نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماچھکہ کشتی سانحہ 50 افراد کی شہادتوں کے ذمہ دار کون؟||جام ایم ڈی گانگا

محترم قارئین کرام،، سانحہ ماچھکہ کے حوالے گذشتہ روز ڈی سی آفس رحیم یارخان میں ہونے والی خصوصی میٹنگ کے دوران بتایا گیا ہے کہ حادثہ کی شکار کشتی میں 94 افراد سوار تھے.

جام ایم ڈی گانگا

03006707148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوبہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن سے اگلے روز 18جولائی کو صوبہ کی ٹیل پر واقع ضلع رحیم یار خان اور ضلع کی ٹیل کے علاقہ یونین کونسل ماچھکہ کے میں کھروڑ سردار پور میں دریائے سندھ میں باراتیوں سے بھری کشتی الٹنے کا ایک المناک واقعہ پیش آیا. جس کے نتیجے میں 50 انسانی قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے. یوں نہ صرف شادی والے گھر اور شادی والے علاقے میں خوشی غم میں بدل گئی بلکہ پورا ضلع اور پورا سرائیکی وسیب انتہائی غم اور سوگ کے دریا میں ڈوب گیا.کشتی الٹنے سے اتنی بڑی تعداد میں شہادتوں نے ہر صاحب احساس شخص کو رُلا دیا ہے. شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے. سرائیکی وسیب میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں. ہیڈ پنجند سے لیکر کر گڈو تک دریا میں حکومت کی جانب سے کوئی قابل ذکر حفاظتی انتظامات نہیں ہیں. اس سے بھی ایک بڑا سانحہ ماضی میں کوٹ مٹھن شریف اور چاچڑاں شریف کے درمیان چلنے والے کشتیاں کے روٹ پر پیش آچکا ہے جس میں سو سے بھی زائد لوگ شہید ہو گئے تھے. آئے روز کشتیوں کے الٹنے کے واقعات اور عوام کی شہادتوں کے بعد علاقے میں پل کی تعمیر کے لیے ایک بڑی منظم. عوامی جدوجہد کا آغاز ہوا. جس کے نتیجے میں بلاآخر اس وقت کے وزیر پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے بے نظیر شہید بریج کا سنگ بنیاد رکھا. اللہ کے فضل سے اب لوگ اس پل سے مستفید ہو رہے ہیں اور آئے روز پیش آنے والے حادثات سے بھی بچ گئے ہیں.
محترم قارئین کرام،، سانحہ ماچھکہ کے حوالے گذشتہ روز ڈی سی آفس رحیم یارخان میں ہونے والی خصوصی میٹنگ کے دوران بتایا گیا ہے کہ حادثہ کی شکار کشتی میں 94 افراد سوار تھے. ان میں سے 41 مرد اور 4 خواتین کو مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت باہر نکال لیا تھا.ڈوبنے والی 21خواتین اور2 بچوں کی نعشیں دریا سے باہر نکال لی گئی ہیں دیگر لاپتہ افراد کی تلاش کے لئے دریائے سندھ میں ریسکیو اپریشن جاری ہے۔جس میں 39 غوطہ خوروں سمیت 54 ریسکیورز,5 بوٹس ریسکیو اپریشن میں پولیس اور مقامی غوطہ خوروں کے ساتھ شامل ہیں۔ ورثاء کے مطابق 26 افراد تاحال لاپتہ ہیں
تادم تحریر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک26لاشیں ریسکیو کی جا چکی ہیں. حکومت پنجاب کی جانب سے کشتی ڈوبنے کے حادثہ کی انکوائری کے لئے جو اعلیٰ سطح پر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے.جائے حادثے کے وزٹ،مختلف چیزوں کے جائزے، حالات و واقعات کو دیکھنے کے بعد وہ کمیٹی کب تک اور کیا رپورٹ پیش کرتی ہے. بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں مستقبل میں ایسے حادثات کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں گے. وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کیپٹن ر ثاقب ظفر اور کمشنر بہاولپور ڈویژن راجہ جہانگیر انور ریسکیو اپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں.ڈی پی او پولیس کے جوان ریسکیو اپریشن میں حصہ لے رہے ہیں اور پولیس بوٹس بھی ریسکیو اپریشن میں امدادی اداروں کو فراہم کی گئی ہیں پاک فوج کے غوطہ خور ایس ایس جی کمانڈوز بھی جائے حادثہ پر پہنچ کر پہلے سے جاری ریسکیو کے کام میں شریک ہو چکے ہیں. یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ حکومت کیا اقدامات کرتی ہے. سر دست لاشوں کی تلاش کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے شہیدوں کے غریب ورثاء و پسماندگان کے لیے کسی بھی قسم کی امداد کا اعلان نہیں کیا گیا. سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی جانب سے بھی غریب علاقے کے غریبوں کے لیے کچھ دیکھنے جو نہیں مل رہا. الیکشن کے دنوں میں جنازوں کو کندھے دینے والے سیاستدان بھی نہ جانے کہاں گم ہو چکے ہیں. حادثہ قدرتی ہے مگر ہر حادثے کو قدرت کے کھاتے میں ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھنےوالوں کو بھی کچھ احساس کرتے ہوئے اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے ٹھوس قسم کے اقدامات کرنے چاہئیں. متحدہ عرب امارات ابوظہبی کے شیوخ کے فراہم کردہ فنڈ اور پیسے سے رحیم یارخان اور روجھان درمیان بننے والے شیخ زاید پل کو اطراف کی اپروچ روڈز بنا کر لنک کرکے چالو کر دیا ہوتا تو لوگوں کو پار اُروار دریا سے گزرنے سے آسانی ہو جاتی افسوس صد افسوس کے پل کی تعمیر کو مکمل ہوئے تین کا عرصہ گزر چکا ہے تخت لاہور کی پنجاب سرکار سے یا وفاق سے ابھی اپروچ سڑکیں تعمیر نہیں ہو سکیں. آخر عوام کو بتایا جائے کہ پل کا کام مکمل ہو جانے کے بعد وہ کونسی بڑی رکاوٹیں یا مسائل درپیش ہیں جن کی وجہ سے اپروچ سڑکیں بنا کر پل کو لنک نہیں کیا جا رہا.
حادثے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے لیکن ہم اپنے علم و مشاہدے کے مطابق یہ عرض کیے دیتے ہیں کے پار اروار گزرگاہوں کہ کمی، وقت کی بچت اور مہنگائی کی وجہ سے دریا کے ارپار لوگوں کا دور کا چکر کاٹ کر مہنگا سفر کرنے سے گریز، کشتیاں کے لیے کسی باقاعدہ ضابطے و قانون کا نہ ہونا،حفظ ماتقدم کے طور پر حفاظتی انتظامات کی زیرو پوزیشن، کشتیوں کی دیکھ بھال میں غفلت، سب سے اہم ترین وجہ اوور لوڈنگ ہے. کشتیاں الٹنے کے جتنے واقعات سامنے آئے ہیں ان میں دریا میں پانی کا تیز بہاؤ، موسمی حالات ہوا وغیرہ کم جبکہ اوور لوڈنگ سب سے سرفہرست ہے. اس تازہ ترین کشتی حادثے میں جو دو بڑی وجوہات ابھی دامنے آئی ہیں ان میں سرفہرست اوور لوڈنگ ہے اور دوسری کشتی کے کمزور پھٹے ہیں. اچانک سوار لوگوں کے کشتی سے چھلانگیں لگانے سے بھی کشتی عدم توازن کا شکار ہوتی ہے.یہاں بھی غالب امکان یہی ہے کہ کشتی میں سوار مردوں نے کشتی ڈوبنے کے خوف کا شکار ہو کر. جب چھلانگیں لگانا شروع کر دیں تو کشتی اپنی توازن قائم نہ رکھ سکی اور زیادہ وزن والی سائیڈ سے ڈوب گئی. خیر اب تو ایک اعلی سطحی انکوائری کمیٹی بھی بن چکی ہے.امید ہے کہ اس کی رپورٹ سے. تقریبا حقائق سامنے آ ہی جائیں گے.
محترم قارئین کرام، دل بہت دُکھی ہے. گذشتہ تین روز سے غمگینی کا عالم ہے. خواہش کے باوجود کچھ نہیں لکھا جا رہا تھا. شہید ہونے والی تمام خواتین، مرد اور بچوں رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں. اُن کے لیے تو یقینا جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے. ہماری حکومت، سیاست دانوں، مخیر حضرات اور ہم سب کو اپنی اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق شہیدوں کے غریب محنت کش ورثاء کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیئے خاص طور پر پنجاب سرکار ہو مالی ریلیف پیکیج کا فوری اعلان اور بندوبست کرنا چاہئیے

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

About The Author