیٹ کے بعد اس درجے کے حربے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں؟ اخلاقی قدروں کا اب یہ معیار ہے کہ کچھ لوگ اس حرکت پر بھی داد و تحسین دے رہے ہیں کہ آپ نے کیا کمال کر دکھایا۔ ایسی سیاسی بصیرت ‘ چالبازی اور سازش کی تاویلیں آپ کو دنیا میں اور کہاں ملیں گی؟ ڈرامے کے کرداروں کی کیمروں کے سامنے تصویریں دیکھ کر گمان ہوتا ہے یہ کہ کوئی محاذ فتح کرکے آئے ہیں ۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ یہ ہمارے حکمران ہیں‘ سیاسی جماعتوں کے سربراہ ‘ ایک سابق صدر‘ دوسرا سابق وزیر اعظم۔ اب آگے دیکھیں ‘ آئین کی جیت ہوتی ہے یا ڈرامے بازی کی ! معاشرے اور عام لوگ اتنے بے بس بھی نہیں رہتے ۔ یہ مصنوعی تاج یہیں پر اچھلیں گے ‘ تخت بھی یہیں گرائے جائیں گے ‘ حشر بھی یہیں بپا ہوگا‘ یوم حساب بھی ہوگا۔ مجھے تو یقین ہے ۔ آپ کو شک ہے تو کچھ دیر انتظار کرلیں ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر